• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

جیتے گا ’’انڈیا‘‘ اگر کمر کس لے!

Updated: December 27, 2023, 1:13 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

پانچ میں سے تین ریاستوں میں، جو سیاسی اعتبار سے کافی اہم ہیں، انتخابی کامیابی حاصل کرلینے کے بعد مرکز کی حکمراں جماعت پہلے سے زیادہ پُرجوش ہوگئی ہے۔

Opposition Parties "India" .Photo: INN
اپوزیشن جماعتیں "انڈیا" ۔ تصویر : آئی این این

پانچ میں سے تین ریاستوں میں، جو سیاسی اعتبار سے کافی اہم ہیں، انتخابی کامیابی حاصل کرلینے کے بعد مرکز کی حکمراں جماعت پہلے سے زیادہ پُرجوش ہوگئی ہے۔ آئندہ ماہ ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح ہونا ہے۔ اس کے لئے یہ ’’سنہرا‘‘ موقع ہے اپنے انداز کی سیاست کو فروغ دینے اور لوک سبھا انتخابات کیلئے ماحول بنانے کا۔ ایسے میں اپوزیشن کی اُن تمام پارٹیوں کو جو ’’انڈیا‘‘ نامی اتحاد کا حصہ ہیں اور جن کی مجموعی تعداد اٹھائیس ہے، اپنی حکمت عملی کو جلد سے جلد حتمی شکل دینے، نشستوں کی تقسیم سے متعلق اہم مذاکرات کو نتیجہ خیز مرحلہ تک لے آنے اور زوروشور سے انتخابی تیاری میں مصروف ہوجانے کے علاوہ کوئی اور متبادل نہیں ہے۔ 
 ہم نہیں جانتے کہ اس اتحاد نے اب تک کتنا کام کرلیا ہے مگر اس کے خلاف منفی تشہیر بڑے پیمانے پر جاری ہوگئی ہے۔ اکثر ایسی خبریں منظر عام پر آرہی ہیں جن میں اختلافات کی بابت بتایا جارہا ہے۔ ان خبروں پر یقین کریں تو یہ بھی مان لینا پڑے گا کہ اب تک نتیش کمار کئی بار ناراض ہوچکے ہیں۔ تازہ خبر یہ ہے کہ جے ڈی یو کے صدر للن سنگھ پارٹی کی صدارت سے استعفےٰ دیں گے۔ ہمارا کہنا ہے کہ ایسی خبریں اُس وقت تک رُک نہیں سکتیں جب تک ’’انڈیا‘‘ اتحاد اپنی تیاریاں مکمل کرکے اُن پر سے پردہ نہیں ہٹا دیتا۔ اس اتحاد کے پاس وسائل کی شدید کمی ہے، اس کی بعض پارٹیوں کا کیڈر مضبوط نہیں ہے، ان میں سے ہر ایک کے پاس بوتھ مینجمنٹ کی صلاحیت نہیں ہے، میڈیا ان کے ساتھ نہیں ہے اور ان کے پاس سوشل میڈیا سے فائدہ اُٹھانے کی مہارت بھی کم ہے۔ اتنی خامیوں پر ایک خوبی بھاری پڑسکتی ہے وہ ہے اٹھائیس پارٹیوں کااتحاد جس کی متحدہ سیاسی طاقت بی جے پی کی سیاسی طاقت سے زیادہ ہے۔ جس دن یہ اتحاد این ڈی اے کو ٹکر دیتا ہوا دکھائی دے گا، دیگر پارٹیاں بھی اس کے پرچم تلے یکجا ہوں گی کیونکہ دورِ حاضر میں جیتنے یا ٹکرانے کی صلاحیت رکھنے والی پارٹی کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ 
 اب تک انڈیا کا حصہ نہ بننے والی پارٹیوں میں بی ایس پی بھی ہے جس کے اندر سے بڑی دانشمندانہ آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ بی ایس پی صرف جاٹو ووٹوں کی بنیاد پر قابل قدر تعداد میں نشستیں حاصل نہیں کرسکتی۔ اُسے  دیگر طبقات کا تعاون حاصل کرنے یا غیر جاٹو ووٹوں کو ملتفت کرنے کیلئے انڈیا اتحاد میں شامل ہونا چاہئے۔ یہ آوازیں اس حقیقت کے باوجود اُٹھ رہی ہیں کہ بی ایس پی کی چیف دوٹوک انداز میں واضح کرچکی ہیں کہ وہ کسی بھی اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہتیں۔ بی ایس پی کے حلقوں کی جانب سے متذکرہ مطالبہ انڈیا اتحاد کی اہمیت کو اُجاگر کرتا ہے۔ ایسی اور بھی پارٹیاں انڈیا میں دلچسپی لے سکتی ہیں جن کی وجہ سے اس سیکولر اتحاد کو زیادہ مضبوطی حاصل ہوگی۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ یہ بی جے پی سے جوش و خروش کے ساتھ لڑتا، مقابلہ کرتا اور محدود وسائل کے باوجود بی جے پی کے غیر محدود وسائل کو چیلنج کرتا ہوا نظر آئے۔ ’’ہوا بنانا‘‘ مشکل بھی ہے آسان بھی۔ کرناٹک میں کانگریس نے ہوا بنائی اور اُس پارٹی کو زیر کیا جو ماحول سازی اور سیاسی بیانیہ کی ماہر مانی جاتی ہے۔ ایسا دیگر ریاستوں میں بھی ہوسکتا ہے بشرطیکہ لڑکر جیتنے کی وہ خصوصیت پیدا کی جائے جسے  کِلر انسٹنکٹ کہا جاتا ہے۔ ۲۰۱۹ء میں ان پارٹیوں میں یہ خصوصیت کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ اِس بار سب اکٹھا ہیں تو اکٹھی طاقت بھی منظر عام پر آنی چاہئے، ایسا ہوا تو پانسہ پلٹ جائیگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK