• Mon, 23 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اوسلو معاہدہ: لمحوں کی خطا،صدیوں کی سزا

Updated: September 13, 2023, 12:50 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن، فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن(پی ایل او) چیئر مین یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیر خارجہ شیرون پیریز نے تیرہ ستمبر ۱۹۹۳ء میں وہائٹ ہاؤس میں جس دستاویزپر دستخط کئے تھے اسے اوسلو امن معاہدہ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔

The document signed at the White House on September 13, 1993 is known as the Oslo Peace Accords.Photo:INN
تیرہ ستمبر ۱۹۹۳ء میں وہائٹ ہاؤس میں جس دستاویزپر دستخط کئے تھے اسے اوسلو امن معاہدہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔تصویر: آئی این این

کیسی المناک ستم ظریفی ہے کہ تیس سال قبل جس امن کے قیام کے معمار کی حیثیت سے ایک نہیں  دو نہیں  تین تین اشخاص کو امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا وہ امن آج تک قائم نہیں  ہوسکا ہے! اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن، فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن(پی ایل او) چیئر مین یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیر خارجہ شیرون پیریز نے تیرہ ستمبر ۱۹۹۳ء میں  وہائٹ ہاؤس میں  جس دستاویزپر دستخط کئے تھے اسے اوسلو امن معاہدہ کے نام سے جانا جاتا ہے کیونکہ یہ معاہدہ ان خفیہ مذاکرات کا نتیجہ تھا جو ناروے کی راجدھانی میں  اسرائیلی اور فلسطینی نمائندوں  کے درمیان کئی ماہ تک چلے تھے۔ متحارب فریقین کو قریب لانے میں  امریکی صدر بل کلنٹن نے اہم کردار نبھایا۔ اقوام عالم نے اس کا خیرمقدم کیا کیونکہ اس سے یہ امید پیدا ہوئی کہ اسرائیل مقبوضہ علاقے خالی کردے گا، فلسطینی باشندوں  کو حق خود ارادیت فراہم کرے گا اور خطے میں  پچاس سال سے جاری جنگ و جدل پر لگام لگے گی اور پائیدار امن قائم ہوگا۔
  پی ایل او اور اسرائیل نے ایک دوسرے کو تسلیم کرلیا اور دیرینہ دشمن رابن اور عرفات ہاتھ ملاکر امن کے عمل میں  شراکت دار بن گئے۔ فلسطینیوں  کو پہلے محدود خود مختاری اور بعد میں  آزادی دینے کا فیصلہ کیاگیا۔یہ ایک عبوری معاہدہ تھا جس کی میعاد۱۹۹۹ء کے اواخرتک تھی۔ اس معاہدہ کا مقصد ایک آزاد خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام تھا۔ یہ مجوزہ ریاست مغربی کنارہ، غزہ اور مشرقی یروشلم (جہاں  بیت المقدس واقع ہے) کے ان علاقوں  پر مشتمل ہوتی جو اسرائیل کے فوجی قبضے میں  تھے۔ پلان کے مطابق اسرائیل اور فلسطین دو اچھے ہمسائیوں  کے طرح امن اور ہم آہنگی سے ایک ساتھ رہتے۔ اس دو ریاستی فارمولہ کو نہ صرف عرب ممالک بلکہ عالمی برادری کی حمایت بھی حاصل ہوئی۔۱۹۹۴ء میں  غزہ پٹی اور مغربی کنارہ کے جیریکو میں  فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں  آگیااور لگا کہ امن کی گاڑی پٹری پر آگے بڑھ رہی ہے۔ لیکن بنجامن نیتن یاہو نے جواس وقت لیکود پارٹی کے ابھرتے ہوئے لیڈرتھے، رابن کے فیصلے کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں  کیں  اور ایک جنونی یہودی نے نومبر ۱۹۹۵ء میں  رابن کو گولی ماردی۔اگلے سال عام انتخابات میں  لیبر پارٹی کے شیرون پیریز کو شکست دے کر لیکود سربراہ نیتن یاہو وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔انہوں  نے اعلان کردیا کہ غزہ اور اور مغربی کنارہ میں  پی ایل او کی محدود حکومت توانہیں  قبول ہے لیکن ایک آزاد فلسطینی ریاست کا مطالبہ نہیں ۔۲۰۰۲ء میں  نیتن یاہو نے سخت گیر دایاں  بازو کی جماعتوں  کے ساتھ مل کر دوبارہ اقتدار سنبھالتے ہی مقبوضہ علاقوں  میں  ناجائز یہودی بستیاں  تعمیر کروانے کا حکم دے دیا۔
 عرفات کی ۲۰۰۴ء یں  پیرس کے ایک ملٹری اسپتال میں  پراسرار حالات میں  موت ہوگئی۔ بعد میں  یہ انکشاف ہوا کہ انہیں  زہر دے کر مار ا گیا تھا۔ ایک اسرائیلی صحافی’ یوری ایونری‘ کا الزام ہے کہ عرفات کی موت کی سازش میں  اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کا ہاتھ تھا۔
  اوسلو معاہدے کے نتیجے میں  مغربی کنارہ میں  فلسطینی اتھارٹی کا قیام تو عمل میں  آیا لیکن فلسطینیوں  کی خود مختاری ایک سراب ثابت ہوئی۔ مغربی کنارہ کا بیشتر علاقہ ابھی بھی اسرائیل کے زیر تسلط ہے۔ غزہ پٹی کا معاملہ تھوڑا الگ ہے۔ ۲۰۰۵ء میں  صدر شیرون نے یکطرفہ طور سے غزہ سے نہ صرف اسرائیلی فوجیں  ہٹالیں  بلکہ ان آٹھ ہزار یہودی آبادکاروں  کو بھی وہاں  سے نکال لیا جنہیں  اس فلسطینی علاقے میں  ناجائز طور پر بسایا گیا تھا۔غزہ میں  اسرائیلی انخلا کے چند ماہ بعد ہی انتخابات ہوئے جس میں  محمود عباس کی فتح پارٹی کو حماس نے شکست دے کر حماس اقتدار میں  آگئی۔ اسرائیل اور امریکہ نے جمہوری طریقے سے منتخب ہوئی حکومت کو تسلیم نہیں  کیا کیونکہ وہ حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں ۔ برہم اسرائیل نے ۲۰۰۷ء میں  غزہ کی ناکہ بندی کردی جو آج تک جاری ہے۔ غزہ میں  نہ کوئی باہر سے جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی باہر آسکتا ہے۔ اس لئے غزہ کو’’ دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل ‘‘کا خطاب دیا گیا ہے۔ ۲۱؍ لاکھ  فلسطینی جن میں  نصف آبادی بچوں  اور نوجوانوں  کی ہے اس جیل میں  غیر انسانی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں  جہاں  اسرائیل وقتاً فوقتاً بمباری کرکے گھروں  کو مسماراور انسانوں  کو قتل کرتارہتا ہے۔
 اوسلو معاہدہ کی بنیاد Land for Peace(زمین برائے امن)پر رکھی گئی تھی۔ رابن نے یہودیوں  کی سلامتی اور تحفظ کی خاطر مقبوضہ علاقوں  سے یہودی آباد کاروں  کو ہٹالینے اور فلسطینیوں  کو ان کی زمین واپس کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ۱۹۹۳ء میں  مغربی کنارے میں  آبادکاروں  کی تعداد ایک لاکھ تھی جو پچھلے تیس برسوں  میں  بڑھ کر چارلاکھ ہوگئی ہے۔ نیتن یاہو اس وقت جن شدت پسند دائیں  بازو والی سیاسی طاقتوں  کے ساتھ حکومت کررہے ہیں  وہ فلسطینی علاقوں  کو فلسطینی باشندوں  سے خالی کرواکے وہاں  یہودی بستیاں  تعمیر کرنے پر مصر ہیں ۔ ۲۰۱۸ء میں  نیتن یاہو نے پارلیمنٹ میں  ایک قانون پاس کرواکے اسرائیل کوصرف یہودی باشندوں  کی قومی ریاست میں  تبدیل کردیا جہاں  کسی غیر یہودی کو حق خودارادیت حاصل نہیں  ہوگا اوریہودی آباد کاروں  کیلئے نئی بستیاں  تعمیر کرنا ریاست کا قومی فریضہ بنادیا گیا۔ مطلب یہ کہ فلسطینی زمین ضبط کرنے کا لائسنس حاصل کرلیا گیا ہے۔اوسلو کی ناکامی کی کچھ ذمہ داری فلسطینیوں  کی بھی ہے۔ وہ عسکریت پسند تنظیمیں  جو امن معاہدہ کی مخالفت کررہی تھیں  ان کے دہشت گردانہ حملوں  اور۲۰۰۰ء میں  دوسرا انتفاضہ سے بھی اسرائیل کے وہ اعتدال پسند یہودی بھی جو امن کی خاطر فلسطینیوں  کو ان کا حق دینا چاہتے تھے،امن معاہدہ کے خلاف ہوگئے۔ نیتن یاہو جیسے رجعت پسند سیاسی قائدین نے اس کا فائدہ اٹھایا۔امریکہ نے بھی اوسلو معاہدے کو سبوتاژ کرنے میں  کوئی کسر نہیں  چھوڑی۔ صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرکے یہ ثابت کردیاکہ امریکہ دیانت دار ثالث نہیں  بلکہ صہیونیوں  کا طرفدار ہے۔ کچھ تجزیہ کار وں  کا خیال ہے کہ اوسلو معاہدے کے دوران مرکزی مسائل کو مستقبل میں  طے کرنے کی اسرائیلی تجویز کو منظور کرکے فلسطینی قیادت نے بھاری بھول کی۔ اسرائیل کی  سرحدوں ، فلسطینی رفیوجیوں  اور یروشلم کو مجوزہ فلسطینی ریاست کے دارلحکومت بنانے کے فیصلوں  کو آخری مرحلے کے مذاکرات تک موخر کردینے کی رابن کی تجویز کو عرفات کو مسترد کردینا چاہئے تھا۔ پی ایل او کو فلسطینی باشندوں  کا جائز نمائندہ تسلیم کرنے جیسی معمولی  رعایت کے عوض اسرائیل کے وجود کے حق کو تسلیم کرنا بھی ایک بڑی غلطی تھی۔ لمحوں  نے خطا کی تھی صدیوں  نے سزا پائی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK