• Thu, 26 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

حصولِ برکت کیلئے اطاعت ِ باری تعالیٰ شرطِ اوّلیں ہے

Updated: September 15, 2023, 1:37 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

دورِ حاضر کا ایک بڑا مسئلہ بے برکتی ہے جس سے بہت سارے لوگ جوٗجھ رہے ہیں ۔ ہم میں کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہیں ہمہ وقت یہ شکایت رہتی ہے کہ ان کے مال اور وقت میں برکت نہیں ہے۔

Where and how does time end? To understand this, it is important to do your own accounting. Photo: INN
وقت کہاں اور کس طرح ختم ہوجاتا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لئے اپنا محاسبہ کرنا ضروری ہے۔ تصویر:آئی این این

دورِ حاضر کا ایک بڑا مسئلہ بے برکتی ہے جس سے بہت سارے لوگ جوٗجھ رہے ہیں ۔ ہم میں کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہیں ہمہ وقت یہ شکایت رہتی ہے کہ ان کے مال اور وقت میں برکت نہیں ہے۔ اس تعلق سے سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ برکت کسے کہتے ہیں ؟ کیونکہ ہم میں سے بہت سارے لوگوں کے ذہن میں مال میں برکت کا صرف یہ مطلب ہے کہ مال میں اضافہ ہو جائے اور اسی طرح وقت میں برکت کا مطلب یہ ہے کہ وقت بڑھ جائے۔ حالانکہ برکت کے حوالے سے شریعت کی تعلیم کا لب لباب یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں جو مال عطا کیا ہے اس میں برکت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ہماری ضروریات اس سے بحسن و خوبی پوری ہوجائیں اور ہم اطمینان کی زندگی گزاریں ؛ اسی طرح وقت میں برکت کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ کم وقت میں ہمارا زیادہ کام ہوجائے۔ 
 چونکہ کسی بھی چیز میں برکت اللہ رب العزت کی عظیم نعمت ہے، اسی وجہ سے اس برکت کے حصول کیلئے اطاعت باری تعالیٰ شرطِ اولیں ہے۔ یاد رکھئے! اگر ہم نے اپنے مال میں اضافے کے لئے غلط راستہ اپنایا یا اپنے وقت کو غلط طریقے سے استعمال کیا تو ان دونوں چیزوں میں بے برکتی یقینی ہے۔ برکت کے متعلق اس حدیث قدسی کو سمجھئے : حضور ﷺ نے فرمایا ، ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جب میری اطاعت کی جائے تو میں خوش ہوتا ہوں ، جب میں خوش ہوتا ہوں تو برکتیں عطا کرتا ہوں اور میری برکتوں کی کوئی انتہانہیں ۔ (مسند احمد) 
 افسوس کی بات ہے کہ مال میں برکت کے تعلق سے کچھ مادیت پرست لوگوں کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ اگر وہ اپنا مال صدقہ، زکوٰۃ یا کسی اور دینی کام میں خرچ کریں گے تو ان کا مال کم ہو جائے گا، بالفاظ دیگر ان کے مال میں بے بر کتی ہوجائے گی۔بلاشبہ یہ سوچ شرعی تعلیم کی روح کے منافی ہے۔ ایک حدیث میں ہے:’’کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جب بندے صبح کو اٹھتے ہیں تو دو فرشتے آسمان سے نہ اترتے ہوں ایک فرشتہ تو یہ کہتا ہے کہ اے اللہ خرچ کرنے واے کو اس کا بدلہ دے اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ روکنے والے(بخیل) کے مال کو تلف و برباد کر دے۔‘‘( بخاری) اس حدیث سے یہ واضح ہے کہ صحیح مصرف میں مال خرچ کرنے سے مال میں اضافہ ہوتا ہے اور صحیح مصرف میں خرچ نہ کرنے سے مال میں کمی واقع ہوتی ہے یعنی بے بر کتی ہوتی ہے۔ اسی طرح مال میں بے برکتی کی شکایت سے بچنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم مال کو اللہ کی مکمل ملکیت سمجھیں اور اسے اپنی محنت یازور بازو کا کمال نہ سمجھیں کیونکہ اگر ہم مال کے حصول میں اپنی پوری طاقت بھی لگادیں اور اللہ رب العزت کی منشاء نہ ہو تو ہم تہی دامن ہی رہیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مال کے حصول میں اپنی محنت کے ساتھ توکل علی اللہ لازمی امر ہے۔ اس قضیے کو ذیل کی حدیث سے ہم بہتر ڈھنگ سے سمجھ سکتے ہیں ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’اگر تم حسن وخوبی کے ساتھ اللہ پر توکل کرو، تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے، وہ صبح کے وقت خالی پیٹ جاتے ہیں اور شام کے وقت آسودہ ہو کر لوٹتے ہیں ۔‘‘ (مسنداحمد) ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ رب العزت پر کامل توکل کے بغیر خوشحالی اور خوش بختی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
  دوسرے پہلو یعنی وقت میں بے برکتی کو بھی سمجھنا چاہئے۔ دراصل یہ بھی وقت کو غلط استعمال کرنے کا نتیجہ ہے۔ ماڈرن ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں جبکہ گھنٹوں کا عمل منٹوں میں مکمل ہوجاتا ہے، وقت کی تنگی اور کمی کی شکایت کسی کو بھی نہیں ہونی چاہئے۔ مزید برآں آج کے لوگوں کو پہلے کے لوگوں سے زیادہ کام کرنا چاہئے لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔ پہلے کے لوگوں میں بہت سارے ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے کم وقت میں عظیم کارنامے انجام دیئے۔ مثال کے طور پر ماضی قریب میں مولانا قاسم نانوتوی کی مثالی شخصیت گزری ہے،جنہوں نے صرف ۴۷؍ سال کی عمر پائی لیکن انہوں نے علمی، تبلیغی، روحانی اور سیاسی دنیا میں تن تنہا وہ کارنامہ انجام دیا جو بہت ساری انجمنوں کے لئے بھی مشکل ہے۔ حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی ؒآپ کی لکھی گئی کتابوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ اگر ان کتابوں کا ترجمہ عربی زبان میں کیا جائے اور نام نہ لکھا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ یہ کتابیں امام رازی ؒیا امام غزالیؒ کی لکھی ہوئی ہیں ۔ (قصص الاکابر)اس لئے اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے وقت میں برکت ہو تو ہمیں وقت کی قدر کرنی چاہئے اور جس وقت کے لئے جو کام طے ہے اس کو اسی وقت انجام دینا چاہئے۔ مثال کے طور پر ہمیں رات میں وقت برباد کر کے دیر سے سونے کے بجائے جلدی سونا چاہئے اور صبح جلدی اٹھ کر اپنے کاموں کو انجام دینا چاہئے، کیونکہ یہ شریعت کا حکم ہے اور اس لئے اس میں برکت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے: ’’اے الله ،میری امت کے لئے اس کے صبح کے وقت میں برکت عطا کر۔‘‘(مسند احمد)
 خلاصہ یہ ہے کہ ذکر کردہ باتوں کی روشنی میں ہمیں بے برکتی کی شکایت اور پریشانی سے بچنے کے لئے سب سے پہلے بے برکتی کے اسباب سے دور ہونا چاہئے اور پھر ان اسباب کو اپنانا چاہئے جن سے برکت آتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK