Inquilab Logo

اف! یہ تیمار داریاں

Updated: July 12, 2022, 12:13 PM IST | Babu RK | Amravati

 بیمار ہو نے کی صورت میں تیماردار او ر مرجانے کے بعد عزادار لوگوں کے یہ دو گروہ ایسے ہیں جو ہمدردی و غمگساری کا پیکر ہوتے تو نہیںہیں لیکن نظر آنے کی کوشش کرتے ضرور ہیں۔ یہ بات ہمارے مشاہدہ میں آئی ہےکہ جب سے انسانی فطرت کو ایذاپسندی راس آئی ہے تب سے لوگوں نے تیمارداری میں کم اور تعزیت میں زیادہ دلچسپی دکھائی ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

بیمار ہو نے کی صورت میں تیماردار او ر مرجانے کے بعد عزادار لوگوں کے یہ دو گروہ ایسے ہیں جو ہمدردی و غمگساری کا پیکر ہوتے تو نہیںہیں لیکن نظر آنے کی کوشش کرتے ضرور ہیں۔ یہ بات ہمارے مشاہدہ میں آئی ہےکہ جب سے انسانی فطرت کو ایذاپسندی راس آئی ہے تب سے لوگوں نے تیمارداری میں کم اور تعزیت میں زیادہ دلچسپی دکھائی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تیماردار قسم کے لوگ ہوتے بڑے فعال ہیں۔ بیمار ہوتے ہی علاج معالجے اور پرہیز کے مشورے دے دے کر مریض کا جینا حرام اور مرنا آسان کردیتے ہیں ۔ تیماداروں کے اس آتنک کو دیکھنے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ مریض بیماری سے کم اور تیمارداری سے زیادہ مرنے لگے ہیں۔ بعد ازاں تیمار داری سے اوب کر جب مریض جاں بحق ہوجاتا ہے تو بعد از موت مردے کی بوسونگھتے ہوئے میت پر رونے والے آنے لگتے ہیں اور آتے ہی مردے پہ قابض ہوکر دھڑادھڑ جنت کے پروانے مردے کے ہاتھوں میں تھمائے چلے جاتے ہیں ۔ جہاں تک تیمارداروں کی تیمارداری کو ہم نے سمجھا ہے اس کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیںکہ تیمارداروں کا اکثریتی طبقہ زیادہ تر اس بات کا حامی ہوتا ہےکہ مریض زیادہ عرصے تک صاحب فراش رہے تاکہ مریض کے پاس گوشۂ علالت میں ان کی بودو باش کا سلسلہ چلتا رہے۔ یعنی بیمار کی بیماری کٹے نہ کٹے ان کا وقت کٹتا رہے ۔ 
 ایسے ہی تیمارداروں  کے زمرے میں ہمارے دوست میاں مراد من جانی کاشمار اگلی صفوں میں ہوتا ہے۔ انکا معمول ہے دن نکلتے ہی یہ مریض کی ٹوہ لینے اور مردے کی بو سونگھنےنکل جاتے ہیں ۔ ابھی کل کی بات ہے ہم گلی کے نکڑ پر آئے ہی تھے کہ سامنے سے میاں مراد آتے دکھائی دیئے ۔ ہمیں دیکھتے ہی وہ جذبۂ تیمارداری سے شرابور ہوکر بولے اجی جناب کچھ خبر بھی ہے؟ اپنے میر صاحب بسترِ مرگ پہ محو علالت ہیں۔  ایک ہوش آتا ہے ایک  جاتا ہے۔ فرشتۂ اجل آنے کو اور دم جانے کو ہے۔ تیمارداری کے اتنے سارے لوازمات ہونے کے باوجود بھی آپ کو اور کونسے حوصلہ شکن حالات درکار ہیں جو آپ مریض کو شرف عیادت سے محروم رکھے ہوئے ہیں؟ ہمیں پتہ تھا کہ تیمارداری  کے باب میں میاں مراد کی جملہ کارکردگی قابلِ اطمینان بالکل نہیں ہے۔ ہمیں یہ بھی پتہ تھا کہ یہ بیمار کو دیکھتے ہی اپنی تیمارداری کو عزاداری میں بدلنے کے درپے رہتے ہیں۔ اس لئے مزاج پرسیوں کے معاملے میں ہم انکی صحبت سے پرہیز کرتے آئے ہیں لیکن پھر بھی کبھی کبھی بدپرہیزی ہوہی جاتی ہے۔ 
  بہرکیف میر صاحب کی بیماری کے معاملے میں آج بدپرہیزی بالکل طے تھی ۔ یعنی تیمارداری کیلئے ہمیں میاں مراد کے ساتھ جائے بغیر چارہ نہیں تھالیکن ان کے ساتھ جانے میں پریشانی یہ تھی کہ جہاں ہم مریض کو شفایاب دیکھنا چاہتے ہیں وہیں یہ اسے مرحوم بنانے کی سوچتے ہیں اسلئے ہم  نے میاں مراد کو سختی سے تاکید کی کہ دیکھو ہمیں دورانِ عیادت  حیات بخش جذبات کا اظہارکرنا ہے اور ہاں ایک خاص بات یہ کہ اپنی تمام تر گفتگو میں مایوسی ،محرومی، ملال اور موت مٹی مدفن محشر ،مر قد ومزار کا کہیں ذکر نہیں آنا چا ہئے۔ ہمیں مریض سے ہمت حوصلے ، زندگی اور زندہ دلی کی بات کرنی ہے۔ اگر آپ کا شوق تیمارداری یہ سب کرنے کی اجازت  دیتا ہے تو ہم عیادت کیلئے آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں۔یہ سن کر وہ بولے ارے خانصاحب اب ہم اتنے گئے گزرے بھی نہیں ہوگئے کہ تیمارداری  کے آداب آپ سے سیکھیں ، ارے یہ تو ہماری سادہ لوحی ہے  جو بنا لاگ لپیٹ کے صاف سچی بات ہم سے کروالیتی ہے۔اب اگرکوئی ہماری اس  سادہ  لوحی کو مردم آزاریا مردہ پسندی کہتا ہے تو کہتا رہے ، پھربھی آپ کہتے ہیں تو ہم احتیاط برتیں گے۔الغرض صاحب ہم میاں مراد کے ساتھ میر صاحب کی عیادت کیلئے روانہ ہوئے۔ جیسے ہی ہم میر صاحب کی گلی میں داخل ہوئے ایک سگِ غم زدہ سے سامنا ہوا۔ وہ کان  نیچے اور منھ اوپر کئے  رونے اور آہ و زاری میں مشغول تھا۔ اسے پرسہ دینے اور سمجھانے میاں مراد آگے بڑھے ہی تھے کہ ہم نے ہاتھ پکڑ کر انھیں کھینچ لیا۔ اس موقع پر وہ بولے ارے خانصاحب  آپ اس دکھیارے کی بپتا کیا جانیں ، پتہ ہے آپ کو اس کے رونے کی حقیقت کیا ہے ؟ تو سنو.... جانوروں کوفرشتہ اجل صاف دکھائی دیتا ہے۔ آپ مانیں نہ مانیں جانوروں میں خصوصاً کتوں کو یہ شرف حاصل ہےکہ وہ مردم شناس ہی نہیں مردہ شناس بھی ہوتے ہیں ۔الغرض وہ پالتو جانوروں کے بعد پرندوں کو بھی  مرگ شناسی کی سند دینے ہی والے تھے کہ ہم نے انہیں فلسفۂ ممات کی جاں سوز کیفیات سے باہر نکالااور پھر تیز تیز قدموں سے چل کر ہم میر صاحب کے درِ علالت پہ پہنچے ہی تھے کہ ناگہاں میاں مراد کی قوت ِ شامہ دونوں ہاتھ اٹھااٹھاکر یاسیت سے بھرپور لمبی لمبی انگڑائیاں لینے لگی۔ وہ ٹھٹھک کر ناک کو قلابازیاں کھلاتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھ کر بولے... یار... یہ کافور کی بے رحم باس ابھی سے کیوں آرہی ہے؟ یہ کہتے ہوئے انھوں نے جیب سے دستی نکال کر سر پہ باندھی اور مسکین صورت بناکر چہرے پہ سوگواری کی کیفیت پوت ڈالی۔ یہ سب کرتے دیکھ کر ہم نے کہا یار تم بھی عجیب چیز ہو؟ آتے ہی مریض کی قبر کھودنے بیٹھ گئے ۔ ہماری خفگی اور ناراضگی سے ڈر کر سوری کہتے ہوئے  انھوںنے ہمارا ہاتھ دبایا اور دوبارہ ایسی غلطی نہ کرنے کا ایک مرتبہ پھر اعادہ کیا۔ خیر صاحب پھر میاں مراد کے سر سے دستی کھلواکرمنھ کو بند رکھنے کی شرط کے ساتھ ہم میر صاحب کے گھرمیں داخل ہوئے۔ہم نے انھیں سلام کیا۔ انھوں نے آنکھیں کھول کر سر کے اشارے سے وعلیکم السلام کہااور آنکھیں بند کرلیں۔ 
 تھوڑی دیر بعد علالت کے سناٹے کو توڑ کر ازراہِ مزاج پرسی ہم نے میر صاحب سے استفسار کیا کہ’’کہئے مزاج آپ کا حضرت بخیر ہے‘‘،یہ سننا تھا کہ میاں مراد ترکی بہ ترکی بولے ’’پیمانہ  بھر چکا ہے چھلکنے کی دیر ہے‘‘،ہم نے خشمگیں نگاہوں سے انھیں دیکھا تو بولے ، دیکھو خانصاحب ہم ٹھہرے سخن کے متوالے، مصرعہ آپ نے بولتا ہوا دیاہم سے برداشت نہ ہوئی ہم نے گرہ لگا دی۔ ویسے حسب وعدہ دھیان رہے گرہ میں مایوسی محرومی ماتم ملال محشر مدفن اور موت مرقد و مزار تو کیا میم کا بھی کہیں ذکر آنے دیا ہو تو بولو.... جب کہ اپنے مصرعہ میں میم سے مزاج لاکر وعدہ خلافی کے مرتکب تو آپ ہوئے ۔ خیر جانے دو شعری بات چھڑہی گئی ہے تو لگے ہاتھوں تعزیتی جلسہ کیلئے تعزیت کے دوچار دل دوز اشعار نوٹ کر واہی دو۔ دیر سویر ضرورت پڑنے ہی والی ہے۔ تھوڑی دیر بعد دلگیر لہجہ میں سینہ کوبی کرتے ہوئے بولے ہے...ہے....کیا قیامت ہے ؟ جو ہر کسی کے تعزیتی جلسہ کے لئے مجھے اشعار نوٹ کراتا تھا اب اسی کے تعزیتی جلسہ کیلئے ایک ایک سے اشعار مانگتے پھر رہا ہوں۔ ہم نے کہا میاں مراد خدا کے واسطے رحم کرو.... مانا کہ میر صاحب کے ہوش وحواس حاضر غائب رہنے لگے ہیں لیکن اگر وہ غائب رہتے رہتے حاضر ہوگئے اور انھوں نے تمہاری یہ واہی تباہی سن لی تو مصیبت ہوگی۔ وہ بولے ارے تم اطمینان رکھو انھیں اب حاضر نہیں غائب ہی سمجھو، ہم نے کہا ابھی ابھی تو انھوں نے اسی حاضری اور غیر حاضری کے دورانیہ میں ہمارے سلام کا جواب دیا  تھا۔ وہ بولے ارے خانصاحب وہ سلام کا جواب تھوڑی تھا، وہ تو چند وفقوں کیلئے موت کاسنبھا لا تھا ، خیر بات ہورہی تھی تعزیتی اشعار کی اس سلسلہ میں میں بہت دیر سے پریشان ہوں، اس شعر کا مصرعہ ثانی مجھے یاد نہیں آرہا برائے کرم خانصاحب اس کا ثانی مصرعہ بتادیجئےکہ’’موت اس کی ہے کرے جسکا زمانہ افسوس‘‘
 بہت دیر سے اس کے مصرعہ ثانی کیلئے پریشان ہوں  اور جب بہت دیر تک خانصاحب بھی مصرعہ ثانی نہ بتاپائے تو بسترِ مرگ پہ لیٹے لیٹے میر صاحب کی نحیف و لاغر آواز نے سب کو چونکا دیا۔ وہ حیرتوں کے پہاڑ توڑتے ہوئے بولے ، اب کہنے کو کچھ نہیں بچا بس مصرعہ ثانی بتانے کو حاضر ہواہوں۔خیر مصرعہ تو میں بعد میں کہوں گا پہلے میری وصیت سنواور سختی کے ساتھ اس پر عمل کرو۔ ورنہ خانصاحب یاد رکھو روزِ محشر تمہا را دامن ہوگا اور میری پکڑ، تو سنو میری وصیت ہے کہ میرے تعزیتی جلسہ میں اس (میاں مراد کی جانب اشارہ کر کے )مردود ، خبیث،ناہنجارکو ہرگز ہرگز آنے مت دینا۔مجھے خبر ہےکہ جس وقت لوگ جمع خاطر کرکے میرے شفایاب ہونے کی دعائیں مانگ رہے تھے اس وقت یہ بد بخت میرے تعزیتی جلسہ کیلئے اشعار جمع کرنے میں لگا تھا۔ خیر اس سے پہلے کہ میں غیر حاضر ہوجاؤں جس کیلئے میں حاضر ہوا تھا وہ مصرعہ ہی نہیں پورا شعر سن لو: 
موت اس کی ہے کرے جسکا زمانہ افسوس 
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کیلئے
اور پھر شعر کہنے کے بعد اب کی بارمیر صاحب کبھی نہ حاضر ہونے کیلئے غائب ہوگئے   ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK