• Sat, 05 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

پارٹی بدلنے کا جنون

Updated: October 03, 2024, 12:48 PM IST | Mumbai

گزشتہ چند برسو ں میں پارٹی چھوڑنا، دوسری پارٹی میں جانا اور پھر لوَٹ کر آجانا عام سی بات ہوگئی ہے۔ ایسے بھی بہت مل جائینگے جو ایک پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں جاتے ہیں اور پھر وہاں سے کسی تیسری پارٹی کی طرف جست لگاتے ہیں۔ آپ کو ایسے لوگ بھی مل جائینگے جو اَب تک کئی پارٹیوں کی سیر کر آئے ہیں۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

’’گھر واپسی‘‘ کا استعمال سیاسی طور پر مختلف معنی میں ہوتا تھا اور اس سے دلچسپی رکھنے والے آج بھی کرتے ہیں مگر اسی اصطلاح کو اب ایک اور معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ کوئی لیڈر یا پارٹی کا کارکن کسی دوسری پارٹی میں شامل ہوجائے اور کچھ عرصہ بعد اپنی پرانی پارٹی میں لوَٹ آئے تو اُس کے اِس عمل کو بھی گھر واپسی کہا جاتا ہے۔ گھر واپسی بُری نہیں مگر کوئی شخص اپنی پارٹی کو ذاتی مفاد کے تحت خیرباد کہے اور پھر ذاتی مفاد ہی کے تحت واپس آجائے تو کیا یہ درست ہے؟ ایسے لوگوں کو پارٹی میں شامل کرکے اُس پارٹی کے ارباب اقتدار دوسروں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ پارٹی چھوڑ کر جانا کوئی بُری بات نہیں، آپ کچھ عرصہ بعد واپس آنا چاہتے تب بھی آپ اُتنے ہی قابل قبول رہیں گے جتنے کہ اب ہیں !
یہ بات ہمیں پریشان کرتی ہے۔ گزشتہ چند برسو ں میں پارٹی چھوڑنا، دوسری پارٹی میں جانا اور پھر لوَٹ کر آجانا عام سی بات ہوگئی ہے۔ ایسے بھی بہت مل جائینگے جو ایک پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں جاتے ہیں اور پھر وہاں سے کسی تیسری پارٹی کی طرف جست لگاتے ہیں۔ آپ کو ایسے لوگ بھی مل جائینگے جو اَب تک کئی پارٹیوں کی سیر کر آئے ہیں۔ مثال کے طور پر بہار کے سیاستداں جیتن رام مانجھی۔ موصوف سب سے پہلے کانگریس میں تھے، اس کے بعد جنتا دل میں گئے، پھر آر جے ڈی میں قسمت آزمائی اور پھر جے ڈی یو میں چلے گئے۔ اس پر بھی اُن کا سفر تمام نہیں ہوا بلکہ شاید دوسری پارٹیوں کے سربراہان کو یہ بتانے کیلئے کہ سربراہ کیسا ہونا چاہئے اُنہوں نے اپنی پارٹی خود لانچ کردی جس کا نام ہندوستانی عوام مورچہ (ہم) ہے۔ یہ مثال تو کسی حد تک ٹھیک ہے، ہمارا زیادہ اعتراض اُن لوگوں پر ہے جو ایک پارٹی چھوڑ کر جاتے ہیں اور پھر اُسی میں لوَٹ آتے ہیں۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے نظریاتی اعتبار سے بالکل مخالف پارٹیوں میں شمولیت اختیار کی اور لوَٹ کر سابقہ پارٹی میں آگئے۔ اگر سیاسی جماعتوں کیلئے نظریات کی اہمیت ہے تو کیا وجہ ہے کہ مخالف نظریات کی پارٹی سے آنے والوں کو قبول کرلیا جاتا ہے اور خوشی خوشی رُکنیت دے دی جاتی ہے؟ کیا اُن سے پوچھا نہیں جانا چاہئے کہ وہ اپنے سابقہ نظریات کے ساتھ آرہے ہیں یا اُن نظریات کو تیاگ دے کر آنا چاہتے ہیں ؟ ہمیں پارٹی چھوڑ کر دوبارہ آنے والوں پر اتنی حیرت نہیں ہوتی جتنی کہ اُس پارٹی کے ارباب اقتدار پر ہوتی ہے جو اُنہیں سزا دینے کے بجائے اُن کا ازسرنو خیرمقدم کرتے ہیں۔ 
کسی ایک کی مثال دینا ٹھیک نہیں، کیونکہ ہمیں پارٹی چھوڑنے، شامل ہونے اور پھر (دوسری پارٹی کو) چھوڑ دینے کے عمومی رجحان پر حیرت اور اعتراض ہے۔ اگر آپ ہم سے پوچھیں کہ شیو سینا چھوڑ کر جانے اور شیو سینا پر اپنا حق جتانے والے واپس آنا چاہیں تو کیا اُدھو ٹھاکرے اُنہیں قبول کرلیں گے؟ تو ہمارا جواب ہوگا کہ اُن کی درخواست مسترد کرنے سے زیادہ امکان ہے درخواست کے قبول کرلئے جانے کا۔ یہ بات ہم سابقہ واقعات کی روشنی میں کررہے ہیں۔ مہاراشٹر میں یہی بات این سی پی کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی مفادات کیلئے عزت نفس کی بھی پروا نہیں کی جاتی، نظریات کا تو معاملہ ہی دوسرا ہوگیا ہے۔ اَب کوئی پارٹی نظریات کی دُہائی نہیں دے سکتی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK