عظیم ادبی نظریہ ساز اور نقاد ایڈورڈ سعید کی شاہکار تحقیق’ اورینٹلِزم‘ کا ایک جائزہ جس میں بتایا گیا ہے کہ ’مستشرقین‘ نے یورپی عوام کو مشرقی ملکوں کی جو تصویر دکھائی اس میں مغرب نے مشرق پر اپنی بالادستی اور تسلط کا جواز بخشنے کی کوشش کی ہے
EPAPER
Updated: April 06, 2025, 12:08 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai
عظیم ادبی نظریہ ساز اور نقاد ایڈورڈ سعید کی شاہکار تحقیق’ اورینٹلِزم‘ کا ایک جائزہ جس میں بتایا گیا ہے کہ ’مستشرقین‘ نے یورپی عوام کو مشرقی ملکوں کی جو تصویر دکھائی اس میں مغرب نے مشرق پر اپنی بالادستی اور تسلط کا جواز بخشنے کی کوشش کی ہے
ایڈورڈ سعید (۲۰۰۳۔ ۱۹۳۵ء ) کا شمار دنیا کے اعلیٰ ترین ادبی نظریہ سازوں میں ہوتا ہے۔ عظیم ثقافتی نقّاد اور جید دانشور تھے۔ ان کی معرکۃ الآرا کتاب ’اورینٹلِزم‘ یعنی شرق شناسی، ۱۹۷۸ ءمیں منظرعام پر آئی۔ اس نے اپنے زمانے میں سماجی علوم کے ہر استاذ، محقق، ادیب، مترجم، ناقد اور صحافی کو چونکا دیا تھا۔ اس کتاب کی اشاعت کے ۴۷؍ برسوں بعد بھی اس کی مانگ کم نہیں ہوتی۔ مشرق و مغرب کے پیچیدہ تعلقات کے موضوع پر کوئی سنجیدہ بحث ’اورینٹلزم‘ سے اعراض کرکے نہیں کی جاسکتی۔
سعیدیروشلم میں پیدا ہوئے۔ فلسطین و مصر میں پرورش پائی، بعد ازاں امریکہ منتقل ہو گئے، جہاں وہ مابعد نوآبادیاتی Postcolonial مطالعات، ادبی تنقید اور ثقافتی مطالعات کے میدان میں ایک ممتاز محقق کے طور پر ابھرے۔ سعید کولمبیا یونیورسٹی میں انگریزی اور تقابلی ادب کے پروفیسر رہے۔ اپنے علمی سفر کے دوران، سعید مغربی استعماریت اور نوآبادیاتی سوچ کے سخت ناقد رہے۔ وہ فلسطینی حقوق کے بھی پُرزور حامی تھے۔ انہوں نے بے شمار کتب و مقالات تحریر کئے۔ ان کا اثر آج بھی مختلف علمی شعبوں پر گہرا ہے۔ سعید کی علمی و فکری میراث ان کے اس عزم کی آئینہ دار ہے کہ غالب بیانیوں کو چیلنج کیا جائے اور دنیا کے مسائل کو زیادہ باریک بینی اور گہرائی کے ساتھ سمجھا جائے۔
کئی صدیوں قبل مغربی قوموں جیسے انگلستان، پرتگال، فرانس اور ہالینڈ وغیرہ نے مشرقی اقوام پر دھاوا بولا اور اپنی نو آبادیات قائم کیں۔ مشرق وسطیٰ، افریقہ اور ایشیائی ملکوں کے مناظر اور طرز زندگی کے احوال انھوں نے اپنی کتابوں میں، اپنے ریکارڈ اور بیانیوں میں پیش کئے۔ اسی کو اورینٹلِزم یا شرق شناسی کہا گیا۔ یعنی مشرقی اقوام کے تہذیب و تمدن کا بیان۔ اردو کتابوں میں آپ نے لفظ ’مستشرقین‘ پڑھا ہوگا۔ یہ وہ لکھنے والے تھے جنھوں نے یورپی عوام کو مشرقی ملکوں کی تصویر دکھائی۔ سرسری طور پر یوں تو شرق شناسی ایک خالص علمی و ادبی روایت نظر آتی ہے لیکن ایڈورڈ سعید کے نزدیک اورینٹلسٹ نقطۂ نظر محض ایک علمی یا فنی رویہ نہیں بلکہ ایک سیاسی ہتھیار تھا، جس کے ذریعے مغرب نے مشرق پر اپنی بالادستی اور تسلط کو جواز بخشا لہٰذا اورینٹلِزم ایک خاص سوچ، علم اور تحقیق کا وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے مغربی دنیا نے مشرق کو ہمیشہ ایک غیر ترقی یافتہ، پراسرار اور جمود کا شکار خطہ بنا کر پیش کیا۔
سعید فرانسیسی اور برطانوی مفکرین کے کاموں کا تجزیہ کرتے ہوئے اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ مغرب نے مشرق کی اپنی ایک Stereotypical یعنی تصوراتی تصویر بنائی، جو حقیقت سے بہت مختلف تھی۔ اس طرزِ فکر نے مغربی عوام کے ذہنوں میں مشرق کے متعلق گمراہ کن خیالات بٹھائے، جو بالآخر طاقت کے غیرمتوازن تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا ذریعہ بنے۔
جب سترہویں صدی میں مغربی طاقتوں کا عروج ہوا تو یورپ میں یہ نظریہ مقبول ہوگیا کہ مشرق ایک غیر مہذب اور عجیب و غریب دنیا ہے، جسے مہذب بنانے کیلئے مغربی مداخلت ضروری ہے۔ اس طرح، اورینٹلِزم دراصل نوآبادیاتی Colonialحکمت عملی کی ایک فکری بنیاد بن گیا۔ ۱۷۹۸ءمیں نیپولین کے مصر پر حملے کے بعد، اورینٹلِزم ایک جدید شکل اختیار کر گیا۔ اس وقت فرانسیسی فوجی دستوں کے ہمراہ تقریباً ۱۶۰؍ مستشرقین Orientalists کو بھیجا گیا جن میں محققین، نقشہ ساز اور ماہرینِ لسانیات بھی شامل تھے۔ مغربی مصنفین، مورخین اور ماہرین بشریات Anthropologistsنے مشرق کی ایک غیرحقیقی تصویر پیش کی، جہاں وہ ہمیشہ ایک غیر ترقی یافتہ، جامد اور غیر منطقی خطہ دکھایا گیا جبکہ مغرب کو عقلیت، ترقی اور جدیدیت کا گہوارہ بتایا۔ اس دور کے ایک عرب مؤرخ عبدالرحمان الجبرتی نے نیپولین کی مداخلت کو محض ایک فوجی حملہ نہیں بلکہ علمی فتح بھی قرار دیا۔ یورپ میں مستشرقین نے اسلام اور مشرق کو ہمیشہ عیسائیت کے مقابلے میں پیش کیا جیسے صلیبی جنگوں کے دور میں کیا جاتا تھا۔ ایڈورڈ سعید کے مطابق، یورپی مستشرقین نے اسلام کو اکثر ایک مخالف تہذیب کے طور پر پیش کیا اور پیغمبرِ اسلامؐ کو تنقید کا نشانہ بنایا تاکہ اسلامی معاشرت کو غیرمتمدن اور پسماندہ ثابت کیا جا سکے۔ وہ قرونِ وسطیٰ سے جدید دور تک مغربی مصنفین مثلاً پیٹر دی وینیریبل، جان آف سیگویا سے لیکر ولیم میور اور ارنیسٹ رینان کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔ مشرق کے ادراک کے ضمن میں ایڈورڈ سعید نے بیان کیا ہے کہ سترہویں صدی تک اسلام کی نمائندگی بنیادی طور پر مغرب کی بےخبری اور جہالت کا نمونہ ہے۔
اسی طرح، برطانوی راج کے دوران ہندوستان میں تیار کئے گئے قوانین اور پالیسیوں پر بھی اورینٹلزم کا گہرا اثر تھا۔ ایڈورڈ سعید نے انیسویں صدی کے اورینٹلسٹ جیسے ولیم جونز، جیمز مل وغیرہ کا ذکر کیا، جنہوں نے ہندوستانی ثقافت، مذہب اور معاشرت کا مطالعہ کیا۔ ولیم جونز نے سنسکرت زبان پر کام کیا۔ اس نے ہندوستانی قانونی نظام پر بھی تحقیق کی۔ چارلس ولکنز نے منو سمرتی اوربھگوت گیتا کا ترجمہ کیا۔ استعمار نے جیمس مِل سے اپنے نظریہ کے مطابق تاریخِ ہند مرتب کروائی۔ لارڈ میکالے نے ۱۸۳۵ء میں ہندوستان میں انگریزی تعلیم متعارف کروانے کا منصوبہ بنایا۔ اس نے ہندوستانی زبانوں اور روایتی تعلیم کو غیرمفید قرار دیا اور انگریزی نظامِ تعلیم کو فروغ دیا تاکہ مغربی خیالات کو عام کیا جا سکے۔
یہ وہ سوچ تھی جس نے دو مختلف رویوں کو جنم دیا: ایک طرف وہ لوگ جو مشرق کو’کمزور‘ سمجھ کر اسے مغربی مدد کا محتاج سمجھتے تھے۔ دوسری طرف وہ لوگ جو مشرق کو وحشی‘ اور ناقابلِ اصلاح سمجھ کر اس پر سخت تنقید کرتے تھے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد اورینٹلِزم کو ایک بڑا چیلنج درپیش ہواکیونکہ نوآبادیاتی نظام زوال پذیر ہوا اور دنیا میں نئے خودمختار ممالک وجود میں آئے۔ لیکن اس کے باوجود، مغربی دنیا میں مشرق کے خلاف دقیانوسی خیالات برقرار رہے۔ ۱۹۴۷ء میں شائع ہونے والی کتاب ماڈرن ٹرینڈس اِن اسلام میں مصنف ایچ اے آر گِب نے مسلمانوں کو ایک جذباتی اور غیر منطقی قوم کے طور پر پیش کیا اور کہا کہ وہ عقلی سوچ سے عاری ہیں۔ یہی رویہ ۱۹۹۳ء میں سیموئل ہنٹنگٹن کی مشہور تھیوری ’تہذیبوں کا تصادم‘ میں نظر آتا ہے۔ ہنٹنگٹن نے دلیل دی کہ مغربی اور اسلامی تہذیبیں ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار رہیں گی۔ نائن الیون کے بعداس سوچ کو مغربی میڈیا اور سیاست میں مزید فروغ دیا گیا۔
یہی رویہ مسلم خواتین کے پردے کے حوالے سے بھی اپنایاگیا۔ مغربی دنیا نے حجاب کو ہمیشہ مظلومیت اور پسماندگی کی علامت سمجھا جبکہ حقیقت میں کئی مسلم ممالک میں پردہ اختیار کرنا خواتین کی اپنی شناخت کا حصہ ہے۔ بنگلہ دیش، پاکستان، انڈونیشیا، اور سینیگال جیسی مسلم اکثریتی ریاستوں میں خواتین وزرائے اعظم اور صدور رہ چکی ہیں۔
اگرچہ کہ کتاب موضوع کے حدود کی واضح نشاندہی کرتی ہے لیکن گفتگو کا بڑا حصہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی تفصیلات کا احاطہ کرتا ہے۔ ایڈورڈ سعید کی اورینٹلِزم مغرب کیلئے ایک چیلنج ثابت ہوئی تھی۔ سیاست، ادب، سماج، تمدن پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ اس نے مشرق کو خود اپنی نظر سے دیکھنے اور سمجھنے کا وسیع شعور بخشا۔
سعید سے پچاس ساٹھ برس قبل علامہ اقبال نے کہا تھا کہ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ۔ مغرب اپنی تمام ترعقلیت اور مادی ترقی کے باوجود اندرونی کھوکھلاپن محسوس کررہا ہے۔ سفید فام یورپی اور امریکی کافی تعداد میں مشرقی روحانیت کے گرویدہ ہو رہے ہیں۔ کیا چین نے اپنے غیر معمولی نظم و ضبط کے ذریعے مغربی تسلط کے قائد امریکہ کو شدید فکرمندی میں مبتلا نہیں کردیا ہے؟ فلسطین میں آبادکاری استعمار Settler Colonialismدنیا جہاں کے میڈیا پر کنٹرول کے باوجود، عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے میں کیوں ناکام رہا ہے؟ افکار کے محاظ پر خود مغرب میں اتھل پتھل مچی ہے۔ کارین آرم اسٹرانگ اور جان ایسپوسیٹو کے کام کی کیا اہمیت ہے؟ ایڈورڈ سعید زندہ ہوتے تو راقم عقیدت و احترام کے ساتھ ان سے یہ سارے سوالات پوچھتا اور مستفیض ہوتا۔ یہ بھی دریافت کرتا کہ تیزی کے ساتھ سُکڑتی ہوئی دنیا میں وقت کا دھارا کتنے عرصے تک مغرب کو مغرب اور مشرق کو مشرق رہنے دیگا ؟
سعید کسی معکوس اورینٹلِزم کے حامی بھی نہ تھے۔ راقم الحروف نے اس کتاب پر غور کے بعد یہ نتیجہ اخد کیا کہ ہم خود بھی اپنے رویوں کی ترتیب نو کریں۔ اطراف میں موجود بیانیوں اور قوموں، قومیتوں اور برادریوں کی تصویری نمائندگیوں کو تنقیدی نظر سے دیکھیں، اپنے اندر موجود راسخ تعصبات کو پہچانیں اور ان پر سوال اٹھائیں۔ تہذیبی اختلافات کو سمجھنے کیلئے کھلے ذہن، ہمدردی اور سیکھنے کے جذبے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ رواداری، عزت اور فہم و ادراک کے ساتھ پیش آئیں۔ یہی طرزِ فکر ایک زیادہ متوازن اور منصفانہ عالمی انسانی سماج کے قیام میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔