Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

حلقوں کی نئی حد بندی: مرکز کو ناکوں چنے چبانے پڑسکتے ہیں

Updated: March 16, 2025, 2:46 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

جنوبی ہند کی ریاستوں کا اعتراض بالکل درست ہے کہ نئی حد بندی کے بعد پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی کم ہو جائیگی، حکومت یہ مسئلہ کیسے حل کرتی ہے یہ دیکھنا ہو گا۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

ہندوستان میں علاقائی عدم توازن کا مسئلہ ہمیشہ سے موضوع بحث رہا ہے۔ یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ مرکز میں برسر اقتدار جماعتیں اپنے اقتدار والی ریاستوں پر نوازشات کی بارش کرتی ہیں اورا پوزیشن جماعتوں کے اقتدار والی ریاستوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتی ہیں ۔ خاص طور پر جنوبی ریاستوں کے ساتھ مرکزی حکومتوں کا رویہ جانبدارانہ ہونے کی شکایت عام ہے۔ اب ملک میں پارلیمانی حلقوں کی از سر نو حد بندی کا مسئلہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ خاص طور پر تمل ناڈو کی جانب سے اس مسئلہ پر شدید اعتراض کیا جارہا ہے۔ مرکزی حکومت ملک میں پارلیمانی حلقوں کی از سر نو حد بندی کا منصوبہ رکھتی ہے۔ آئین کے آرٹیکل ۸۲؍ اور۱۷۰؍ میں یہ التزام ہے کہ ہر۱۰؍ سال میں ہونے والی مردم شماری کے بعد حلقوں کی نئی حد بندی کی جائے کیوں کہ آبادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس وقت ملک میں جو حد بندی نافذ ہے وہ ۱۹۷۱ء کی مردم شماری کے مطابق ہے۔ اس کے بعد یہ حد بندی ہو ہی نہیں سکی۔ چونکہ اس پر کسی بھی حکومت میں اتفاق رائے قائم نہیں ہو سکا اور جنوبی ہند کی ریاستوں کے ساتھ نا انصافی کے اندیشے ظاہر کئے گئے اس لئے اس مشق کو اب تک روکے رکھا گیا تھا لیکن اب مودی سرکار کے ارادے واضح ہیں کہ وہ ہر قیمت پر نئی حد بندی کرنا چاہتی ہے۔ اس کے لئے وہ آئین کے مذکورہ بالا آرٹیکل کا حوالہ دے رہی ہے کہ یہ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے۔ اس کیلئے کچھ تیاریوں کا بھی آغاز کردیا گیا ہے۔ ان تیاریوں کے تحت سب سے پہلےپارلیمنٹ کی نئی عمارت بنوائی گئی جس میں لوک سبھا کی ۸۸۸؍ سیٹیں اور راجیہ سبھا کے لئے ۳۸۴؍ سیٹیں ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ باقی سیٹوں کو بھی حکومت جلد از جلد بھرنا چاہتی ہے اور اسی لئے وہ حد بندی کروانا چاہتی ہے۔ سابقہ حکومتوں نے جن میں اٹل بہاری واجپئی کی حکومت بھی شامل ہے، حد بندی کومحض اس وجہ سے ملتوی کردیا تھا کیوں کہ اس کی وجہ سے جنوبی ریاستوں کے نا انصافی کا اندیشہ تھا۔ اس پر تمام سیاسی پارٹیوں کا اتفاق بھی تھا۔ واجپئی حکومت کےبعد منموہن سنگھ حکومت نے بھی اس سلگتے ہوئے موضوع کو بلاوجہ چھیڑنے کی کوشش نہیں کی۔ 
جنوبی ہند کی ریاستوں کا اصل اعتراض کیا ہے؟ اس پر غور کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے گزشتہ ۷۰؍ سال میں تعلیم اور معیار زندگی کو بہتر بنانے پر پوری توجہ صرف کی جس کی وجہ سے جنوبی ریاستوں کی جی ڈی پی شمالی ہند کی ریاستوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس کوشش میں انہوں نے شعوری یا لاشعوری طور پر خاندانی منصوبہ بندی کو بھی اپنالیا جبکہ شمالی ہند میں ایسا نہیں ہوا۔ وہاں آبادی مسلسل بڑھتی رہی۔ اب اگر آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو نئی حد بندی کے مطابق اتر پردیش میں پارلیمانی سیٹوں کی تعداد ۸۰؍ سے بڑھ کر ۱۵۰؍ تک پہنچ سکتی ہے۔ اس کو اس طرح سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ پورے جنوبی ہند میں آبادی کے لحاظ سے۴۰؍ یا ۵۰؍ سیٹیں بڑھیں گی لیکن اس سے کہیں زیادہ یوپی اور بہار میں بڑھ جائیں گی کیوں کہ ان ریاستوں کی آبادی بہت تیزی کے ساتھ بڑھی ہے۔ اٹل بہاری واجپئی کی حکومت نے حد بندی کو ۲۰۲۶ء تک ملتوی کردیا تھا، اس طرح اگلے سال یہ مدت ختم ہو رہی ہے۔ اسی لئے مودی حکومت وقت سے قبل ہی یہ مشق شروع کردینا چاہتی ہے۔ اس تعلق سے وزیر داخلہ امیت شاہ نے جنوبی ہند کی ریاستوں کویقین دہانی کروائی ہے کہ ان کی سیٹیں کم نہیں ہوں گی بلکہ بڑھیں گی لیکن وہ تصویر کا ایک ہی رُخ دکھارہے ہیں۔ وہ یہ نہیں بتارہے ہیں کہ شمالی ہند کی ریاستوں کی کتنی سیٹیں بڑھیں گی اور اس کی وجہ سے پارلیمنٹ میں شمالی اور جنوبی خلیج مزید بڑھ جائے گی۔ 
مرکز کے ارادوں کے ساتھ ہی یہ اندیشے جنوبی ریاستوں کی جانب سے ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ جنوبی ہند کی ریاستوں کے ساتھ اس مسئلہ پر ناانصافی کی جائے گی اور حلقوں کی از سر نو حد بندی کے نتیجے میں پارلیمنٹ میں جنوبی ریاستوں کی نمائندگی گھٹ جائے گی۔ پہلے ہی سے یہ شکایت ہے کہ شمالی ہند کی نمائندگی پارلیمنٹ میں بہت زیادہ ہے اور اس کے مقابلہ میں جنوب کی نمائندگی کم ہے۔ اگر از سر نو حد بندی ہوتی ہے تو اس بات کو مزید تقویت ملے گی۔ حالانکہ نئی حد بندی کے بعد جنوبی ریاستوں کے اراکین پارلیمنٹ کی تعداد میں اضافہ ہوگا لیکن یہ اضافہ اتنا نہیں ہوگا جتنا شمالی اور وسطی ہندوستان کی ریاستوں میں ہوگا۔ اس طرح پارلیمنٹ میں شمالی اور وسطی ریاستوں کا غلبہ مزید بڑھ جائے گا اورجنوبی ریاستوں کی نمائندگی میں تناسب کے اعتبار سے کمی آجائے گی۔ اسی لئے تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن اس مسئلہ پر شدید اعتراض کررہے ہیں۔ اس کیلئے انہوں نے تمام وزرائے اعلیٰ کا اجلاس بھی طلب کیا تھا۔ جنوبی ریاستیں اس مسئلہ پر ایک متحدہ موقف اختیار کرتے ہوئے مرکزی حکومت پر دباؤ بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مرکزی حکومت کا جہاں تک سوال ہے تو اسے وفاقی طرز حکمرانی کی روایات کا پاس اور لحاظ رکھتے ہوئے اس حساس اور اہمیت کے حامل مسئلہ پر جنوبی ریاستوں کی تشویش کا سنجیدگی سے اور ہمدردانہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جنوبی ریاستوں کی تشویش کو یکسر بے بنیاد یا غلط قرار دے کر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہوئے ان کواعتماد میں لینے کے مرکزی حکومت کو اقدامات کرنے چاہئیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ پارلیمنٹ میں انہیں تناسب کے لحاظ سے نمائندگی دی جائے۔ حکومت اس پر غور کرسکتی ہے۔ اس سے نا انصافی کا ڈر یا نمائندگی کی کمی کا خوف دور ہو جائے گا۔ ملک میں تمام علاقوں اور تمام ریاستوں کی اپنی اہمیت ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جانا چاہئے۔ ہمارے دستور اور قانون میں کسی علاقے یا کسی ریاست یا کسی فرد سے جانبداری یا امتیازی سلوک کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ ایسا کیا جانا چاہئے۔ ہندوستان ایک وفاقی طرز حکمرانی والا ملک ہے اور یہاں ہر ایک کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ جنوب اور شمال کے درمیان جو فرق ہے اس کو دور کرنا مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ایسا کوئی کام نہیں کیا جانا چاہئے جس کے نتیجے میں یہ فرق مزید گہرا ہو یا اس میں مزید اضافہ ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK