Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

اپوزیشن کا اتحاد رنگ لایا، دھننجے منڈے کو بالآخر استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا

Updated: March 09, 2025, 1:38 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

اگر اجیت پوار اپنے وزیر کے استعفیٰ کیلئے تیار نہیں ہوتے تب بھی دھننجے کو ہاتھ پکڑ کر باہر کا راستہ دکھایا جاسکتا تھا۔

The opposition also put a lot of pressure on Dhananjay Munde to resign in the Santosh Deshmukh murder case. Photo: INN.
سنتوش دیشمکھ قتل معاملے میں دھننجے منڈے پر استعفیٰ کا دباؤ اپوزیشن نےبھی خوب بنایا تھا۔ تصویر: آئی این این۔

بی جے پی نے اجیت پوار کے تعاون سےاین سی پی کو تقسیم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اب اس سلسلے کو دراز کرتے ہوئے وہ اجیت پوار کی این سی پی کا وجود مٹانے کی کوشش کررہی ہے۔ دھننجے منڈے کا استعفیٰ اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ یہ کوئی حتمی فہرست نہیں ہے بلکہ اگلا نمبر مانک راؤ کوکاٹے کا ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد ایکناتھ شندے کے کچھ وزراء کے معاملات سامنے آئیں تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ اب بات دھننجے منڈے کے استعفےکی۔ ان کا وزارت سےاستعفیٰ دینا پتھر پر کھینچی ہوئی لکیر کے مانند طے تھا، بس وزیر اعلیٰ فرنویس کو صحیح وقت کی تلاش تھی۔ اگر اجیت پوار اپنے وزیر کے استعفیٰ کیلئے تیار نہیں ہوتے تب بھی دھننجے کو ہاتھ پکڑ کر باہر کا راستہ دکھایا جاسکتا تھا۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ دھننجے منڈے کے’ اخلاقیات‘ کی بنیاد پر استعفیٰ دینے کے بیان پر غیر اُردو اخبارات نے کیا کچھ لکھا ہے۔ 
یہ ’راضی نامہ‘ نہیں ’ناراضگی نامہ‘ ہے
مراٹھی اخبار `پربھات ` نے ۶؍ مارچ کے اداریے میں لکھا ہے کہ’’ وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس کی قیادت والی مخلوط حکومت میں شامل وزراء میں سے ایک دھننجے منڈے نے بالآخر استعفیٰ دے کر اس سوال خاتمہ کردیا جو گزشتہ کئی دنوں سے سرخیوں میں تھالیکن اس کے ساتھ ہی اور بھی بہت سے سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔ اگرچہ دھننجے منڈے نے تقریباً ۳ ماہ سے مسلسل کئے جا رہے مطالبے اور کچھ سماجی تنظیموں کے احتجاج کے بعد’راضی نامہ‘دیا لیکن اسے’ناراضگی نامہ‘ ہی سمجھا جائےگا۔ ہندوستانی یا مہاراشٹر کی سیاست میں جب بھی کوئی لیڈر استعفیٰ دیتا ہے تو یہ مخلصانہ عمل نہیں ہوتا بلکہ کئی بار اعلیٰ سطحی دباؤ یا دیگر وجوہات کی وجہ سے اس شخص کو استعفیٰ دینا پڑتا ہے۔ دھننجے منڈے کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ دو روز قبل جب دیشمکھ قتل کی لرزہ خیز تصاویر وائرل ہوئیں تو معاملے کی سنگینی کھل کر سامنے آئی جس کے بعد دھننجے کی سمجھ میں آگیا کہ اب استعفیٰ دینے میں زیادہ تاخیر کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ دھننجے جس پارٹی کی نمائندگی کرتے ہیں اس کے چیف اجیت پوار نے پہلے ہی اشارہ دیا تھا کہ ان کو استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ اجیت پوار نے یہ بھی یاد دلایا کہ جب مجھ سے نا دانستہ طور پر غلطی سرزد ہوئی تھی تو میں نے اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس کے باوجود دھننجے نے استعفیٰ دینے میں کافی تاخیر کی۔ دیشمکھ قتل معاملے میں والمیک کراڈ ہی کلیدی ملزم اور ماسٹر مائنڈ ہے اور وہ منڈے کے دست راز سمجھے جاتے ہیں، اسلئے دھننجے کیلئے یہ کہنا مشکل ہوگیا تھا کہ ان کا اس قتل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ‘‘
سیاسی دہشت گردی سے نجات ملنی چاہئے
ہندی اخبار ’نوبھارت‘ اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ’’بالآخر دھننجے منڈے کو مہاراشٹر کی کابینہ سے باہر کا راستہ دکھا ہی دیا گیا۔ اسمبلی اجلاس کے دوران وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس نے یہ اعلان کرتے ہوئے اہم پیغام دیا کہ اگر منڈے نے استعفیٰ نہیں دیا تو سخت کارروائی کی جائے گی۔ بیڑ ضلع کے سر پنچ کا بے رحمی سے قتل کیا گیا۔ اس کے پیش نظر اور والمیک کراڈ کا نام سامنے آنے کے بعد منڈے کو پہلے ہی یہ قدم اٹھا لینا چاہئے تھا۔ اگر کوئی لیڈر یہ سمجھتا ہے کہ اقتدار کی آڑ میں وہ جیسی چاہے، من مانی کرسکتا ہے، اس کا کچھ نہیں بگڑے گا تو اُس کو اپنی غلط فہمی کو فوراً دور کرلینی چاہئے۔ مہاراشٹر کے کئی شہروں اور دیہاتوں میں سیاسی دہشت گردی جاری ہے۔ ریاست کو اس سے نجات دلانے کی سخت ضرورت ہے۔ مساجوگ گاؤں کے سرپنچ سنتوش دیشمکھ کا انتہائی وحشیانہ طریقے سے قتل ہفتہ وصولی کے خلاف احتجاج کرنے کی وجہ سے ہوا۔ معاشی اور صنعتی ترقی کا دعویٰ کرنے والی سرکار کو یہ مسئلہ حل کرنا ہوگا۔ شرپسند عناصر دہشت پھیلا کر ہفتہ وصولی کرتے ہیں اور گرام پنچایت رکن سے لے کر ایم ایل اے اورایم پی تک انہیں سیاسی پناہ دیتے ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں سے بیڑ ضلع میں غیر قانونی ہفتہ وصولی کا کاروبار عروج پر ہے۔ وہاں کراڈ گینگ نے اپنی جڑیں کافی مضبوط کرلی ہیں۔ پرلی تھرمل پاور ہاؤس کی راکھ کی تجارت کے علاوہ ہر چھوٹی بڑی صنعتی اکائی سے ہفتہ وصول کیا جاتا ہے اور روکنے والوں کوقتل کردیا جاتا ہے۔ مہاراشٹر میں ہفتہ خوری کی وبا عام ہوتی جارہی ہے۔ ‘‘
بالآخر وہ استعفیٰ مل گیا جس کا انتظار تھا
مراٹھی اخبار ’نوشکتی‘ نے اداریہ لکھا ہے کہ’’تقریباً ۸۴؍ دن سے ریاست کے عوام جس استعفیٰ کا انتظار کررہے تھے، بالآخر وہ استعفیٰ مل گیا۔ وزیر خوراک دھننجے منڈے کو جس وجہ سے اپنا استعفیٰ دینا پڑا وہ مہاراشٹر کی سیاست کا سیاہ باب کہلائے گا۔ اگرچہ انہوں نے طبی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئےاستعفیٰ دیا ہے لیکن اصل وجہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ دھننجےکا دایاں ہاتھ کہلانے والے والمیک کراڈ نےسرپنچ دیشمکھ کا انتہائی بے رحمی سے قتل کیا۔ اس وحشیانہ قتل سے عوام نے محسوس کیا کہ ریاست کی سیاست کس قدر نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ پچھلے دنوں سرپنچ کے قتل کی جو تصویریں منظر عام پر آئیں اسے دیکھ کر جنگلی درندے بھی شرما جائیں گے۔ بلاشبہ یہ تصویریں قتل کے چند دنوں بعد ہی پولیس کے ہاتھوں لگیں۔ 
حیرانی کی بات یہ ہے کہ تصاویر کو دیکھ کر پارٹی نے اُسی وقت دھننجے منڈے کا استعفیٰ کیوں نہیں لیا۔  سیاسی آشیرواد ` کے زعم میں معمولی غنڈے بڑی بڑی وارداتوں کو انجام دینے لگے ہیں۔ جب کارکنان کو یقین ہوجائے کہ ان کے سرپر لیڈر کا ہاتھ ہے تب ہی وہ ایسی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کی ذمہ داری پارٹی اعلیٰ کمان پر عائد ہوتی ہے۔ دیشمکھ کے قتل کے بعد ہی دھننجے نے وزیر کا حلف لیا۔ قتل کس نے کیا اور قاستلوں کا آقا کون ہے؟ کیا وزیر اعلیٰ کو یہ معلوم نہیں تھا۔ 
استعفیٰ پر عوام کا دباؤ رنگ لایا
انگریزی اخبار ’دی انڈین ایکسپریس‘لکھتا ہے کہ ’’پچھلے ماہ ایک پروگرام میں وزیر اعلیٰ فرنویس نے بدعنوانی پر اپنی حکومت کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ `میں یہ نہیں کہتا کہ سیاسی ہفتہ وصولی بڑے پیمانے پر ہورہی ہے لیکن جہاں بھی ایسا ہورہا ہے اس کے خلاف سختی سے نمٹا جائے گا۔ بجٹ اجلاس کے آغاز میں وزیر دھننجے منڈے نے اپنا استعفیٰ دے دیا ہے۔ سرپنچ سنتوش دیشمکھ کو محض اسلئے بے رحمی سے قتل کردیا گیا کیونکہ وہ ہفتہ وصولی کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ دھننجے منڈے کا قریبی ساتھی والمیک کراڈ اس کیس کا کلیدی ملزم ہے، اسلئے اُن پر استعفیٰ کا دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ ایک ایسی حکومت کیلئے جو نومبر میں واضح اکثریت اور عوام کو درپیش مسائل سے نمٹنے کی یقین دہانیوں کے ساتھ برسراقتدار آئی تھی، افسوس کہ اس کے راج میں بے روزگاری، بدعنوانی، امن وامان کے مسائل اور خواتین کی حفاظت جیسے مسائل پریشان کن ثابت ہورہے ہیں۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK