قومی اہلیتی اور داخلہ امتحان یانیٹ (این ای ای ٹی - یوجی)، انڈر گریجویٹ میڈیکل پروگراموں میں داخلے کیلئے نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) کے ذریعے منعقد کیا جانے والا امیدواروں کی تعداد کے لحاظ سے سب سےبڑا امتحان ہے۔
EPAPER
Updated: June 30, 2024, 5:44 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai
قومی اہلیتی اور داخلہ امتحان یانیٹ (این ای ای ٹی - یوجی)، انڈر گریجویٹ میڈیکل پروگراموں میں داخلے کیلئے نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) کے ذریعے منعقد کیا جانے والا امیدواروں کی تعداد کے لحاظ سے سب سےبڑا امتحان ہے۔
قومی اہلیتی اور داخلہ امتحان یانیٹ (این ای ای ٹی - یوجی)، انڈر گریجویٹ میڈیکل پروگراموں میں داخلے کیلئے نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) کے ذریعے منعقد کیا جانے والا امیدواروں کی تعداد کے لحاظ سے سب سےبڑا امتحان ہے۔ اس کا سابقہ نام آل انڈیا پری میڈیکل ٹیسٹ (اے آئی پی ایم ٹی ) تھا اور یہ امتحان سی بی ایس ای کے ذریعے منعقدکیاجاتا تھا۔ ۲۰۱۳ء میں نیٹ (این ای ای ٹی) متعارف کیاگیاتھا اوراس کا انعقاد بھی سی بی ایس ای ہی کرتا تھا۔ کچھ قانونی دشواریوں کے سبب ۲۰۱۴ ء اور۲۰۱۵ء میں پھر اے آئی پی ایم ٹی کا انعقاد کیاگیا تھا لیکن ۲۰۱۶ء میں نیٖٹ کو دوبارہ متعارف کیاگیا اوراس کا انعقاد سی بی ایس ای نے ہی کیا تھا۔ البتہ ۲۰۱۹ء سے اب تک اس کا انعقاد این ٹی اے ہی کرتی آرہی ہے۔
میڈیکل فیکلٹی میں داخلے کے متمنی لاکھوں طلبہ اس امتحان کیلئے برسوں تیاری کرتے ہیں۔ یہ صرف ان کی تیاری نہیں ہوتی بلکہ اس سےان کے اور ان کے والدین کے خواب جڑے ہوتے ہیں۔ میڈیکل فیلڈ ایک پُرکشش اور باوقار فیلڈ مانی جاتی ہے۔ اس کیلئے طلبہ پُر جوش ہوتے ہیں، ملک کے تعلیمی نظام میں اس فیلڈ کی اہمیت مسلّم ہے۔ جس فیلڈ سے لاکھوں طلبہ کا مستقبل وابستہ ہے، اس میں داخلے کیلئے لیا جانے والا امتحان پوری طرح بدعنوانیوں کے سائے میں ہے۔ بہارکو بدعنوانیوں کے اس کھیل کی سرغنہ ریاست کہا جاتا ہےلیکن اب جبکہ کیس کی سی بی آئی تحقیقات کررہی ہے، کئی ریاستوں میں اس کی جڑیں پہنچی ہوئی نظر آرہی ہیں اورکئی مسابقتی امتحانات میں پیپرلیک کے پورے نیٹ ورک کا پردہ فاش ہونے کے قریب ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ۹۰ء کی دہائی کے الیکشن کمیشن سے موازنے پر موجودہ کمیشن کاغذی شیر نظرآتا ہے
پٹنہ میں سب سے پہلے جونیئرانجینئرسکندر یادوویندو کا پیپر لیک کے معاملے میں نام سامنے آیا تھاجس نے ایک مکان میں امیدواروں کو سوالوں کے جواب رٹانے کا انتظام کیا تھا۔ اب اس سے اورکئی نام جڑ گئے ہیں جس میں سب اہم ترین نام اوم پرکاش راج بھرکی پارٹی سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی کے ایم ایل اے بیدی رام کا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک چینل نے اسٹنگ آپریشن میں بجندر گپتا نامی شخص کو تلاش کیا تھاجس نے پیپرلیک کے تعلق سے کئی دعوے اور انکشافات کئے تھے۔ اس نے تو یہاں تک کہا تھا کہ اسے پولیس بھی نہیں پکڑسکتی۔ اس نے بتایا تھا کہ ۷؍ لاکھ طلبہ کیلئے نیٹ کے پیپرلیک کئے گئےتھے اورایک اسٹوڈنٹ سے۴۰؍ لاکھ روپے وصول کئے گئے تھے۔ یہ پورا ریکٹ ۳۰۰؍ کروڑ تک ہے۔ بجندر گپتا کے بیدی رام سے بھی روابط بتائے جارہے ہیں یعنی نظام تعلیم اورطلبہ کا مستقبل سیاسی ساز باز کے رحم وکرم پر چھوڑدیاگیا ہےاور قابل حیرت ہے کہ مرکزی وزیردھرمیندر پردھان نے اس پراب تک کوئی قابل ذکر قدم نہیں اٹھایا ہے۔ معاملہ یہاں تک تو پہنچ گیا ہےکہ وزیر اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیں لیکن وہ اب تک پہلے توکسی بھی بدعنوانی کو مسترد کرتے رہے اورمعاملےپر چیخ پکار اور متاثرطلبہ کا احتجاج بڑھنے کے بعدچندگڑبڑیوں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے۔ سی بی آئی نے اس معاملے میں اب تک جھارکھنڈ سے ایک ٹیچر اور صحافی کو گرفتار کیا ہے۔ اس کے علاوہ بہار سے بھی ۲؍ گرفتاریاں ہوئی ہیں نیزگجرات میں کئی مقامات پر چھاپے مارے ہیں۔ ۵؍ مئی ۲۰۲۴ء کوہوئے نیٹ یوجی کے امتحان میں ۲۴؍ لاکھ ۶؍ ہزار ۷۹؍ امیدواروں نے شرکت کی تھی۔ ۴؍ جون کو اس کے نتائج آنےکے بعد کئی دیگر معاملات سامنے آئے۔ ۱۴۰۰؍ سے زائد طلبہ کو گریس مارکس، ایک ہی سینٹر کے ۶؍ طلبہ کا ٹاپ کرنا۔ اس کے ساتھ پیپرلیک کا پورا کھیل۔ پیپرحل کرنے والی ایک پوری گینگ کا منظر عام پر آنا جسے سالورگینگ نام دیاگیا ہے۔ ملک کا تعلیمی نظام کسی نظام کے تحت چل رہا ہے یا اسےجواری اور سٹے باز چلا رہے ہیں جو پہلے شرط لگا تے ہیں، دا ؤ چلتے ہیں اور پھرپیسہ پھینکتے ہیں۔ جوئے اورسٹے میں تو نقصان کابھی اندیشہ ہے، سٹہ کھیلنے والوں کے لُٹ جانے کابھی امکان ہوتاہے لیکن پیپر لیک کی آڑ میں جوگھپلے بازی کاکھیل کھیلا جارہا ہے اس میں تو کروڑوں کا فائدہ ہے۔ نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی اس سٹے بازی کا پلیٹ فارم بن چکی ہےاور اس میں ایک رکن اسمبلی تک کا نام آچکا ہے۔ نیٹ سے پہلے جو آل انڈیا پری میڈیکل ٹیسٹ (اے آئی پی ایم ٹی) کا انعقاد سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای ) کے ذریعے ہوتا تھا، اس کے تعلق سے اس طرح کی بدعنوانیوں کی خبر کبھی سننےیا پڑھنے کو نہیں ملی۔ کہیں کچھ معاملہ ہوا بھی تواس پر فوری کارروائی کی گئی کیونکہ اس وقت یعنی ۲۰۱۲ء اور اس سے پہلے تک کسی بھی ا متحان کے پیپر لیک کے معاملے کوبہت سنگین سمجھا جاتا تھا۔ اس پر ذمہ دار بورڈ بھی فوراً حرکت میں آتا تھا۔ کسی کی بھی طرف سے ذمہ داری سے راہ فرار کی کوشش نہیں ہوتی تھی۔ اب وہ صورتحال نہیں ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ اس کے تحت کام کرنے والی تمام ایجنسیوں کے مزا ج میں تبدیلی آچکی ہے۔ اب غلطیوں کی تاویل پیش کی جاتی ہے، ان پر پردہ ڈالنے کے ایک دونہیں بلکہ کئی کئی راستےتلاش کئے جاتے ہیں۔ بدعنوانیوں کو بس سابقہ حکومتوں کے خانہ میں ڈالا جاتا ہے اور اپنے خانے میں صرف اصلاحات کو جگہ دی جاتی ہے۔ امتحان کے انعقاد کی ذمہ داری این ٹی اے کودئیے جانے کے بعدسے معاملات جو بگڑے ہیں اس میں پیپرلیک معمول بن چکے ہیں۔
’آج تک ‘کےاسٹنگ آپریشن میں جس بجندر گپتا سےسوالات کئے گئے تھے، وہ ۲۰۲۳ء میں اڑیسہ میں بھی پیپر لیک کا ملزم رہا ہے۔ اس کا نام بہار سروس پبلک کمیشن (بی پی ایس سی )پیپرلیک کی جانچ میں بھی سامنے آیا تھا جبکہ مدھیہ پردیش پبلک سروس کمیشن (ایم پی پی ایس سی )اور دیگرکئی مسابقتی امتحانات کے پیپرلیک کرنے کا اس نے انکشاف کیا ہےاوراس پراس کا دعویٰ ایسا رہا ہےجیسے یہ اس کا ذاتی کاروبار اور پیسہ کمانے کا ذریعہ ہو۔ سوال یہ بھی ہےکہ نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے)یہ امتحان منعقد کرانے کی کتنی اہل ہےجسے سی بی ایس ای جیسےقابل بورڈ کی جگہ یہ ذمہ داری دی گئی اور کا قیام بھی ۲۰۱۷ء میں ہوا۔ ملک کے تعلیمی نظام میں سی بی ایس ای کوایک سنجیدہ بورڈ کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اسی کے نصاب کی بنیاد پرسول سروس اور دیگر مسابقتی امتحانات کے نصاب تیار کئے جاتے ہیں۔ اس بورڈ کی جگہ این ٹی اے کی الگ سے تیاری اوراسے امتحان کے انعقاد کی ذمہ داری دینا کتنا درست تھا ؟نتائج میں گڑبڑی کے خلاف بڑھتے ہوئے احتجاج کے سبب این ٹی اے کے ڈائریکر سبودھ کمار سنگھ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیاگیا ہےلیکن انہوں نے ایجنسی میں اسٹاف کے تعلق سے بھی کئی انکشاف کئے ہیں۔ ملک بھرمیں جو ایجنسی این ای ای ٹی اور این ای ٹی جیسے امتحانات منعقدکرنے کی ذمہ دار ہے، اس میں مستقل اسٹاف کی تعداد صرف ۲۵؍ ہے۔ خودسبودھ کمار سنگھ نے یہ دعویٰ کیا ہےکہ این ٹی اے میں اسٹاف کی بھاری قلت ہے۔ اسی سبب پیپر کی تیاری، تقسیم اور ڈیٹا کے تحفظ سے متعلق کام پرائیویٹ تکنیکی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں سے آؤٹ سورس کرانے پڑتے ہیں۔ حکومت کے ما تحت ایک ایجنسی میں ۲۵؍ اسٹاف بھی نہیں ہے اور اسے۲۴؍ لاکھ طلبہ کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کی اجازت دے دی گئی۔ اس پرکیا کہا جائے ؟ دوسری جانب باہرپوری کی پوری گینگ سرگرم ہے جوپیپر لیک کا نیٹ ورک چلا رہی ہے اور اندازہ نہیں ہےکہ اس کے تار کہاں تک جڑے ہوئے ہیں ؟ کسی ملک کا اگریہ تعلیمی نظام ہوتوبدعنوانی سے بچے گا کون، اسٹوڈنٹس، ٹیچر، سیاستداں یاوزراء؟