• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مسلمانوں کو اپنی شبیہ بہتر بنانےاورتعلیمی ومعاشی محاذ پرحقیقی معنوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے

Updated: December 31, 2023, 5:38 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

۲۰۲۳ء رخصت ہورہا ہے ، نئے سال کی آمدآمد ہے، ایسے میں جہاں ہمیں اپنا احتساب کرنا ہے اور دیکھنا ہے کہ اس دوران ہم نے کیا کھویا اور کیا حاصل کیا؟ وہیں آئندہ کی منصوبہ بندی بھی کرنی ہے۔ اسی موضوع کےتحت ’’ہندوستانی مسلمانوں کیلئے رواں سال کیسا رہا؟اور آئندہ سال کیلئے ان کی حکمت عملی کیا ہونی چاہئے؟ ‘‘ جیسے ۲؍ بنیادی سوال کے ساتھ ہم نے ملک کی کئی اہم شخصیات سے رابطہ کیا اور ان سے ان سوالوں کا جواب جاننے کی کوشش کی۔ ترتیب و پیشکش: قطب الدین شاہد

It may not have been a great year for Indian Muslims, but they did not seem disheartened at any stage. Photo: INN
ہندوستانی مسلمانوں کیلئے سال رواں بھلے ہی بہت اچھا نہ رہا ہو لیکن وہ کسی بھی مرحلے پر مایوس نظر نہیں آئے۔ تصویر : آئی این این

برادران وطن کیلئے عملی دعوت کا نمونہ بنیں


 ملک میں مسلمانوں کو جن حالات کا سامنا ہے،انہیں دیکھتے ہوئےہمیں مذہبی، سماجی، معاشی اور سیاسی چاروں محاذ پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت تھی، ایک دوسرے کو سہارا دے کر آگے بڑھنا چاہئے تھا مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ نہ ہم میں وہ دینی بیداری  آئی جو وقت کا تقاضا ہے نہ ہی ہمارےا داروں نے اس جانب کامیاب کوشش کی۔ ہندوستانی سماج میں اس وقت مسلمانوں کی جو شبیہ پیش کی جارہی ہے ،اس میں ضرورت اس بات کی تھی کہ ہم اپنی سماجی اور مذہبی زندگی کے ذریعہ برادران وطن کے سامنے ایک مثال بنتےتاکہ ان کے ذہنوں میں  ہمارے تعلق سے جو غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں وہ دور ہوتیں۔ اس ضمن میں کوششیں یقینی طو رپر ہوئی ہیں مگر وہ نتائج برآمد نہیں ہوئے جو ہونے چاہئیں۔ سیاسی محاذ پر تو ہم ہر الیکشن میں پیچھے ہی ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ایسے وقت میں جبکہ ایک سازش کے تحت سماج میں ہمیں پرایا کرنے کی کوششیں ہورہی  ہیں، نئے سال کیلئے ہمیں  عزم کرنا چاہئے کہ ہم خود میں مثبت تعلیمی، سماجی  اور اخلاقی  تبدیلیوں   کے ساتھ ایک ایسا کردار پیش کریں کہ ہند وستانی سماج میں ہمیں وہ مقام حاصل ہوسکے جو ہمارے لئے بھی قابل قبول ہو اور دوسروں کے لئے بھی۔
اس کے علاوہ ہمیں اپنی نسلوں کی ایسی تربیت کرنی ہوگی کہ مقابلہ آرائی کے اس دور میں وہ ہر جگہ ممتاز نظر آئیں اور ان کا مذہبی کردار ایسا ہوکہ برادران وطن کیلئے عملی دعوت بن سکے۔ اس کے علاوہ ہمیں ہر جگہ اپنے ادارے قائم کرنے ہوں گے خاص کر بچیوں کی عصری تعلیم کے ادارے۔ ایک اور اہم بات۔ اپنی تقریبات میں ہم جس طرح سے فضول خرچیوں کے عادی ہیں، اگر اُن پر روک لگ جائے تو اس رقم سے بھی بڑی حد تک یہ ضرورتیں پوری ہوسکتی ہیں۔
مفتی عزیزالرحمان فتح پوری بزرگ عالم دین ہیں اور مفتی مہاراشٹر ہیں۔
 نسل نو کو علم  کے زیور سے آراستہ کریں


 ایک سال اور گزر گیا۔ اس پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ اس مرتبہ بھی ہم کچھ ٹھوس کام نہیں کرسکے بلکہ یہ پورا سال وسوسوں، اندیشوں اور تبصروں کے درمیان نشستندو گفتندو برخاستند کے ساتھ بس یوں ہی گزر گیا۔ ہم نے کافی وقت ضائع کیا لیکن اب اپنے وقت اور اپنی حصولیابیوں کااحتساب کرتے ہوئے آئندہ کا لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ میرے خیال سے چار بنیادی نکات پر سختی کے ساتھ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اول یہ کہ ہم تعلیم  کے تئیں ٹھوس منصوبہ بندی کریں، اپنی نسل کو علم نافع کے زیور سے آراستہ کریں کیونکہ نسل ہی اصل ہے۔ دوم یہ کہ اپنی معیشت کو بہتر کریں اوراس طرح ملک و سماج میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کریں۔  اسی کے ساتھ سماجی روابط کو بہتر کریں، بھائی چارگی اور محبت کو عام کریں اور اپنے اخلاق سے دوسروں کا دل جیتنے کی کوشش کریں۔ یہ تیسرا نکتہ ہوگا۔ چوتھا نکات یہ ہے کہ ایک داعی بن کر زندگی گزاریں جو ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس کیلئے اول الذکر تینوں نکات ہمارے لئے ممدومعاون ثابت ہوں گے۔ 
ڈاکٹر عبدالقدیر ماہر تعلیم ہیں اور بنگلور میں واقع  شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنس کے چیئرمین ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے مشن کو عام کرنے کی کوششوں کے تحت اب اس ادارے کی شاخیں ملک کی کئی ریاستوں میں کھل چکی ہیں۔
ہوا کا راستہ روک کر شمع کو بجھنے سے بچائیں


۲۰۲۳ء ہندوستانی مسلمانوں کیلئے ایک مشکلوں بھرا سال رہا۔ سیاسی اتار چڑھاؤ کے ساتھ ہی یہ سال ناانصافیوں کیلئے بھی یاد رکھا جائے گا.. لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہم پوری طرح سے ناامید ہوجائیں۔ نئے سال میں نئی امنگ، نئی امیدوں اور نئے حوصلوں کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔  شمع بجھ رہی ہو اور ہوا کے جھونکے تیز ہوجائیں تو ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہم گھیر کر بیٹھ جائیں اور ہوا کا راستہ روک کر شمع کو بجھنے سے بچائیں۔کچھ یہی کیفیت آج ہمارے ملک اور ہمارے ملک میں اقلیتوں کی ہے۔ موجودہ حالات سے صرف مسلمان پریشان نہیں ہیں بلکہ وہ تمام لو گ اور طبقےبھی  نشانے پر ہیں جو برسراقتدار طبقے کی آئیڈیالوجی سے مطابقت نہیں رکھتے۔  ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے ہم متحد ہوکر حالات کا مقابلہ کریںاور اُن تمام لوگوں سے اتحاد کریں جو ہمارے ہم خیال ہیں اور ہماری ہی طرح  اُن طاقتوں کا ہدف بنے ہوئے ہیں۔ تعلیم کے موضوع پر ہم اکثر باتیں کرتے ہیں اور کچھ حد تک اس پر کام بھی ہوا ہے لیکن تعلیم کااستعمال ہم آج بھی اُس طرح سے نہیں کررہے ہیں جیسا کہ اس کا حق ہے اور اس کااستعمال کیا جانا چاہئے۔ تعلیم کا مقصد صرف شخصیت کا نکھار اور حصول روزگار نہیں ہے بلکہ اپنے حقوق کی معلومات اوراس کیلئے جدوجہد بھی ہے۔    
عارفہ خانم شیروانی ایک تیز طرار صحافی ہیں اور ملک کے نمائندہ صحافتی ادارے ’دی وائر‘ سے وابستہ ہیں۔ اس سے قبل این ڈی ٹی وی اور راجیہ سبھا ٹی وی سے بھی کئی سال تک جڑی رہیں۔  
مسلمانوں کیلئے  صرف کلینڈر تبدیل ہوتا ہے ، اس کی تقدیر نہیں بدلتی


بات صرف ایک سال کی نہیں ہے... ہندوستانی مسلمان  تو ۱۹۴۷ء کے  بعد ہی سے مسائل و مصائب میں گھرے ہوئےہیں۔ اس معاملے میں مسلمان اکیلے نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ دیگراقوام کے لوگ بھی ہیں  جو انہی کی  طرح کرب و پریشانی کی کیفیت سے مسلسل دوچار ہیں۔  ان کیلئے صرف کلینڈر تبدیل ہوتا ہے ، ان کی تقدیر نہیں بدلتی۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں سیاسی شعور کا فقدان، قیادت کا فقدان اور اپنے محاسبے کا فقدان قابل ذکر ہیں۔ جب تک ان امور پر توجہ نہیں دی جائے گی اور اس سمت ٹھوس کوششیں نہیں ہوں گی، حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔
 ہندوستانی مسلمانوں کو نئے سال میں نئے عزم کے ساتھ ان حالات کا  مقابلہ کرنے کیلئے خود کو تیار کرنا ہوگا۔مسلمانوں کو مجموعی طور پر اپنی شبیہ بہتر بنانی ہوگی۔ ملک میں ایک خاص قسم کا مسلم بیانیہ پایا جاتا ہے، اس کے جواب میں ایک مضبوط کاؤنٹر بیانیہ تیار کر نے کی ضرورت ہے۔مسلمانوں کو بتانا ہوگا اور ان کے سامنے ایسی تصویر پیش کرنی ہوگی کہ امن ہمارے مذہب کی بنیاد ہے، اس پر نہ صرف یہ کہ ہمارا  یقین ہے بلکہ یہی ہمارا منشور بھی ہے۔ اسی کےساتھ ہی ہمیں مسلکی انتشار، مذہبی انتشار اور سیاسی انتشار سے بھی بچنے کی ضرورت ہے۔
میں ایک بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ خاص پارٹیوں کی ذہنی غلامی سے جب تک ہندوستانی مسلمان خود کو آزاد نہیں کریں گے، تب تک ان کی تقدیر اور تصویر تبدیل نہیں ہوگی۔اس پر من حیث القوم مسلمانوں کو سر جو ڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔
حقانی القاسمی معروف ادیب، ناقد اور صحافی ہیں۔ مختلف موضوعات پر ایک درجن سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔ فی الحال قومی کونسل برائے فروغ اردو  زبان سے جاری ہونے والے ادبی جریدے ’اُردو دنیا‘ کے ادارتی مشیر ہیں۔
ماضی سےسیکھتے ہوئے حال میں جینا ہوگا


 جو گزر گیا، سو گزر گیا۔ ا ب اس پر ماتم کرکے کچھ فائدہ نہیں۔ میں اُس  قبیل سے تعلق رکھتا ہوں جو ماضی سے تحریک لیتے ہوئے حال میں جیتے ہیں  اور مستقبل  کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ یہی توقع میری پوری قوم سے ہے۔ جب تک ہم ملک پر بوجھ کی صورت میں رہیں گے یا کم از کم ہمارے تعلق سے یہ تاثر قائم رہے گا، ہمارے لئے زندگی کی راہیں آسان نہیں ہوں گی۔ ہمیں ملک کیلئے اثاثہ بننا ہوگا اور ملک کے سامنے اسے ثابت بھی کرنا ہوگا۔ ہمیں اس بات پرغور کرنا ہوگا کہ ہم سے کتنے لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے؟ ہم کتنے لوگوں کی روزی روٹی کا سامان بن رہے ہیں؟ ہم سے کتنے لوگ مستفیض ہورہے ہیں؟ اور یہ کہ اگر ہم ہاتھ کھینچ لیں تو کتنوںکو نقصان ہوگا؟   اس کیلئے ہمیں اپنی تجارت کی روایت کو مستحکم کرنا ہوگا جس میں کبھی ہماری اجارہ داری تھی۔ ہمیں پارسیوں سے بھی کچھ سیکھنا ہوگا کہ کس طرح تعداد میں کم ہوکر بھی انہوں نے خود کو ملک کے  اثاثے کے طور پر خود کو منوا لیا ہے۔ ہندوستان کو سنوارنے اور اس کو اس مقام تک پہنچانے میں ہمارے اسلاف نے جو کارہائے نمایاں انجام دیا ہے، ہمیں بھی اسی طرح اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ 
سیاسی کھیل میں ہم بہت کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ وہاں اعداد وشمار کی تگڑم بازی ہے لیکن تعلیم اور تجارت میں تو ہم اپنی موجودگی درج کراہی سکتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ہمیں اپنے تہذیبی ورثے کی بھی حفاظت کرنی ہوگی اور اپنی نسلوں کو اخلاقی سطح پر ایک بلند کردار کا مالک بنانا ہوگا۔ یہ وہ چند نکات ہیں جن کی منصوبہ بندی ہمیں نئے سال میں ترجیحی طور پر کرنی چاہئے۔
ڈاکٹر صہیب عالم جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی کے شعبہ عربی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سابق صدر جمہوریہ اور میزائل مین ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی شہرہ آفاق کتاب ’ونگس آف فائر‘ کاعربی میں ترجمہ کرنے کے علاوہ  درجنوں کتابوں کے خالق ہیں۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK