Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’امیر کی اطاعت نیکی کے کاموں میں ہے، اگر گناہ کا حکم دے تو اسکی اطاعت مت کرو‘‘

Updated: October 13, 2023, 1:20 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

سیرتِ رسول پاکؐ کی اس خصوصی سیریز میں آپؐ کی مدینہ منورہ واپسی کے بعد کے امور کا تذکرہ جاری ہے۔ آج کی قسط میں چند سرایا کاذکر ہے جن کا مقصد دین اسلام کی دعوت دینا اور مشرکوں کی سرکوبی کرنا تھا۔

In Yemen, an idol was kept in a house named Dhul-Khalsa, which the Holy Prophet sent Hazrat Jarir bin Abdullah to destroy it. Photo: INN
یمن میں ایک بت ذوالخلصہ نامی گھر میں رکھا ہوا تھا جسے ختم کرنے کے لئے آپؐ نے حضرت جریر بن عبداللہ ؓ کو روانہ فرمایا تھا۔ تصویر:آئی این این

سریہ قُطبۃ بن عامرؓ
اسی سال کے دوسرے ماہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس افراد کا ایک دستہ تشکیل دے کر بنو خشعم کی طرف بھیجا جو نبالہ کے ایک حصے میں مقیم تھا، اس دستے کی قیادت قُطْبَہ بن عامر کررہے تھے، ان لوگوں کے پاس دس اونٹ تھے۔ یہ لوگ تیزی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے متعلقہ قبیلے کے قریب جا پہنچے، ایک شخص ان کے ہاتھ لگا، اس سے پوچھ گچھ کی، پہلے تو وہ گونگا بہرا بن گیا، پھر اچانک بولنے لگا، اور زور در زور سے چیخ کر اپنے قبیلے والوں کو آگاہ کرنے لگا، مسلمانوں نے اس کو قتل کردیا، جب رات کا کچھ حصہ گزر گیا اور یہ یقین ہوگیا کہ قبیلے کے لوگ سو گئے ہوں گے، تب اس دستے نے ان پر یلغار کردی، وہ بھی لڑنے مرنے پر آمادہ ہوگئے، دونوں فریقوں میں دیر تک جنگ ہوئی، دونوں طرف کے لوگ زخمی ہوئے، اس جنگ میں قطبہ بن عامر شہید ہوگئے، بالآخر فتح مسلمانوں کو ہوئی، بہت سے مرد، خواتین اور بچے قیدی بناکر مدینے لائے گئے، اونٹ بکریاں بھی کافی ہاتھ آئیں ، دشمن نے پیچھا کیا، لیکن جس وادی سے مسلمان قیدیوں کو لے کر گزررہے تھے اس وادی میں اچانک سیلاب آگیا، قبیلۂ خشعم کے لوگ حسرت اور مایوسی سے دیکھتے رہ گئے، مسلمان وادی سے محفوظ گزر گئے۔ (زاد المعاد: ۳/۳۷۳، الطبقات الکبری: ۲/۱۶۲) 
سریّہ ضحاک بن سفیان الکلابیؓ
ماہ ربیع الآخر میں ایک سریّہ جس کی قیادت حضرت ضحاک بن سفیان الکلابیؓ کررہے تھے بنو کلاب روانہ ہوا، اس دستے میں اَصْیَدْ بن سلمہ بھی تھے، زُجْ کے مقام پر مدبھیڑ ہوئی، مسلمانوں نے ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دی، انہوں نے انکار کیا۔ اب جنگ کے سوا کوئی راستہ نہ تھا، چنانچہ دونوں طرف سے تلواریں نکل آئیں ، اور تیروں کی بارش ہونے لگی۔ جنگ جاری تھی کہ اَصْیَدْ کی ملاقات اپنے والد سلمہ سے ہوگئی، ان کا باپ گھوڑے پر سوار تھا، بیٹے نے باپ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، اور یہ وعدہ کیا کہ وہ انہیں حفاظت کے ساتھ یہاں سے نکال کر لے جائیں گے، مگر باپ نے بیٹے کی پیش کش ٹھکرادی، سلمہ نے گھوڑے کو تلوار ماری، گھوڑا زمین پر گر گیا، سلمہ بھی پانی میں جا پڑا، اَصْیَدْ نے باپ کو بھاگنے نہیں دیا، اور اس وقت تک اسے پانی میں روکے رکھا جب تک کسی دوسرے نے آکر اس کو قتل نہیں کردیا، اَصْیَدْ نے اپنے باپ کو خود قتل نہیں کیا۔ (زاد المعاد: ۳/۳۷۴)
سریّہ عَلْقَمہ بن مُجَزِّزْ المدلَجِیْ
اسی مہینے کے آخر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ حبشہ کے کچھ لوگ جدہ آئے ہوئے ہیں ، یہ لوگ رہزن تھے اور مکہ آنے جانے والے قافلوں کو لوٹنے کے ارادے سے جدہ آئے تھے۔ آپؐ نے علقمہ بن مُجَزِّزکی قیادت میں تین سو مسلمانوں کو جدہ بھیجا تاکہ وہ انہیں اسلام کی دعوت دیں ، انہوں نے مسلمانوں کی آمد کی خبر سنی تو فرار ہوگئے، مسلمان ان کی تلاش میں سمندر میں دور تک گئے، کچھ لوگ جزیروں تک بھی پہنچے، مگر ان کا سراغ نہیں ملا۔ واپسی کے سفر میں کچھ لوگوں نے چاہا کہ وہ جلد از جلد مدینے اپنے گھر پہنچ جائیں ، علقمہؓ نے ان کو واپسی کی اجازت دے دی، حضرت حذافہ سہمیؓ بھی انہیں میں تھے، جلد واپسی کے خواشمند لوگوں کا امیر انہی کو مقرر کیا گیا، ان کے مزاج میں ظرافت تھی، ایک دن راستے میں انہوں نے آگ جلوائی اور اپنے ہم سفر ساتھیوں سے کہا کہ آگ میں کود پڑو، ساتھیوں نے گریز کیا، انہوں نے پوچھا کیا میں تمہارا امیر نہیں ہوں ، لوگوں نے کہا: بالکل آپ ہمارے امیر ہیں ، انہوں نے کہا، ہمارا حکم مانو، بعض سادہ لوح حضرات آگ میں کودنے کے لئے آمادہ ہوگئے، جنہیں دوسرے ساتھیوں نے روکا، حضرت حذافہ سہمیؓ نے کہا کہ میں تو مذاق کررہا تھا، مدینے پہنچنے کے بعد یہ قصہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں لایا گیا تو آپؐ نے فرمایا کہ امیر کی اطاعت نیکی کے کاموں میں ہے، اگر کوئی گناہ کا حکم دے تو اس کی اطاعت مت کرو، اگر تم آگ میں کودجاتے تو قیامت تک اس میں سے نہ نکلتے۔ 
(زاد المعاد: ۳/۳۷۴)
اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت عبد اللہ بن حذافہؓ کا بھی گزرا ہے، خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ دونوں واقعات الگ الگ ہیں ، یا ایک ہی سریّے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ 
سریّہ جَرِیر بن عبد اللہ البَجَلیؓ
اس غزوے کے تعلق سے امام بخاریؒ نے کتاب المغازی میں تین روایات ذکر فرمائی ہیں ، ان تینوں کا خلاصہ یہ ہے کہ یمن کے علاقے میں جہاں قبیلۂ خثعم آباد تھا ایک بت ذوالخلصہ نامی گھر میں رکھا ہوا تھا، اس گھر کو وہ لوگ کعبہ کہا کرتے تھے، اس بت کی پرستش کرتے، تقرب کے لئے اس کے آگے جانور ذبح کرتے اور اس پر پھول چڑھاتے، ایک صحابی ہیں حضرت جریر بن عبد اللہ البجلیؓ، ان کا تعلق یمن کے اسی علاقے سے تھا، ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اے جریر! کیا تم ذی الخلصہ سے مجھے راحت نہیں پہنچاؤگے؟ آپؐ کا مقصد یہ تھا کہ تم وہاں جاؤ اور اس مصنوعی کعبے کو گرا کر آؤ تاکہ مجھے اس سے خوشی حاصل ہو اور بت کدے کی تباہی سے میرے دل کو راحت ملے۔ صحابیؓ نے عرض کیا: کیوں نہیں ! یارسولؐ اللہ! میں تعمیل حکم کے لئے تیار ہوں ، مگر میرے ساتھ دِقّت یہ ہے کہ میں گھوڑے کی پیٹھ پر جم کر نہیں بیٹھ سکتا۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک میرے سینے پر مارا اور میرے لئے یہ دعا فرمائی! اَللّٰہُمَّ ثَبِّتْہُ وَاجْعَلْہُ ہَادِیًا مَہْدِیًا ’’اے اللہ! اس کو ثابت قدم رکھ اور اس کو ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والا بنا‘‘ حضرت جریرؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دُعا کے بعد پھر کبھی میں گھوڑے سے نہیں گڑا۔
بہر حال حضرت جریر بن عبد اللہؓ اپنی قوم احمس کے ڈیڑھ سو آدمیوں کو لے کر یمن کی طرف روانہ ہوئے، لمبی مسافت طے کرنے کے بعد یہ حضرات ذوالخلصہ نامی عمارت تک جا پہنچے، انہوں نے اس میں رکھے ہوئے بت توڑے اور اس عمارت کو نذر آتش کیا، اس کا رروائی سے فارغ ہونے کے بعد حضرت جریرؓ نے اپنے ایک ساتھی حضرت ابوأرطاۃؓ کو یہ خوش خبری لے کر مدینے بھیجا کہ ذوالخلصہ تباہ ہوچکا ہے، اور اب اس کا کوئی نام ونشان باقی نہیں بچا، ابوأرطاۃؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یارسولؐ اللہ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپؐ کو رسول برحق بنا کر مبعوث فرمایا میں وہاں سے اس وقت تک نہیں چلا جب تک میں نے ذوالخلصہ کو اس حال میں نہیں چھوڑا جیسے وہ خارش زدہ اونٹ ہو۔‘‘ حضرت أرطاۃؓ نے اس نام نہاد عمارت کو خارش زدہ اونٹ سے اس لئے تشبیہ دی کہ اہل عرب اپنے خارش زدہ اونٹوں پر تارکول مل کر انہیں سیاہ کردیتے تھے۔ ذوالخلصہ نامی عمارت بھی جل کر تارکول کی طرح سیاہ ہوگئی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ خبر سن کر بے حد مسرور ہوئے، آپ نے قبیلۂ احمس کے سواروں اور پیادوں کے لیے پانچ مرتبہ برکت کی دُعا فرمائی۔ (صحیح البخاری: ۴/۶۲، رقم الحدیث: ۳۰۲۰)
سریّہ علیؓ بن ابی طالب
ربیع الآخر میں ایک سریّہ حضرت علیؓ بن ابی طالب کی قیادت میں قبیلۂ طیٔ کی طرف روانہ ہوا، اس میں ایک سو پچاس انصاری صحابہؓ سو اونٹوں اور پچاس گھوڑوں کے ساتھ شامل ہوئے، ایک سیاہ اور ایک سفید جھنڈا لشکر کے افراد اٹھائے ہوئے آگے آگے چل رہے تھے، قبیلۂ طئ کا ایک شخص حاتم طائی اپنی سخاوت میں دور دور تک شہرت رکھتا تھا، اگرچہ یہ شخص اب زندہ نہیں تھا، مگر اس کے بیٹے بیٹیاں اور خاندان کے دوسرے لوگ طئ میں تھے، حضرت علیؓ نے حاتم کے قبیلے پر رات کے وقت حملہ کیا اور فُلْس نام کے اس بت کو توڑ پھوڑ کر پھینک دیا جو قبیلے کے لوگوں نے ایک نمایاں جگہ پر کھڑا کررکھا تھا، قبیلے کے لوگ کوئی خاص مزاحمت نہ کرسکے، بہت سے لوگ فرار ہوگئے، کچھ گرفتار ہوئے، بہت سے مویشی ہاتھ لگے، گرفتار شدہ گان میں حاتم طائی کی بیٹی سفانہ بھی تھی۔
ایک روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبیلۂ طئ کے محروسین کے معائنے کے لئے تشریف لائے، حاتم طائی کی بہن سفانہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو عرض کیا کہ میرا باپ مر گیا ہے، اور میرا بھائی غائب ہوگیا ہے، آپ چاہیں تو مجھے آزاد کردیں ، میرے دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیں ، میرے والد بھوکوں کو کھانا کھلایا کرتے تھے، ضرور ت مندوں کی مدد کرتے تھے، اور سلام کو رواج دیا کرتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفانہ کا یہ انداز گفتگو پسند آیا، آپؐ نے حکم دیا کہ اس خاتون کو رہا کردیا جائے، آپؐ نے اہل کرم کو عزت دینے میں کبھی کمی نہیں کی، سفانہ کو رہائی پاکر بہت زیادہ خوش ہوئی، اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی اللہ آپؐ کی اس بھلائی کو قبول کرے، آپؐ کو کسی کا محتاج نہ بنائے اور اگر کسی عزت دار آدمی کی کوئی نعمت چھن جائے تو آپؐ کے ذریعے اسے واپس دلادے۔ سفانہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاطفت آمیز گفتگو، اور کریمانہ اخلاق سے بے حد متأثر ہوئی، اس نے اسی وقت اسلام قبول کرلیا، آپ نے اسے کچھ کپڑے دیئے، ایک سواری دی اور بہت سا مال دے کر اسے رخصت کیا۔(اُسد الغابہ: ۷/۱۴۳) 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK