کہا تو یہی جاتا ہے کہ نئی نسل مستقبل کی معمار ہے مگر اس نسل کی سنی نہیں جاتی۔ بہت سے موضوعات پر اِس میں اور پیش رو نسل میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے جسے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔
EPAPER
Updated: November 21, 2024, 3:08 PM IST | Mumbai
کہا تو یہی جاتا ہے کہ نئی نسل مستقبل کی معمار ہے مگر اس نسل کی سنی نہیں جاتی۔ بہت سے موضوعات پر اِس میں اور پیش رو نسل میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے جسے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔
کہا تو یہی جاتا ہے کہ نئی نسل مستقبل کی معمار ہے مگر اس نسل کی سنی نہیں جاتی۔ بہت سے موضوعات پر اِس میں اور پیش رو نسل میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے جسے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ پیش رو اور پَس رو نسل کے جذبات، احساسات، خیالات اور طرز فکر میں جتنا فرق اب پایا جانے لگا ہے پہلے کبھی نہیں تھا۔ سیاسی نقطۂ نظر بھی پرانی اور نئی نسل کا بڑی حد تک جداگانہ ہےاس لئے کہ اپنا ذہن اور رائے بنانا کیلئے نئی نسل کے پاس بھرپور وسائل ہیں۔ اس کیلئے وہ پیش رو نسل کی مرہون منت نہیں ہے۔ ۲۰۱۴ء میں بی جے پی کی غیر معمولی کارکردگی کے چند اہم اسباب میں سے ایک نئی نسل کے رائے دہندگان کا بی جے پی کی جانب جھکاؤ تھا۔ ۲۰۱۹ء میں بھی یہی کیفیت رہی مگر ۲۰۲۴ء میں حالات بدلے۔ اِس نسل کے افراد مسائل کو سمجھنے کیلئے انٹرنیٹ کی مدد لیتے ہیں، سوشل میڈیا کا اثر قبول کرتے ہیں یا یوٹیوب کے ویڈیوز سے اپنی رائے سنوارتے یا بگاڑتے ہیں۔ ۱۴ء اور ۱۹ء میں بی جے پی کا ایجنڈا ترقیاتی تھا جسے نئی نسل نے پسند کیا اور اس کی پُرجوش حمایت کی مگر ۲۴ء میں اس کی رائے بدلی اور جو نتائج آئے اُن میں اِس نسل کی رائے بھی شامل تھی جسے مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات کیلئے ۲۰؍ نومبر کو پولنگ ہوئی تو مختلف صحافتی ادارو ں نے نئی نسل کے افراد کا ذہن پڑھنے کی کوشش کی کہ ووٹ دیتے وقت ان کے ذہن میں کون سے موضوعات تھے۔ تب ہی ہم نے چند ماہ پیشتر ہوئے لوک سبھا انتخابات کے وقت حاصل کئے گئے تاثرات کو بھی کھنگالا تاکہ یہ سمجھا جائے کہ نئی نسل کیا سوچتی ہے۔ بلاشبہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پہلی مرتبہ ووٹ دینے گئے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ نئی نسل کے افراد کسی سیاسی پارٹی سے جذباتی وابستگی کے قائل نظر نہیں آتے۔ وہ کسی بھی پارٹی کے ہوسکتے ہیں اگر وہ پارٹی اُن کی ہوجائے، اُن کی بات سنے اور اُن کے مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کرے۔ اُن کے ذہنوں میں ایشوز ہیں۔ وہ تعلیم کے بہتر مواقع کے خواہشمند ہیں، روزگار کیلئے اچھی سے اچھی پیشکش کے تمنائی ہیں، وہ خستہ حال سڑکوں اور ٹریفک کی خراب صورتحال سے گلوخلاصی چاہتے ہیں، عمدہ اور مؤثر نظام ِ صحت کی آرزو کرتے ہیں اور پارٹیوں کے داخلی خلفشار کو پارٹی تک محدود رکھنے کی توقع کرتے ہیں تاکہ اَندرونی رسہ کشی باہر نہ آئے اور پارٹیوں میں ایسی ٹوٹ پھوٹ نہ ہو کہ عوام کے ذریعہ منتخب کی گئی حکومت اقتدار سے بے دخل ہوجائے۔
دھرم کی راج نیتی اور کسی کسی فرقے کو خوفزدہ کرنے کی سیاسی کوشش نئی نسل پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ اسے حقیقی ترقیات پر مبنی سیاست درکار ہے۔ اس کی وجہ بھی صاف ہے کہ نئی نسل کے افراد کی اکثریت ماد ّی نقطۂ نظر سے سوچتی ہے لہٰذا یہ لوگ ایسے مواقع کے طلبگار ہیں جن سے اُن کا معیار ِ زندگی بہتر اور بلند ہو، اُن کے پاس فلیٹ ہو، گاڑی ہو، اتنی تنخواہ ہو کہ سال میں دو مرتبہ ٹریویلنگ اور آؤٹنگ میں مالی اعتبار سے کوئی دقت نہ ہو اور جب خاندان بڑھے تو بچوں کیلئے تعلیم اور صحت کے بہترین وسائل میسر ہوں۔ اسی لئے آپ دیکھیں گے کہ اس نسل میں کسی پارٹی سے جذباتی یا نظریاتی وابستگی کم دکھائی دیتی ہے۔ اسی لئے یہ اُمید پیدا ہوتی ہے کہ عنقریب وہ وقت آئیگا جب سیاست کو خود کو بدلنا پڑے گا اور بہلانے، پھسلانے، ڈرانے، دھمکانے، ورغلانے اور بانٹنے کے ہتھکنڈوں سے باز رہنا ہوگا۔