Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

نئی تعلیمی پالیسی جنوبی ہند میں کہیں ایک اور زبان مخالف تحریک نہ شروع کردے

Updated: March 02, 2025, 3:22 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

تمل ناڈو کی جانب سے سہ لسانی فارمولے کی شدید مخالفت کی جارہی ہے جبکہ مرکز ی حکومت اسے ہر حال میں نافذ کرنے پر بضد ہے۔

In South India, slogans are being raised in opposition to the `New Education Policy` as well as the BJP these days. Photo: INN.
جنوبی ہند میں اِن دنوں ’نیو ایجوکیشن پالیسی‘ کے ساتھ ہی بی جے پی کی مخالفت میں بھی نعرے لگ رہے ہیں۔ تصویر: آئی این این۔

ہندوستان ایک وسیع و عریض ملک ہے جہاں مختلف ریاستیں اپنے منفرد ثقافتی، لسانی، اور تعلیمی نظام کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ جنوبی ہند کی ریاستیں خاص طور پر تمل ناڈو، کرناٹک، کیرالہ، آندھرا پردیش اور تلنگانہ تعلیمی میدان میں دیگر ریاستوں کے مقابلے میں نمایاں ہیں تاہم حالیہ برسوں میں مودی حکومت کی جانب سے متعارف کردہ نئی تعلیمی پالیسی نے ان ریاستوں میں مختلف بحثوں کو جنم دیا ہے، خاص طور پر تمل ناڈو میں جہاں یہ پالیسی کئی تنازعات اور سوالات کا باعث بنی ہوئی ہے۔ زبانیں عام طور پر جوڑنے کا کام کرتی ہیں لیکن ہندوستان میں اس کی وجہ سے ماضی میں کافی تنازعات بھی ہوئے ہیں۔ ہندی کی مخالفت میں ۷۰ء اور ۸۰ء کی دہائی میں جنوبی ہند میں چلائی گئی تحریکیں سبھی کو یاد ہوں گی کہ ان کی وجہ سے نہ صرف ان ریاستوں سے مرکز کی دوری میں اضافہ ہوا بلکہ جو خلیج قائم ہو ئی وہ آج تک کسی نہ کسی حد پر قائم ہے۔ اب تنازع نئی تعلیمی پالیسی اور سہ لسانی فارمولے کا ہے۔ لسانیات کے ماہرین اس کی افادیت اور نقصانات پر روشنی ڈال سکتے ہیں ، ہم اس پر کوئی رائے زنی کئے بغیر اس کے تعلق سے جاری سیاست پر گفتگو کریں گے۔ 
نئی تعلیمی پالیسی کو مودی حکومت نے جولائی۲۰۲۰ء میں متعارف کروایاتھا۔ اس میں مودی حکومت کے دعوے کے مطابق لسانیات کی پالیسی میں بڑی تبدیلیاں کی گئیں جس میں مادری زبان یا علاقائی زبان میں تعلیم کو ترجیح دینے پر زور دیا گیا۔ اگرچہ نئی ایجوکیشن پالیسی کو ملک کے کئی حصوں میں مثبت انداز میں دیکھا گیالیکن تمل ناڈو میں اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس کی چند بڑی وجوہات ہیں جس میں سب سے بڑا تنازع سہ لسانی فارمولہ ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی میں کہا گیا کہ طلبہ کو کم از کم تین زبانیں سیکھنی ہوں گی، جن میں ہندی، انگریزی اور ایک علاقائی زبان شامل ہو سکتی ہے۔ تمل ناڈو نے ہمیشہ سے ہندی کو لازمی زبان بنانے کی مخالفت کی ہے۔ ریاست میں اس تعلق سے ماضی میں کافی پرتشدد تحریک چلی ہے۔ ہندی زبان کی مخالفت ایک تاریخی مسئلہ رہا ہے جس کی وجہ سے ریاستی حکومت نے دو زبانوں (تمل اور انگریزی) کے فارمولے پر زور دیا اور ماضی میں اس پر بھی عمل بھی کیا ہے۔ ہندی کی مخالفت میں ایک تاریخی پس منظر بھی ہے۔ جنوبی ہند کے لوگ اپنے آپ کو دراوڑ نسل سے قرار دیتے ہیں اور ان کا اعتراض ہے کہ شمالی ہند کے آریائی نسل کے لوگوں نے اپنا کلچر، اپنے طور طریقے، اپنی ثقافت کو پہلے سنسکرت کے ذریعے تھوپنے کی کوشش کی اور اب وہی کام ہندی کے ذریعے کیا جارہا ہے۔ اسی لئے گزشتہ ۷۵؍ سال سے ہندی کی اتنی شدید مخالفت ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی تمل ناڈو کی حکومت کو خدشہ ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی کی وجہ سے جنوبی ہند میں مرکز کا کنٹرول بڑھ جائے گا اور ریاستی حکومت کی تعلیمی خودمختاری متاثر ہوگی۔ اس کے علاوہ تمل نا ڈو میں ایم بی بی ایس اور دیگر میڈیکل کورسیز میں داخلے کیلئے نیٹ امتحان کی مخالفت بھی کی جاتی ہے۔ یہ امتحان بھی مرکز کی جانب سے ہی منعقد کیا جاتا ہے۔ ریاستی حکومت کا مؤقف ہے کہ نیٹ جیسے امتحانات پسماندہ طبقے کے طلبہ کیلئے مشکلات پیدا کرتے ہیں اور تعلیمی مواقع میں عدم مساوات کو جنم دیتے ہیں۔ 
نئی ایجوکیشن پالیسی میں مادری زبان میں تعلیم کو فروغ دینے پر زور دیا گیا ہے لیکن عملی طور پر تمل ناڈو کا تعلیمی نظام پہلے ہی مقامی زبان میں فعال ہے۔ ہر چند کہ وہاں تمل اور انگریزی پڑھائی جاتی ہے لیکن دیگر زبانوں کو بھی پھلنے پھولنے کا پورا موقع دیا جاتا ہے۔ یہ بات یوں ہی نہیں کہی جارہی بلکہ اس کی مثالیں ہیں کہ وہاں اردو کو فروغ دینے کے متعدد اقدامات ہوئے ہیں، اسی طرح دیگر زبانوں جن میں ہندی بھی شامل ہے اسے بھی پڑھایا جاتا ہے لیکن اعتراض مرکز کی جانب سے تھوپے جانے پر ہے۔ ریاست کو خدشہ ہے کہ اس پالیسی کے نفاذ سے مقامی نصاب اور زبان کے تحفظ میں رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اسٹالن نے پہلے ہی واضح کردیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں اس پالیسی کو نافذ نہیں کریں گے۔ اسی وجہ سے مرکزی حکومت نے اس مد میں جاری کیا جانے والا فنڈ روک لیا ہے۔ اس پر دونوں ہی حکومتوں کے درمیان تنازع بڑھ گیا ہے۔ اسٹالن نےوزیر اعظم مودی کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ وہ فنڈ جاری کریں ورنہ تمل ناڈو حکومت زبردست احتجاج کرے گی اور اس معاملے میں عدالت سے بھی رجوع ہوگی۔ 
حالانکہ تنازع کو دیکھتے ہوئے مودی حکومت نے اعتراضات کو دور کرنے کے لئے کچھ تجاویز بھی پیش کی ہیں جن کے مطابق ریاستی حکومتوں کو زیادہ خودمختاری دی جائے تاکہ وہ اپنی تعلیمی ضروریات کے مطابق پالیسیوں میں ترمیم کر سکیں۔ نیٹ جیسے میڈیکل امتحانات کے لئے متبادل نظام تیار کیا جائے، تاکہ دیہی اور پسماندہ طبقے کے طلبہ کو بھی مساوی مواقع مل سکیں۔ زبان کی پالیسی میں لچک دی جائے تاکہ کوئی بھی ریاست کسی بھی مخصوص زبان کو مسلط کرنے کے خوف سے آزاد رہے۔ اس کے باوجو د اگر اسٹالن اسے نافذ نہ کرنے پر اٹل ہیں تو ان کے ذہن میں اس کے طویل مدتی اثرات ضرور ہوں گے۔ ویسے اس پیمانے پر پالیسی کی مخالفت کی وجہ سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ کہیں ہندی زبان کی مخالفت میں ایک اور تحریک نہ شروع ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ مودی حکومت کیلئے بہت بڑا درد سر ثابت ہو گی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK