• Thu, 26 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کوئی بھی اَدب زندگی سے الگ ہوکر اَدب کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا

Updated: April 07, 2024, 12:30 PM IST | Syed Muhammad Aqeel | Mumbai

وہ ادب جو مسائل حیات سے متعلق ہو ، جس میں زندگی کی قدروں اور اس کی گوناگوں صلاحیتوں کا تذکرہ ہو وہ یقیناً لازوال ہے، اسے ہر دور میں بڑھنے اور پھیلنے کے لئے مواقع اور مواد ملتا رہے گا۔

To understand literature properly, it is necessary to make life our parallel. Photo: INN
ادب کو صحیح طور سے سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم زندگی کو اپنا ہمراز و دمساز بنائیں۔ تصویر : آئی این این

جب بھی کسی مشاعرے، کسی علمی مجلس میں کوئی ایسی نظم، کوئی ایسا افسانہ پڑھ دیا جاتا ہے جس میں سماجی کشمکش، ملکی انتشار، سرمایہ داری کے استحصال اور عوام کی ناداری کا تذکرہ ہوا کرتا ہے تو ہر طرف سے پروپیگنڈا پروپیگنڈا کا شور اٹھنے لگتا ہے۔ حیات انسانی کی مختلف ضرورتوں اور اس کے ارتقاء کی جدوجہد کی طرف توجہ دینا ابھی تک بہت سے حلقوں میں پروپیگنڈا، مقصدیت سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اب سے کچھ سال پہلے تو یہ چیزیں ایسی تھیں جن پر دھیان دینا ہمارے بہت سے بزرگ محض لایعنی سمجھتے تھے اور ان باتوں کو مجذوب کی بڑ کہہ کر ٹال دیا کرتے تھے۔ مگر ان خیالات کی روزافزوں وسعت اور ترقی دیکھ کر کچھ لوگ اس طرف توجہ دینے لگے ہیں۔ ان میں سے ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اس تحریک کو حقیقی معنوں میں سمجھنا چاہتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو کسی وجہ سے دانستہ یا نادانستہ طور پر اس سے یکلخت منہ پھیر لینا چاہتے ہیں۔ 
  ادب کیا ہے ؟ مقصدیت کیا ہے؟ پھر ادب کا مقصدیت سے کیا تعلق ہے؟ ادب میں مقصدیت ہونا چاہئے یا نہیں اور اگر مقصدیت ہو تو کس حد تک؟ مقصدیت کے ساتھ ادب زندہ رہ سکے گا یا نہیں ؟وغیرہ جیسے متعدد سوال ادبی حلقوں کو پریشان کرتے ہیں اور ان کو ایسا نظر آتا ہے جیسے ادب کا سارا حسن و جمال، سارا کیف اسی مقصدیت کے سیلاب میں بہا جارہا ہے۔ 
 عہد ِ عتیق سے لے کر آج تک ادب پر جب ہم ایک نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر دور میں انسان اور اس کی معاشرت، ماحول کے لحاظ سے اس کے ادب میں مختلف کروٹیں لیتی رہی ہے۔ کوئی دور ایسا نہیں گزرا جب انسانی تاریخ، انسانی ادب پر اثرانداز نہ ہوئی ہو۔ کسی بھی زمانے کا ادب اس دور کے انسانوں کی تحریکات، خیالات اور نظریات کی عکاسی سے خالی نہیں رہا۔ چنانچہ وہ پروپیگنڈا یا مقصدیت جسے آج ہم عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں، روز ازل ہی سے ادب کے قدم بہ قدم چل رہی ہے۔ انسان نے جب بھی اپنے خیالات کو رواج دینا چاہا، اپنی الجھنوں (چاہے وہ روحانی ہوں یا مادی) کا تذکرہ کیا تو وہ ادب میں شامل کرلیا گیا۔ وہ دور جب انسان نے لکھنا پڑھنا سیکھا، یا پھر وہ تصویری دور جب وہ اپنے جذبات و خیالات کی ترجمانی تصویریں بنا کر کیا کرتا تھا، اس وقت بھی ادب میں انسانی ضروریات، سماجی کشمکش اور اس کے جذبات ہی کا اظہار ہوا کرتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ جب اس کے خیالات میں ربط و تسلسل پیدا ہوا تو اس نے اپنے ارادے، اپنے نظریات کو ادب ہی کے ذریعے پھیلانا شروع کیا۔ آرٹ، مصوری، ادب، اگر ہم بہ نظر غائر مطالعہ کرسکیں تو ہر ایک کو ہم پروپیگنڈاسے معمور پائیں گے۔ ادب کی حرکت اور پیدائش ہی پروپیگنڈے کی ضرورت پر ہوتی ہے، اس سے کوئی بھی صحیح الدماغ انسان انکار نہیں کرسکتا۔ پھر رفتہ رفتہ جب انسانیت، روحانیت کی لذت سے شناسا ہوئی اور بڑے بڑے پیغمبر و رہنما آئے تو انہوں نے بھی اپنے خیالات کی ترویج و اشاعت میں ادب کا سہارا لیا۔ 
 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ادب اور پروپیگنڈا کا چولی دامن کا ساتھ ہے تو پھر ادب کو الگ دیکھنے کے کیا معنی ہوئے؟ جواب بہت آسان ہے اور آسانی سے سمجھا بھی جاسکتا ہے۔ وہ طبقہ جو کسی تخلیق وتخیل پر مقصدیت کا الزام لگاتا ہے اس کے نزدیک ادب کا اطلاق ایک محدود خیال، فکر و انداز نظر تک ہوتا ہے جسے یہ طبقہ پورا ادب سمجھتا ہے۔ یہ جز و محض فروعات کی حیثیت رکھتا ہے جو ہر ادب میں موجود تو ہوتا ہے مگر پورا ادب نہیں بن سکتا۔ اس جزو کے بغیر ادب میں کمی ضرور محسوس ہوگی، مگر ادب اس جزو کے نفی ہونے پر بھی ادب رہے گا۔ اس طبقے کے نزدیک ادب کی اہمیت اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہےکہ کسی ادب پارے میں موضوع سے قطع نظر محض فن کو مدنظر رکھا گیا ہو۔ 
 ادب کو صحیح طور سے سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم زندگی کو اپنا ہمراز و دمساز بنائیں۔ کوئی بھی ادب زندگی سے الگ ہوکر ادب کہلانے کا مستحق نہ ہوگا۔ اور جب ادب وزندگی میں اتنی نزدیکی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ادب کو مسائل حیات کے تذکروں سے بچا لیا جائے۔ جب ادب میں مسائل حیات کے تذکرے لائے جاتے ہیں تو مقصدیت و پروپیگنڈا کا شور مچایا جاتا ہے۔ 
 دنیا کا ہر عظیم فنکار اور ہر عظیم ادب موت سے زیادہ زندگی اور اس کی قدروں کا طرفدار ہوا کرتا ہے اوردراصل یہی انسان کی صحیح فطرت بھی ہے۔ عملی زندگی میں ہمیں جتنی محبت زندگی اور اس کی صلاحیتوں سے ہوا کرتی ہے اتنا مزہ ہمیں موت کی سرگوشیوں اور پراسرار خاموشی میں نہیں آتا۔ ’’انسان فانی ہے‘‘ کہتے وقت ہم ایسا محسوس کرتے ہیں گویا یہ اصول ہمارے اوپر منطبق نہیں ہوتا۔ اگر ہم حقیقت بیں نظروں سے دیکھیں تو یہ بات صاف واضح ہوجاتی ہے کہ زندگی کی گردش، اس کی تگ و دو اور حیات کے تذکروں سے وابستہ باتیں ہمیں فطری طور پر اپنی طرف کھینچتی ہیں ہیں اور کھینچتی رہیں گی۔ ان سب کا اظہار ہم نے ہمیشہ پرزور طریقے پر کیا ہے اور کرتے رہیں گے۔ چاہے ان باتوں کو مقصدیت کہا جائے یا پروپیگنڈا، خواہ ان باتوں کو ادب میں شامل کیا جائے یا نکال پھینکا جائے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ نظریات میں ہمیشہ فرق رہا ہے۔ بہت سے فنکار ایسے گزرے ہیں جو اس دنیا کی زندگی پر دوسری دنیا کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔ مادی زندگی کو انہوں نے اس لئے پسند نہ کیا کہ اس میں جلد مٹ جانے کے امکانات ہیں اور روحانی زندگی ان کے نزدیک ابدی زندگی ہوگی جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندگی کی مختلف لذتوں سے ہمکنار رہیں گے۔ نروان، موکش، نجات اسی ابدی زندگی کی خواہش کے نتیجے ہیں اور جب ان خیالات کی ترویج و اشاعت کی کوشش کی جاتی ہے تو وہیں سے مقصدیت کی سرحد شروع ہوجاتی ہے۔ اور اس کا شمار ادب میں بھی ہوتا ہے۔ 
  اس تمام بحث سے یہ نتیجہ نکلا کہ ادب کا اطلاق ہر اس فن پارے پر ہوگا جس سے زندگی کی تشکیل مقصود ہو، جس میں حیات کے بڑھنے اور پھیلنے کا راز مضمر ہو۔ جو ادب محض خلاء میں قلابازیاں لگانے اور تخیلات کی دنیا میں ہوائی قلعے بنانے کا اشتیاق ظاہر کرے وہ انسانی زندگی کے لئے مفید نہ ہوگا۔ اور اس لئے ہمیں اسے ایک اچھا اور صالح ادب ماننے میں تکلف ہوگا۔ وہ ادب جو مسائل حیات سے متعلق ہو، جس میں زندگی کی قدروں اور اس کی گوناگوں صلاحیتوں کا تذکرہ ہو وہ یقیناً لازوال ہے، اسے ہر دور میں بڑھنے اور پھیلنے کے لئے مواقع اور مواد ملتا رہے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK