Inquilab Logo

حجاب معاملے میں سپریم کورٹ میں بہتر حکمت عملی کی ضرورت

Updated: March 29, 2022, 2:53 PM IST | Inquilab Desk

ماہر ین قانون کے مطابق کرناٹک ہائی کورٹ میں’’اگر یہ کیس اس طرح لڑا جاتا کہ ہم ایک ماڈرن ملک کے رہنے والے ہیں، ہمارا آئین ہمیں اختیار کی آزادی دیتا ہے تو فیصلے کی نوعیت الگ ہوتی مگر ساری جرح حجاب کو مذہب کا لازمی جز ثابت کرنے پر ہوئی‘‘ اسلئے سپریم کورٹ میں اس نکتے پر توجہ دی جانی چاہئے

Protests against hijab in Karnataka.Picture:INN
کرناٹک میں حجاب سے متعلق عدالتی فیصلے کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں اس کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ تصویر: آئی این این

 تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کی توثیق کرنے والے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں داخل کی گئی پٹیشن میںمسلم فریق کی جانب سےحکمت عملی میں بہتر تبدیلی کی امید ظاہر کی جارہی ہے۔ امید ہے کہ ایک طرف جہاں سپریم کورٹ میںاس بات پر اعتراض کیا جائےگا کہ کوئی عمل کسی مذہب کا لازمی جز ہےیا نہیں، اس کے فیصلےکا اختیارعدالت کو نہیں ہے بلکہ اس مذہب  کے ماننے والے،اس کے رہنما اور اسکالر کرسکتے ہیں، وہیں حجاب کے معاملے کو شخصی آزادی  کے پس منظر میں بھی عدالت میں پیش کیا جائےگا۔اس کی تصدیق سپریم کورٹ کے وکیل ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد نے بھی کی۔ انہوں  نے بتایا کہ اس معاملے میں پرسنل لاء بورڈ ایک پٹیشن داخل کر رہا ہے جس میں اس کو موضوع بحث بنایا جائےگا ۔  دوسری طرف ایک رائے یہ بھی ہے کہ حجاب کا معاملہ جتنا مذہبی ہے اس سے کہیں زیادہ ’رائٹ ٹو چوائس‘ (اپنی پسند کے حق) سے متعلق ہے جو آئین کے ذریعہ فراہم کئے گئے شخصی آزادی کے زمرے میں آتا ہے۔ معروف ماہر قانون  فیضان مصطفیٰ اور سپریم کورٹ کے نامور سینئر ایڈوکیٹ نیز سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن کےسابق صدر دشینت دوے نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ دوے  نے کرن تھاپر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ’’آرٹیکل ۲۵؍ جو ضمیر اور اختیار کی آزادی سے متعلق ہے ، شہری کے مذہبی عمل کا بھی تحفظ کرتا ہے۔یہ عمل انفرادی بھی ہوسکتا ہے اور اجتماعی بھی۔ عدالت کو اس بحث میں جانے کی ضرورت نہیں کہ وہ لازمی جز ہے یا نہیں۔مثال کے طور پر کوئی جج جس کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں، وہ یہ تسلیم کرے گا کہ مسلم خواتین صدیوں سے حجاب پہنتی ہیں۔ ‘‘  انہوں نے اس سلسلے میں ناگاسادھوؤں کی مثال دی جو برہنہ رہتے ہیں  اور سوال کیا کہ ’’کیا کوئی آج اعتراض کر سکتا ہے کہ ناگا سادھوؤں کو عوام کے بیچ نہیں آنا چاہئے۔‘‘
ٍ  فیضان مصطفیٰ کے مطابق مسئلے کی اصل جڑ  مذہب  کے لازمی جز ہونے کا ٹیسٹ ہی ہے۔ انہوں  نے نشاندہی کی کہ سبری مالا کیس میں سپریم کورٹ نے اس کو تسلیم کیا ہے کہ کچھ لوگوں کیلئے جو ضروری ہو، دوسرے کیلئے ممکن ہے کہ وہ ضروری نہ ہو۔ اسی لئے اس نے ’مذہب کے لازمی جز کے ٹیسٹ ‘ کے  معاملے کو  وسیع تر بنچ کے حوالے کردیا ہے۔ یعنی سپریم کورٹ خود مذہب کے لازمی جز ہونے کے اصول پر کنفیوژن کا شکار ہے۔
 فیضان مصطفیٰ کے مطابق حجاب کے معاملے میں بھی یہ اختلاف رائے ہوسکتی ہے کہ وہ اسلام کی رو سے لازمی ہے یا نہیں۔ عدالتوں کے فیصلے میں بھی اختلاف نظر آتا ہے۔کیرالا ہائی کورٹ کی ۲؍ رکنی بنچ یہ فیصلہ سناچکی ہے کہ حجاب اسلام کا لازمی جز ہےدیگر بنچ اس سےاختلاف کرسکتی ہیں۔ کیرالاہائی کورٹ کی ہی دوسری بنچ نے ڈاڑھی کے تعلق سے فیصلہ سنایا کہ چونکہ تمام مسلمان ڈاڑھی نہیں رکھتے، اسلئے ڈاڑھی اسلام کا لازمی جز نہیں ہے۔ انہوں  نے نشاندہی کی کہ ’’ میں سمجھا ہوں کہ اسے مذہب کے پیرائے میں  دیکھنے کے بجائے ’رائٹ ٹو چوائس‘ (اپنی پسند کا حق) کے پس منظر میں  دیکھا جانا چاہئے۔‘‘
 کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے  اور سپریم کورٹ میں ممکنہ حکمت عملی کے حوالے سے فیضان مصطفیٰ بتاتے ہیں کہ ’’اگر یہ کیس اس طرح لڑا جاتا کہ ہم ایک ماڈرن ملک کے رہنے والے ہیں، ہمارا آئین ہمیں  اختیار کی آزادی دیتا ہے توفیصلے کی نوعیت الگ ہوتی مگر کورٹ میں ساری جرح حجاب کو مذہب کا لازمی جز ثابت کرنے پر ہوئی۔‘‘  
 انہوں نے کہا کہ یہ  مذہب کی آزادی کی ضمانت دینے والے آرٹیکل ۲۵؍ کا معاملہ نہیں ہے بلکہ   ۱۹؍ اور ۲۱؍(آزادی اظہا رائے اور شخصی آزادی) کا معاملہ ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ میں ہونے والی بحث کے تعلق  سے انہوں نے کہا کہ’’ جب یہ دلیل دی گئی کہ یہ مذہب کا لازمی جز  ہے تو حکومت نے جواب میں یہ دلیل پیش کردی کہ یہ مذہب کا لازمی جز نہیں ہے اور عرضی گزار ایک جال میں پھنس کر رہ گئے۔‘‘  انہوں نے بتایا کہ ’’زیادہ امکان یہ ہے کہ یہ معاملہ سبری مالا کی ریویوپٹیشن سے جڑ جائےگا اور فیصلے کا دارومدار اس بات پر ہوگا کہ مذہب کے لازمی جز ہونے کے ٹیسٹ پر سپریم کورٹ کس نتیجے پر پہنچتا ہے۔‘‘ 
  سپریم کورٹ کے سینئرایڈوکیٹ ایم آر شمشاد نے انقلاب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ عدالت میں کسی معاملے کو مذہبی پس منظر میں پیش کریں   گے تو یقینی طور پر کورٹ اس بات کا جائزہ لےگا کہ وہ اس  مذہب کا لازمی جزو ہے یا نہیں کیوں کہ ۱۹۵۴ء  کے بعد سے یہی ہوتا آرہا ہے۔ حجاب معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ میںکئی پٹیشن داخل  ہوئی ہیں جن میں زور دیا گیا ہے کہ یہ  عدالت کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ کوئی عمل کسی مذہب کا لازمی جز ہے یا نہیں؟ اس کے ساتھ ہی حجاب کو شخصی آزادی کے پس منظر میں بھی پیش کرنے کی کوشش کی جائےگی۔
  واضح رہے کہ سپریم کورٹ  میں داخل کی گی پٹیشن میں   دلیل دی گئی ہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ  نے شخصی آزادی اور مذہبی آزادی الگ الگ کرکے دیکھنے کی غلطی کی ہے۔اس کے ساتھ ہی اس بات پر زور بھی دیا گیا ہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ حجاب پہننے کا حق شخصی آزادی سے متعلق آرٹیکل ۲۱؍ کے ذیل میں آتا ہے اور اختیار کی آزادی شخصی آزادی کا ہی حصہ ہے اسلئے اس معاملے میں ’مذہب کے لازمی جز‘ کا پہلو نہیں جوڑا جانا چاہئے تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK