Inquilab Logo

اپنی فطری اداکاری کیلئے ہمیشہ یاد رکھی جائینگی نوتن

Updated: June 07, 2023, 5:31 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

اس لاجواب اداکارہ نے چار دہائیوں تک ہندی سنیما کو بہت کچھ دیا۔ اس دوران اُنہو ں نے کم و بیش ۸۰؍ فلمیں کیں جن میں کئی فلمیں ایسی ہیں جو نسوانی کرداروں کی وجہ سے، جو نوتن نے ادا کئے، ہر دور میں یاد کی جائینگی۔

Actress Nutan who lives the character on screen
پردے پر کردار کو جینے والی اداکارہ نوتن

اگر کوئی پوچھے کہ درج ذیل سدا بہار گیتوں میں کون سی قدر مشترک ہے تو بہت سی دیگر قدروں کے ساتھ آپ ایک نام ضرور یاد کریں گے۔ کون سا نام؟ یہ جاننے سے پہلے یہ چند گیت ملاحظہ ہوں:
میں تو بھول چلی بابل کا دیس پیا کا گھر پیارا لگے، آج دل پر کوئی زور چلتا نہیں مسکرانے لگے تھے مگر رو دیئے، چھوڑ دے ساری دُنیا کسی کیلئے یہ مناسب نہیں آدمی کیلئے، کہاں جارہا ہے تو اے جانے والے، تو کہاں یہ بتا اس نشیلی رات میں، تمہی میرے مندر تمہی میری پوجا تمہی دیوتا ہو، رات بھر کا ہے مہماں اندھیرا کس کے روکے رُکا ہے سویرا ،  چاند پھر نکلا مگر تم نہ آئے اور ایسے کئی گیت-
 ممکن ہے آپ کا ذہن نغمہ نگار یا گیت کار کی طرف جائے، ممکن ہے آپ سوچنے لگیں کہ موسیقار کون تھا، آپ گلوکارہ یا گلوکار کی تلاش میں بھی نکل سکتے ہیں مگر یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کا ذہن اپنے دور کی اُس باصلاحیت، سنجیدہ، پردہ پر کردار کو  جینے والی اداکارہ کے بارے میں سوچنے لگیں کہ یہ اور ایسے کئی بے مثال اور لازوال گیتوں میں نوتن نظر آئی تھیں۔ اگر ایسا ہےتو آپ وہی سوچ رہے ہیں جو ہمارے ذہن میں ہے۔ 
 نوتن کے بے شمار امتیازات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اداکارہ ماں کی بیٹی، اداکارہ کی بہن، اداکار کی ماں اور اداکارہ کی خالہ تھیں۔ نوتن علالت کے سبب صرف ۵۵؍ سال کی عمر میں انتقال کرگئیں ورنہ ممکن تھا کہ وہ اب بھی اپنی سادگی اور سنجیدگی سے شائقین کو متاثر کررہی ہوتیں۔ بلاشبہ عمر نے اُن کے ساتھ وفا نہ کی مگر اپنے فن سے اُن کی وفاداری کا عالم یہ تھا کہ جس کردار کیلئے منتخب کی گئیں اُسے پردہ پر جی کر دکھایا، صرف اداکاری نہیں کی۔ اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں، یاد دلا دیں کہ وہ کس طرح اداکار ماں باپ کی بیٹی، اداکار کی بہن، اداکارکی ماں اور اداکار کی خالہ تھیں۔ نوتن کی والدہ شوبھنا سمرتھ اپنے وقت کی مشہور اداکارہ اور ہدایتکارہ تھیں۔ اُن کے والد کمارسین سمرتھ بھی اداکاری کا فن جاننے والے فلمساز تھے۔نوتن مشہور اداکارہ تنوجہ کی بڑی بہن اور موہنیش بہل کی ماں تھیں جو ہم آپ کے ہیں کون اور سب سے بڑا کھلاڑی جیسی کئی درجن فلموں میں اہم کردار ادا کرچکے ہیں۔ یہ بھی بتاتے چلیں اور اگر آپ جانتے ہیں تو بطور اعادہ عرض ہے کہ نوتن موجودہ وقت کی مشہور اور مقبول اداکارہ کاجول کی خالہ تھیں۔ یہ ساری باتیں برسبیل تذکرہ آگئی ہیں ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ نوتن نوتن تھیں، اُنہیں مزید کیس تعارف کی ضرورت نہیں ہے۔ اُن کی فلمیں اور اُن فلموں میں اُن کے کردار پردے پر آج بھی سانس لے رہے ہیں اور اتنا وقت گزر جانے کے باوجود اُن کے تاثر اور تاثیر میں فرق نہیں آیا ہے خواہ وہ سجاتا ہو، بندنی ہو، ملن، چھلیا، اناڑی اور خاندان ہو، تیرے گھر کے سامنے ہو، ساجن بنا سہاگن ہو یا کوئی اور فلم۔ نوتن کی صلاحیتوں کو فلم فیئر ایوارڈس کی کسوٹی پر پرکھا گیا تو وہ وہاں بھی اپنے وقت کی دوسری اداکاراؤں پر بازی مارتی ہوئی دکھائی دیں۔ اُنہیں بہترین اداکارہ کے چار فلم فیئر ایوارڈ ملے  جو سجاتا (۱۹۵۹ء)، بندنی (۱۹۶۳ء)، ملن (۱۹۶۷ء) اور میں تلسی تیرے آنگن کی (۷۸ء)  میں اُن کے کردار کیلئے دیئے گئے تھے۔ ایک اور فلم (میری جنگ) میں اُنہیں بہترین معاون اداکارہ کیلئے فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا تھا ۔  
 نوتن اُس دور میں پردے پر آئیں جب ہندی سنیما کا عہد زریں شروع ہورہا تھا۔ اُنہوں نے ایک مختصر کردار فلم ’’دَمینتی‘‘ میں ادا کیا تھا مگر اس کے بعد جب وہ ۱۴؍ سال کی تھیں تب پہلی مرتبہ کیمرے کا باقاعدہ سامنا ۱۹۵۰ء کی فلم ’’ہماری بیٹی‘‘ کیلئے کیا تھا جس کی ہدایتکار اُن کی ماں شوبھنا سمرتھ تھیں۔ بحیثیت ہدایتکار یہ اُن کی پہلی فلم تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ فلم نوتن کو متعارف کرانے ہی کے مقصد سے بنائی گئی  تھی۔ شوبھنا پکچرس کا آغاز بھی اسی فلم سے ہوا تھا۔ اس کے بعد نوتن نے نگینہ اور ہم لوگ (دونوں ۱۹۵۱ء کی فلمیں) میں بھی کام کیا مگر اُن کی اداکاری نے گہرا نقش اُس وقت قائم کیا جب ۱۹۵۵ء میں ’’سیما‘‘ منظر عام پر آئی۔ 
 نوتن کو ایسی فلموں کی خاص طور پر پیشکش ہوئی جن کی کہانی کسی خاتون کے گرد گھومتی تھی۔ اس دور میں کہانی کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی تھی۔ فلموں میں مکالموں اور نغمون کے ساتھ ساتھ کہانی اور ڈرامے کا عنصر حاوی ہوتا تھا۔ سنیما گھروں میں لوگوں کو آبدیدہ ہوتے اور باقاعدہ روتے ہوئے دیکھا جاتا تھا کیونکہ وہ کہانی میں اس قدر محو ہوجاتے تھے کہ ایسا لگتا تھا جیسے سب کچھ اپنی نگاہوں کے سامنے حقیقی دُنیا میں ہوتا دیکھ رہے ہوں۔ آج کل ایسی فلمیں کم بنتی ہیں مگر اُس دور میں کہانی کو جو اہمیت حاصل تھی، فلم کی ڈائریکشن کو جو اہمیت حاصل تھی وہ اُس دور کا نشان امتیاز قرار پاتی ہے۔ نوتن ۴؍ جون ۱۹۳۶ء کو ممبئی میں پیدا ہوئیں اور چار دہائیوں پر فلم کے پردے کو اپنے حسن اور حسن ِ ادائیگی سے سنوارتی رہیں۔ اُن کی رقص سے بھی دلچسپی تھی لہٰذا پرانے نغموں کے شائقین اُس قوالی کو کبھی نہیں بھول سکتے جس میں قوالی کے الفاظ اور مصرعے ہی دل پزیر نہیں تھے، نوتن کا رقص بھی کمال کا تھا۔ قوالی تھی: ’’راز کی بات ہے محفل میں کہیں یا نہ کہیں، بس گیا ہے کوئی اس دل میں کہیں یا نہ کہیں، نگاہیں ملانے کو جی چاہتا ہے۔‘‘ 
 سجاتا اور بندنی جیسی فلموں کے بعد نوتن ٹریجڈی کوئین (المیہ اداکاری کی ملکہ) کہی جانے لگی تھیں۔ اُنہیں ایسی فلموں کی خاص طور پر پیشکش ہوئی جو فلموں کے اعلیٰ معیار پر پرکھی جاسکتی تھیں۔ نوتن نے اپنی اداکاری کے ذریعہ ان فلموں کو جس طرح زندگی بخشی وہ اُنہی کا حصہ تھا۔ اُن کی اداکاری کا فطری پن، سنجیدگی اور مکالموں کی ادائیگی خاصے کی چیز تھی۔ اُن کا شین قاف ہی درست نہیں تھا وہ تلفظات سے بھی واقف تھیں جس سے اُردو تلفظات سے اُن کی گہری واقفیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اُن کی یہ خصوصیت فلم میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے اور انٹرویوز میں بھی۔ آج کے دور میں یہ بات امتیازی خصوصیت محسوس ہوتی ہے مگر سچائی یہ ہے کہ اُس دور میں، جس دور کی بات اس کالم میں کی جارہی ہے، اُردو سے واقفیت فلموں میں داخلے کی اہم شرط ہوتی تھی اور فلمساز اور ہدایتکار یہ دیکھتے تھے کہ ہیرو یا ہیروئن کو اُردو الفاظ او رمکالموں کی ادائیگی پر کتنی قدرت حاصل ہے۔ 
 ۱۹۸۰ء تک کی فلموں میں نوتن مرکزی کردار ادا کیا کرتی تھیں مگر اُس کے بعد اُن کے کریئر کا دوسرا دور شروع ہوا جب وہ کیریکٹر آرٹسٹ کی حیثیت سے فلمیں قبول کرنے لگیں۔ ساجن کی سہیلی میری جنگ اور سوداگر جیسی فلموں میں اُنہیں کیریکٹر آرٹسٹ کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ 
 اس سے قبل کہ ہم نوتن کے تذکرہ کو نہیں کہ یہ تذکرہ کبھی ختم نہیں ہوسکتا مگر اس ہفتے کے کالم کو ختم کریں، یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ قارئین اس دور کو ذہن میں رکھیں جب ایک سے بڑھ کر ایک صلاحیتیں ہندی سنیما میں موجود تھیں۔ ایسے دور میں فلم حاصل کرنا، کردار کو نبھانا اور فلم کو کامیاب بنانا کتنا بڑا معرکہ ہوتا ہوگا۔ نوتن کی کامیاب فلمیں اُن کی کامیابی کی سند ہیں اس سے انکار ممکن نہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK