• Sat, 28 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

نیائے یاترا : کانگریس نے بی جے پی سے نظریاتی سطح پر مقابلے کا فیصلہ کرلیا ہے

Updated: January 21, 2024, 9:31 AM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

بھارت جوڑو نیائے یاترا کا آغاز ہو چکا ہے۔ کانگریس پارٹی نے بالکل اسی انداز میں اس یاترا کا بھی آغاز کیا ہے جیسا گزشتہ بھارت جوڑو یاترا کا کیا تھا۔

Children also look eager to meet Rahul Gandhi during the `Bharat Jodo Naya Yatra`. Photo: INN
’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ کے دوران بچے بھی راہل گاندھی سے ملنے کیلئے بے تاب نظر آتے ہیں۔ تصویر : آئی این این

بھارت جوڑو نیائے یاترا  کا آغاز ہو چکا ہے۔ کانگریس پارٹی نے بالکل اسی انداز میں  اس یاترا کا بھی آغاز کیا ہے جیسا گزشتہ بھارت جوڑو یاترا کا کیا تھا لیکن اس مرتبہ پارٹی کے ’اپروچ ‘میں واضح فرق محسوس کیا جاسکتا ہے۔ بی جے پی کے آئی ٹی سیل کی جانب سے یاترا کو بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش ہو رہی ہے لیکن پارٹی کے رجحان میں فرق کی وجہ سے آئی ٹی سیل یا خود بی جے پی کو ایسا کوئی موقع نہیں مل رہا ہے کہ وہ اسے کھل کر بدنام کرسکیں۔ راہل گاندھی نے منی پور،جہاں گزشتہ سال بدترین نسلی تشدد ہوا  اور جہاں اس وقت بھی بی جے پی  نے اسی شخص کو وزیر اعلیٰ بنارکھا ہے جس پر تشدد کے دوران کچھ نہ کرنے کا الزام لگتا رہا ہے ، سے یاترا شروع کرکے بی جے پی سے واضح طور پر نظریاتی لڑائی لڑنے کا اعلان کیاہے۔
پارٹی کا یہ قدم بالکل نپا تلا اور واضح پیغام دیتا ہے کہ کانگریس نظر یات کی سطح پر اب کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں  ہے۔ اسے بی جے پی سے ہندوتوا   کے میدان میں نہیں بلکہ سیکولر ازم اور انصاف کے میدان میں لڑائی لڑنی ہے۔ منی پور سے یاترا کی شروعات نے بی جے پی تک یہ پیغام پہنچادیا ہے کہ لوک سبھا الیکشن کا جنگ اب ۲؍ واضح نظریات کے درمیان ہو گا۔ خود راہل گاندھی نے یہ وضاحت کردی ہے کہ ان کی بی جے پی سے لڑائی اقتدار کی نہیں بلکہ نظر یات کی ہے۔ بی جے پی کے لئے یہیں سے پورا مسئلہ شروع ہوتا ہے کیوں کہ وہ کھل کر ہندوتوا کا راگ نہیں الاپ سکتی۔ یہ کام اس نے آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں کو سونپ رکھا ہے۔چونکہ اس نے سیکولر ازم اور آئین کا حلف لیا ہے، اس لئے اسے بھی کہیں نہ کہیں یہ ظاہر کرنا پڑتا ہے کہ وہ اب بھی آئین پر عمل پیرا ہے۔ کانگریس کے لئے یہی کامیابی کی سب سے بڑی کلید ہوسکتی ہے کہ وہ بی جے پی سے ہندوتوا پر سوال کرنے کے بجائے اس سے سیکولر ازم اور ملک کے آئین کے موضوع پر سوالات کرے۔ انہی سوالوں سے بی جے پی کے لیڈران تلملا جاتے ہیں اور پھر وہ پے در پے ایسی غلطیاں کرتے ہیں جن سے کانگریس پارٹی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ 
 یاترا کے ذریعے کانگریس  نے راہل گاندھی کو ’سینٹر اسٹیج ‘ پر لانے کا کا م بھی شروع کردیا ہے۔ ہر چند کہ وہ وزارت عظمیٰ کے فی الحال دعویدار نہیں ہیں لیکن انہیں پارٹی کی جانب سے مودی کو براہ راست چیلنج کرنے والا لیڈر بناکر پیش ضرور کیا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: مودی سرکار کو بحث و مباحثےسے اتنی نفرت کیوں ہے؟

اس میں راہل گاندھی کے اپنے نظریات کا بھی بہت کچھ دخل ہے کیوں کہ انہوں نے جب سے سیاست میں قدم رکھا ہے تب سے وہ سیکولر ازم، انصاف اور عوامی مفاد کے موضوعات اٹھاتے رہے ہیں ۔ غالباً ملک میں لالو پرساد یادو کےبعد راہل گاندھی ہی وہ لیڈر ہوں گے جنہوں نے اب تک سیکولر نظریات سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ہر چند کہ انہوں نے کئی سلگتے ہوئےموضوعات پر خاموشی اختیار کی ہے یا ان کی پارٹی نے مصلحت کی چادر بھی اوڑھ رکھی ہے لیکن ملک کو درپیش سنگین مسائل جس میں ہندوتوا کا بڑھتا زور سب سے اہم ہے ،پر  انہوں نےکھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔یاترا کے  ذریعے پارٹی اسی سیکولر ازم اور انصاف کی  دہائی دے رہی ہے اور راہل گاندھی  اپنا پیغام عوام تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہے ہیں۔منی پور ، ناگالینڈ اور اس کے بعد اب آسام میںان کی یاترا کو عوام کی جتنی زبردست حمایت مل رہی ہے اس سے بی جے پی کے ارباب اقتدار کے سینوں پریقیناً سانپ لوٹ رہے ہوں گے۔
منی پور میں راہل گاندھی نے نہ صرف وہاں کے قبائلیوں کا مسئلہ اٹھایا بلکہ نسلی تشدد میںبی جے پی کی کوتاہی پر بھی گرفت کی ۔ ناگالینڈ میں انہوں نے ناگا قبائل اور ان کے ساتھ کئے گئے وعدوں اور معاہدوں کا معاملہ اٹھایا۔ ان دونوں ہی ریاستوں میں انہوں نے واضح پیغام دے دیا ہے کہ کانگریس کا موقف کیا ہے۔ آسام میں چونکہ ان کی یاترا جاری ہے اور یہاں پر انہیں توقع سے کہیں بڑھ حمایت مل رہی ہے، اس لئے بی جے پی کسی نہ کسی طرح اسے سبوتاژ کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ آسام کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کیوں کہ پورے شمال مشرقی خطے میں آسام سب سے بڑی اور اہم  ریاست ہے ۔ اس کی سرحدیں خطے کی  ہر ریاست سے ملتی ہیں۔ وہاں کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما اس وقت خطے کی  ہر ریاست کے معاملے میں دخیل ہیں اور کسی زمانے میں راہل گاندھی کی ٹیم کے اہم رُکن تھے۔  ایسے میں اسی ریاست سے یاترا کا گزرنا  اور اسے عوام کی زبردست حمایت ملنا  بی جے پی کے ساتھ ساتھ ہیمنت بسوا شرما کے لئے بھی بہت واضح پیغام ہے۔ حالانکہ اس یاترا کا اصل امتحان ہندی بیلٹ کہلانے والی ریاستوں میں ہو گا کیوں کہ انہی ریاستوں میں بی جے پی کی پکڑ بہت مضبوط ہے  اور حالیہ ریاستی انتخابات میں اس نے دوبارہ  اپنی گرفت کو مضبوط کیا ہے۔
 ان ریاستوں میں سے کم از کم ۲۵۰؍ ایسی پارلیمانی سیٹیں ہیں جہاں کانگریس کو گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب پارٹی یہاں وقت سے پہلے  یاترا کی شکل میںانتخابی مہم شروع کررہی ہے جس سے یقیناً کانگریس کے ساتھ ساتھ اس کی اتحادی پارٹیوں کو بھرپور فائدہ ہو گا۔ ہندی بیلٹ میں کانگریس یاترا لے جاکر اپنی قسمت بھی آزما رہی ہے کیوں کہ اگر اس نے یہاں ۱۰۰؍ سیٹیں بھی حاصل کرلیں تو اس کی قیادت والا اتحاد بی جے پی کے سامنے بڑا چیلنج پیش کرنے میں کامیاب رہے گا۔ سیاسی ماہرین بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ ہندی بیلٹ کی ریاستوں یعنی یوپی ، ایم پی ، بہار ، جھارکھنڈ ، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس یاترا کے ذریعے جہاں ایک طرف نظریاتی سطح پر بی جے پی کو چیلنج پیش کررہی ہے  وہیں دوسری طرف وہ اس کی تمام سیٹیں جیتنے کی کوشش نہیں کررہی ہے بلکہ وہ سیٹیں حاصل کرنا چاہتی ہے جہاں پر بی جے پی کمزور پڑ گئی ہے۔ اس صورتحال میں اگر اسے ۱۰؍ سے ۱۵؍ سیٹیں زائد مل جائیں گی تو یہ اس کے لئے بونس ہو گا لیکن  یہ صورتحال بی جے پی  کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے جس کیلئے جنوبی ہند کا دروازہ تقریباً بند ہو گیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK