اردوپر سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے یہ زبان جاننے والےسابق جج صاحبان اور معروف وکلاء سے گفتگو۔
EPAPER
Updated: April 21, 2025, 1:14 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai
اردوپر سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے یہ زبان جاننے والےسابق جج صاحبان اور معروف وکلاء سے گفتگو۔
اردو، صرف ایک زبان نہیں بلکہ ایک احساس ہے، ایک چلتی پھرتی تہذیب ہے جس کی سانسوں میں گنگا جمنی فضا کی مہک بسی ہوئی ہے۔ اس زبان نے نہ صرف دلوں کو جوڑا ہے بلکہ صدیوں سے مختلف مذاہب، قوموں اور ثقافتوں کو ایک چادر میں لپیٹا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اردو کو ایک مخصوص مذہب سے جوڑ کر محدود کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ایسے میں سپریم کورٹ کا حالیہ تبصرہ اردو کے حق میں ہوا کا تازہ اور بھرپور جھونکا ہےجس نے اس بات پر مہر ثبت کی کہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ عدالت عظمیٰ نے مہاراشٹر کے اکولہ ضلع میں واقع پاتور میونسپل کونسل کے اردو بورڈ پر اعتراض کرنے والی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے واضح انداز میں کہا کہ اردو ہندوستان کی سرزمین پر جنم لینے والی زبان ہے، نہ کہ کسی خاص مذہب کی جاگیر۔ یہ ایک تاریخی لمحہ تھا جب منصفوں کی زبان سے عدل کے ساتھ ساتھ شعور بھی بولا۔ یہ فیصلہ محض ایک قانونی مسئلے کا حل نہیں بلکہ ایک ثقافتی صداقت کا اعتراف تھا۔ اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھنا ایسا ہی ہے جیسے چاند کو صرف عاشقوں کا مان لینا حالانکہ وہ پوری انسانیت کا ہے۔ اردو نے میرؔ کی نازک خیالی، غالبؔ کی فکری گہرائی، اقبالؔ کی حوصلہ افزائی اور فیضؔ کی انقلابی آگ کو جنم دیا ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کی علامت ہے کہ ہندوستان کی عدالتیں صرف قانون کی پاسداری ہی نہیں کرتیں بلکہ وہ اس تہذیبی دھارے کی بھی محافظ ہیں جو ہمیں باہم جوڑتا ہے۔ جب اردو کو صرف مسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اس پوری تاریخ سے بھی انکار کیا جاتا ہے جس میں ہندو، سکھ، عیسائی، جین اور دوسرے مذاہب کے افراد نے اس زبان کو پروان چڑھایا۔ اردو اُن سب کی ہے جو دل رکھتے ہیں، جو اظہار چاہتے ہیں، جو محبت کے قائل ہیں۔ سپریم کورٹ کا تبصرہ ہمیں صرف یہ نہیں بتاتا کہ اردو کو تسلیم کیا جائے، بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ہر زبان ایک سرمایہ ہے۔ اس فیصلے سے وہ تمام دروازے کھلنے چاہئیں جو اردو کے لئے بند کردئیے گئے تھے۔ اس فیصلے میں معزز جج صاحبان نے کئی اہم تبصرے کئے جن میں ایک تبصرہ یہ بھی تھا کہ اردو عدالتی زبان بھی ہے۔ اردو کے متعدد ایسے الفاظ ہیں جو روزمرہ کی عدالتی کارروائیوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ ہم نے اردو جاننے والے کچھ وکلاء اور سابق جج صاحبان سے اس تعلق سے گفتگو کی اور جاننا چاہا کہ اردو کے وہ کون سے الفاظ ہیں جو آج بھی عدالتوں میں رائج ہیں اور سپریم کورٹ کے تبصروں پر ان کا کیا کہنا ہے ؟
سابق سیشن جج اور سینئر شاعر منظور ندیم نے فیصلہ کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ جج صاحبان نے بالکل درست کہا ہے کہ یہ کسی ایک قوم کی زبان نہیں ہے بلکہ پورے ملک کی زبان ہے۔ اسکولوں میں، عدالتوں میں، دفتری زبان میں اور روزمرہ کی گفتگو میں اردو نے جو شناخت قائم کی ہے وہ اپنی چھاپ ہمیشہ چھوڑ تی ہے۔ اردو کو اس کے ورثے اور اس کی روح کے ساتھ پہچان دی جانی چاہئے۔ عدالتی فیصلہ اور تبصروں پر یہ قطعہ ملاحظہ کریں :
تھی مدعی کی یہ عرضی کہ قید ہو اُردو
بکھرنے کا پہ اِسے اختیار بخشا ہے
ذلیل و خوار یہ ہوتی، عدالتِ عظمیٰ
پہ اِس کو تُونے یہاں اعتبار بخشا ہے
مہاراشٹر میں ویسے تو مراٹھی اور انگریزی میں اب عدالتی کارروائی ہو رہی ہے لیکن اس دوران بھی کئی ایسے الفاظ ہیں جو اردو یا فارسی کے ہیں وہ استعمال ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر’’ ضامن، ضمانت، ضمانت دار، عرضی، عرضی نویس، محرّر، منصف، وکیل، وکالت نامہ، سپرد نامہ، بخشش نامہ، چالان، دلیل، دستاویز، مجرم، ملزم ، بنام، جرح، ناظر، پروانہ، نظربند، عدالت، مال گزاری، قرارداد، داخلِ دفتر، عمرقید، مختارنامہ، رسید، پیشی اور یکطرفہ‘‘ اس فہرست میں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی دیگر الفاظ ہیں۔
جمعیۃ علماء کی قانونی امداد کمیٹی کے اہم رُکن، حقوق انسانی کے وکیل اور معروف ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے کہا کہ ’’سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا ہے وہ نظیر کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ مستقبل میں جو بھی فیصلے کسی زبان کے تعلق سے ہوں گےان میں اس فیصلہ کا حوالہ ضرور شامل ہو گا۔ جج صاحبان نے تمام اردو مخالفین کو بیک جنبش قلم جواب دے دیا ہے۔ ‘‘ ایڈوکیٹ شاہد ندیم کے مطابق جہاں تک بات ہے عدالتی نظام میں اردو کے الفاظ کی ہے تو یہ حقیقت ہے کہ مہاراشٹر میں عدالتی زبان مراٹھی ہونے کے باوجود آج بھی اردو کے الفاظ کثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پرروزنامہ، حلف نامہ، ضامن دار، ضمانت، تفتیش، تحویل، گرفتار، فرد گرفتاری، فر د برآمدگی وغیرہ، یہ الفاظ نہ صرف بولے جاتے ہیں بلکہ یہ تحریری طور پر بھی عدالتی کارروائی کا حصہ ہوتے ہیں۔ ہندی زبان بولنے والی ریاستوں میں تو اس سے زیادہ اردو اور فارسی کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں اکثر وکلاء بحث کے دوران اپنی بات میں وزن پیدا کرنےکیلئے اردو کے اشعار کا استعمال کرتے ہیں۔
اردو اور فارسی اہل زبان کی طرح بولنے میں ماہراور مرزا غالبؔ کے دلدادہ ایڈوکیٹ ستیہ نارائن ہیگڑے نے اپنے ردعمل میں کہاکہ ’’عدالت عظمیٰ نے بالکل درست کہا ہے کہ اردو کسی ایک طبقہ کی یا مذہب کی زبان نہیں ہے بلکہ کوئی بھی زبان کسی ایک مذہب کی نہیں ہو سکتی۔ زبان تو اس کے بولنے والوں کی ہوتی ہے۔ ہمیں عدالت کی اس خدالگتی کا خیرمقدم کرنا چاہئے اور اس میں چھپے مضمرات پر غور کرنا چاہئے کہ آخر اتنی شائستہ زبان کو مذہب کے خانوں میں بانٹنے کی کوشش کیوں ہو رہی ہے اور اس کا سد باب کیا ہو سکتا ہے۔ ‘‘ایڈوکیٹ ہیگڑے کے مطابق سپریم کورٹ نے راہ دکھادی ہے کہ ہم امن، وحدت اور محبت کے راستے پر چلیں اور تفریق کی سیاست میں نہ پڑتے ہوئے اگرصرف اردو کو فروغ دینے کی کوشش کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ سیاست کے سبب دلوں میں آئی نفرت ختم ہو جائے گی۔
سینئر وکیل ایڈوکیٹ لودھی نیاز احمد امین عشرت نےکہا کہ ’’عدالت نے جو فیصلہ سنایا ہے وہ بالکل درست اور حق بجانب ہے۔ اردو کسی ایک مذہب کی زبان قطعی نہیں ہے۔ یہ عدالت کی بھی زبان رہی ہے۔ ماضی میں تو عدالتی کی تمام کارروائیاں اردو میں ہی ہوتی تھیں۔ اگر آپ نے پرانی فلموں میں عدالتی مناظر دیکھے ہوں گے تو آپ کو یاد ہو گا کہ ان میں عدالت کی کارروائی کے دوران ایک ایک لفظ اردو ہی ہوتا تھا بلکہ اسے ہم فارسی آمیز اردو کہہ سکتے ہیں۔ ‘‘