• Sat, 23 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہماری معیشت: اندرونی حالت، بیرونی اُمیدیں

Updated: October 24, 2024, 1:59 PM IST | Mumbai

یہ پانچ ملکوں کا ادارہ ہے جس میں برازیل، روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ برکس انہی پانچ ملکوں کے ناموں کے ابتدائی حروف سے بنایا گیا لفظ ہے۔ برکس کی ہر چوٹی کانفرنس میں چند ملکوں کو خصوصی مدعوئین کی حیثیت سے شامل کیا جاتا ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

روس کے مشہور شہر قازان میں ان دنوں ’’برکس‘‘ کی چوٹی کانفرنس جاری ہے۔ یہ پانچ ملکوں کا ادارہ ہے جس میں برازیل، روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ برکس انہی پانچ ملکوں کے ناموں کے ابتدائی حروف سے بنایا گیا لفظ ہے۔ برکس کی ہر چوٹی کانفرنس میں چند ملکوں کو خصوصی مدعوئین کی حیثیت سے شامل کیا جاتا ہے۔ اِن دنوں جاری کانفرنس میں ایران، مصر، ایتھوپیا اور یو اے ای خصوصی مدعوئین ہیں۔ ہندوستان برکس کا اہم رکن ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم نہ کرنا بخل سے کام لینے جیسا ہوگا کہ عالمی سطح کے مختلف گروپس میں شمولیت اور چوٹی کانفرنسوں میں شرکت کی وجہ سے ہندوستان خبروں میں رہتا ہے۔ عالمی لیڈروں سے وزیر اعظم کی ملاقات بھی خبروں کی سرخیوں کو پُرکشش بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ چاہے برکس اور جی ٹوینٹی ہو یا کوئی اور گروپ، اس میں شامل تمام ممالک ایکد وسرے سے معاشی فائدہ حاصل کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ اس میں زیادہ فائدہ وہی اُٹھاتا ہے جو دیگر ملکوں کے اُن شعبوں سے گہری واقفیت رکھتا ہے جن میں وہ طاقتور ہیں تاکہ ضروری معاہدہ کرکے باہمی شراکت کے ذریعہ اپنے فائدہ کو یقینی بنائے۔ 
ہمارے سامنے وہ اعدادوشمار نہیں ہیں جن سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکے کہ عالمی فورموں میں شرکت کے ذریعہ ہم نے دوسروں سے کتنا معاشی فائدہ اُٹھایا اور دوسروں نے ہم سے کتنا۔ مگر، یہ بات دل کو لگتی ہے کہ ایک طرف عالمی فورموں پر ہماری موجودگی اور پزیرائی ایک عالمی حقیقت ہے جسے دُنیا دیکھ رہی ہے، دوسری طرف اندرونِ خانہ ہماری معاشی کارکردگی حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ بیرونی ملکوں کی ایجنسیاں ہمارے تعلق سے بہت اچھی رائے کا اظہار کرتی ہیں جبکہ ہم اپنے اعدادوشمار کو لے کر پریشان رہتے ہیں۔ یہ بڑی ستم ظریفی ہے۔ اس کی چھوٹی سی مثال ابھی کل ہی کی خبر ہے جس میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے ہندوستانی معیشت سے بڑی اُمید ظاہر کی اور کہا کہ مالی سال ۲۰۲۵ء میں اس کی جی ڈی پی کی نمو ۷؍ فیصد رہے گی۔ اس کے برخلاف کئی دیگر رپورٹس میں، جو خود مرکزی حکومت کے فراہم کردہ اعداد وشمار پر مبنی ہیں، کہا گیا ہے کہ جی ایس ٹی کی وصولی کم ہوکر ۶ء۵؍ فیصد ہوگئی ہے او راب ۴۰؍ ماہ کی سب سے نچلی سطح پر ہے۔ اسی طرح دیگر ملکوں کے ساتھ ہونے والی تجارت کا خسارہ (ٹریڈ ڈیفیسٹ) بھی بڑھ گیا ہے۔ ایک سال پہلے یہ خسارہ ۲۴ء۲؍ ارب ڈالر شمار کیا گیا تھا جو اَب ۲۹ء۷؍ ارب ڈالر ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ ہم درآمد زیادہ کررہے ہیں، برآمد کم۔ گزشتہ سال ۳۸ء۳؍ ارب ڈالر کی قابل فروخت اشیاء (مرچنڈائز) برآمدکی گئی تھیں ، اِس سال اِس میں کمی آئی اور صرف ۳۴ء۷؍ ارب ڈالر کی اشیاء برآمد کی گئیں۔ جی ڈی پی کی نمو جو ۷ء۸؍ فیصد تھی، اب ۶ء۷؍ فیصد ہے۔ ہماری صنعتی پیداوار بھی متاثر ہے اور مہنگائی نیز بے روزگاری کا حال سب پر ظاہر ہے۔ 
جب تک ہم، بیشتر معاشی معیارات پر پورا اُترنے اور بہت ٹھوس کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی راہ پر گامزن نہیں ہونگے تب تک خود آئینہ دیکھنے کے قابل نہیں ہونگے چاہے آئی ایم ایف جیسے ادارے ہمارے عکس کو دُنیا کا بہترین عکس کیو ں نہ قرار دیں۔ ہمیں نہ تو دوسروں کے بہلاوے میں آنا چاہئے نہ ہی خوش فہمی میں مبتلا ہونا چاہئے۔ معاشی طور پر طاقتور نہیں رہ جائینگے تو ہمیں کوئی نہیں پوچھے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK