• Sun, 22 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

شمالی ہند میں آبادی کم کرنے تو جنوبی ہند میں اضافے پر زور دیا جارہا ہے

Updated: October 27, 2024, 3:06 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو نے آبادی میں توازن قائم رکھنے کیلئے کم از کم ۲؍ بچے پیدا کرنے کا مشورہ دیاجبکہ تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے ۱۶؍ بچے پیدا کرنے کی صلاح دے ڈالی۔

Chandrababu Naidu. Photo: INN.
چندرابابونائیڈ و نے۔ تصویر: آئی این این۔

وطن عزیز میں بڑھتی آبادی کو ایک سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کی روک تھام کیلئے مختلف تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں تیزی سے بڑھتی آبادی کی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہیں اوروسائل میں کمی آرہی ہے۔ دریں اثناء جنوبی ہند کے دو وزرائے اعلیٰ نے اپنے شہریوں سے شرح پیدائش میں اضافہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو نے آبادی میں توازن قائم رکھنے کیلئے کم از کم ۲؍ بچے پیدا کرنے کا مشورہ دیاجبکہ تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے ۱۶؍ بچے پیدا کرنے کی صلاح دے ڈالی۔ 
یہ ایک حقیقت پسندانہ منطق ہے
مراٹھی اخبار’لوک مت‘نے۲۳؍ اکتوبر کے اداریے میں لکھا ہے کہ ’’ہندوستان پچھلے سال اپریل میں آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پہلے نمبر کا ملک بن گیا تھا۔ کئی برسوں سے چین پہلے نمبر پر تھا۔ اس ملک نے ایک بڑی مہم چلا کر آبادی کم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ ہندوستان میں بھی آبادی کو کم کرنے کی کوشش کی گئی، خواندگی میں اضافہ ہونے سے تعلیم یافتہ طبقے کی تعداد بڑھی۔ اس کے باوجود دنیا کی کل آبادی کا ۱۷؍ فیصدحصہ ہندوستان میں آباد ہیں۔ دو دن پہلے آندھراکے وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو نے ۲؍ سے زائد بچوں کو پیدا کرنے کی اپیل کی تھی۔ اس پر مختلف حلقوں نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ اب تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ اسٹالن نے ایک شادی کی تقریب میں کہا کہ ہمارے نوجوانوں کو بچے پیدا کرنے چاہئے۔ اگرچہ ہندوستان کی شرح پیدائش میں کمی آئی ہے جو جنوبی ریاستوں میں مزید کم ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ اگر شرح پیدائش کی رفتار یہی رہی تو جنوبی ریاستوں کا سیاسی جغرافیہ بدل جائے گا۔ یہ ایک حقیقت پسندانہ منطق ہے۔ اس موقع پر انہوں نے آندھرا پردیش کے ایک گاؤں کی مثال دی کہ وہاں صرف ضعیف العمر افراد بستے ہیں۔ مہاراشٹر کے کوکن کے اضلاع میں آبادی نسبتاً کم ہے۔ بے شمار گھروں میں رہنے والا کوئی نہیں ہے۔ یہاں بھی نوجوان کم اور بوڑھے زیادہ ہیں۔ چونکہ یہاں روزگار کے ذرائع محدود ہیں، اسلئے لوگ ممبئی کا رخ کرتے ہیں۔ اسٹالن کہتے ہیں کہ جنوب میں شرح پیدائش قومی شرح پیدائش سے کم ہے۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ ترقی کے نام پر انسان کی بنیادی ضروریات اور حقوق کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اس سے نئی نسل متاثر ہورہی ہے۔ ‘‘
یہ ترغیب مناسب نہیں ہے
انگریزی اخبار’ہندوستان ٹائمز‘ اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ ’’جنوبی ہند کے۲؍ وزرائے اعلیٰ آندھرا پردیش کے چندر بابو نائیڈو اور تمل ناڈو کے ایم کے اسٹالن نے اپنے عوام کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی تلقین کی ہے۔ پہلے وزیر اعلیٰ کی تشویش کا تعلق ریاست کی کم ہوتی آبادی ہے جبکہ دوسرے وزیر اعلیٰ کی تشویش سیاسی نابرابری ہے۔ جنوبی ریاستوں میں شرح پیدائش بیشتر شمالی ریاستوں کے مقابلے میں کم ہےلیکن یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ مجموعی طور پر پورے ملک کی شرح پیدائش گر رہی ہے۔ اسٹالن جیسےلیڈروں کے ذہنوں میں پارلیمنٹ میں نمائندگی سکڑ جانے کا خوف ہے۔ جب حلقہ بندی کی جاتی ہے تو اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ہر پارلیمانی حلقہ کی طاقت تقریباً برابر رہے۔ جنوبی ریاستوں نے آبادی پر قابو پانے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایسے میں توقع ہے کہ نئی حد بندی میں شمالی ہند کی ریاستوں کے مقابلے میں جنوبی ہند کی سیٹیں کم ہوجائیں گی لہٰذا سیاسی اثر رسوخ میں کمی پر تشویش قابل فہم ہےلیکن زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دینا مناسب نہیں ہے۔ نائیڈو نے یہاں تک کہہ دیا کہ دو یا دو سے کم والے بچوں کو بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا جانا چاہئے۔ ‘‘
نائیڈو ہی ہمیشہ اقتدار میں رہنے والے نہیں ہیں 
مراٹھی اخبار’سکال‘ نے اداریہ لکھا ہے کہ’’لوک سبھا انتخابات کے بعد آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو کی قدر بڑھ گئی ہے اب انہیں خبروں میں رہنے کیلئے سنسنی خیز بیانات دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت کافی دھچکا لگا جب اعلیٰ عہدے پر فائز چندرا بابو نائیڈو نے لوگوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی اپیل کی۔ حالیہ دنوں میں حساس معاملوں میں حکمراں تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں کہ ان کا موقف کیا ہونا چاہئے۔ چندرا بابو نائیڈو سمجھ رہے کہ مستقبل میں صوبے کی آبادی میں توازن قائم رکھنے کی ذمہ داری صرف انہی کی ہے اور وہی ہمیشہ اقتدار میں رہنے والے ہیں۔ انہوں نےکہا کہ’ میں بھی آبادی پر کنٹرول کا حامی تھا، اس کیلئے کوششیں بھی کیں۔ میری اپیل پر لوگوں نے عمل کرکے آبادی کو قابو میں لایا مگر اب ایسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ کئی دیہاتوں میں صرف معمر افراد ہی رہ گئے ہیں۔ نوجوان کم ہوجائیں گے تو ریاست پیچھے ہوجائے گی۔ بزرگوں کی خدمت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ ‘ اگر یہ بیان محض توجہ مبذول کرنے یا تشہیر حاصل کرنے کیلئے دیا گیا ہوتا تو اسے نظر انداز کیا جاسکتا تھالیکن آبادی سے متعلق چندرا بابو نائیڈو کی’ آزادانہ سوچ‘ یہیں تک محدود نہیں تھی بلکہ انہوں نے اعلان کیا کہ ہم جلد ہی ایک بل متعارف کروانے جارہے ہیں جس کے تحت جن کے دو سے زیادہ بچے ہیں وہی اب بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نائیڈو جیسے لیڈران لوگوں کو ورغلا رہے ہیں۔ ان کی اپیل پر دو سے زائد بچے پیدا کرنے والے خاندانوں کی کفالت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری کیا سرکار اٹھائے گی؟‘‘
آبادی بھانا مسئلے کاحل نہیں ہے
ہندی اخبار’نوبھارت‘ نے ۲۳؍ اکتوبر کے اداریے میں لکھا ہے کہ ’’جنوبی ہند کے لیڈروں کو خدشہ ہے کہ ۲۰۴۷ء تک ان کی ریاستوں کی آبادی مزید کم ہوجائے گی جس کی وجہ سے زیادہ آبادی والی شمالی ہند کی ریاستوں کی سیاسی اہمیت بڑھ جائے گی۔ حد بندی میں شمالی ہند کی لوک سبھا کی سیٹیں بڑھ جائیں گی اور جنوبی ہند کی ریاستیں نقصان میں رہیں گی۔ یہ لیڈران بھول رہے ہیں کہ کم آبادی بہتر معیار زندگی کیلئے اچھی ہے۔ 
بڑھتی ہوئی آبادی غربت، بھوک، بے روزگاری اور جرائم کی جڑ ہے۔ لیڈران کو ان مسائل سے نہیں بلکہ اپنی سیاست سے سروکار ہے۔ آندھرا کے وزیر اعلیٰ نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ وہ زیادہ بچوں کو جنم دیں بصورت دیگر ریاست میں صرف بوڑھے ہی رہ جائیں گے۔ ہم ایسا قانون بنانے جارہے ہیں کہ صرف وہی لوگ بلدیاتی الیکشن لڑسکیں جن کے دو سے زائد بچے ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو نے تو پھر بھی اپنی بات شائستگی سے رکھی مگر تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ نے اجتماعی شادی کی تقریب میں کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ نئے شادی شدہ جوڑے ۱۶؍ قسم کی جائیداد کی خواہش کے بجائے ۱۶؍ بچے پیدا کریں۔ انہوں نے دولت کی ۱۶؍ اقسام کی مثال دی جس کا تذکرہ تمل مصنف وشواناتھن نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ مصنف نے گھر، بیوی، گائے، اولاد، تعلیم، نظم وضبط، زمین، پانی، گاڑی، سونا اورفصل وغیرہ کو ۱۶؍ اثاثہ بتایا ہے، اسٹالن نے اسے ۱۶؍ بچوں سے جوڑ دیا۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK