Inquilab Logo

آزادی کے ۷۵؍ برسوں میں ہماری اہم کامیابیاں اور قابل ذکر حصولیابیاں

Updated: August 15, 2022, 3:10 PM IST | Mumbai

ء ۱۹۴۷ء سے ۲۰۲۲ء تک ہم نے ایک طویل سفر طے کرلیا ہے، اس دوران ملک نے کئی محاذ پر نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، زیر نظر کالموں میں انقلاب نے انہی میں سے ۱۰؍ اہم کامیابیوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے

In the last 75 years, the country has succeeded in asserting its importance at the international level .Picture:INN
گزشتہ ۷۵؍برسوں میں ملک نے بین الاقوامی سطح پر اپنی اہمیت کا لوہا منوانے میں کامیابی حاصل کی ہے تصویر: پی ٹی آئی

ملک کو انگریزی حکومت کی غلامی سے آزاد ہوئے ۷۵؍ سال ہوچکے ہیں۔ اسی کی مناسبت سے ملک آج ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ منا رہا ہے۔ ۱۲؍ مارچ ۲۰۲۱ء کو سابرمتی آشرم گجرات سے شروع ہونے والا ’امرت مہوتسو‘ کا یہ سلسلہ ۷۵؍ ہفتوں تک جاری رہنے کے بعد ۱۵؍ اگست ۲۰۲۳ء کو ختم ہوگا۔ اس دوران ملک کی اہم کامیابیوں اور قابل ذکر حصولیابیوں کا سرکاری اور عوامی سطح پر جائزہ لیا جائے گا۔ آزادی کے ان ۷۵؍ برسوں میں ملک نے بہت سارے سرد و گرم حالات کا سامنا کیا،کبھی خوشی تو کبھی غم کا دور دیکھا، کچھ پایا توکچھ کھویا بھی لیکن چونکہ یہ وقت جشن کا ہے،اسلئے اس دوران ہم ’کھونے‘ والی نہیں بلکہ صرف ’پانے ‘ والی باتوں کا  ذکر کریں گے، منفی نہیں مثبت پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے اور ان ۷۵؍ برسوں میں حاصل ہونے والی  اپنی ان کامیابیوں اور حصولیابیوں کا تذکرہ کریں گے جن کی وجہ سے  ہندوستان اور ہندوستانیوں کا سر پوری دنیا میں فخر سے بلند ہوا ہے ۔ سب سے پہلی اور سب سے بڑی کامیابی اور حصولیابی ، آزادی کا وہ احساس ہے جو ۱۴؍ اور ۱۵؍ اگست کی درمیانی رات کو ہم ہندوستانیوں کو میسر ہوا، جب  لال قلعہ سے  اس بات کااعلان ہوا کہ ہم آزاد ہوگئے اور جب یونین جیک کو اُتار کراس کی جگہ ترنگا لہراتے ہوئے مجاہدین آزادی  نے آزادی کے اُس اعلان کو حتمی اور عملی شکل عطا کی اور غلامی کا طوق اُتار پھینکا۔  آزادی کے اس احساس نے قلب و ذہن کو وسعت عطا کی، سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا اور  اس پر عمل کرنے کا موقع فراہم کیا۔ ۱۹۴۷ء سے ۲۰۲۲ء تک ملک نے کئی سنگ میل عبور کئے۔ وہ ملک جو غلام کہلاتا تھا، آزاد کہلانے لگا، جو پسماندہ اور غریب ملک کہلاتا تھا،ترقی پذیر کہلانے لگا، جو بھکمری اور قحط سالی کیلئے بدنام تھا،غذا اور غذائیت کے معاملے میں خود کفیل کہلانے لگا،جہاں جہالت کی شرح زیادہ تھی، وہاں تعلیم کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، جو دفاع کیلئے دوسروں پر انحصار کرتا تھا، وہ ایٹمی اورنیوکلیائی طاقت کا مالک کہلانے لگا، جو بین الاقوامی کھیلوں میں دوسرے ملک کے کھلاڑیوں کو حسرت بھری نگاہوں سے کھیلتے ہوئے دیکھا کرتا  تھا،  وہ ان کھیلوں کا چمپئن کہلایا، جوزمین پر پرچم لہرانے کیلئے ترستا تھا،وہ چاند پرپرچم لہرانے والا کہلایا اور جہاں مختلف مشنوں کی صورت میں فرمان اور وائسرائے کی صورت میں حکمران آتے تھے، وہاں ملک کا اپنا ٹھوس،مستحکم اور سب کیلئے قابل قبول آئین  بنا اور ملک کے ہر شہری کو  اپنا حکمران منتخب کرنے کی آزادی ملی۔ یقیناً ان سہولتوں اور رعایتوں کاکچھ لوگوں اور طاقتوں نے غلط اور ناجائز فائدہ بھی اٹھایا ہے اور عوام کا استحصال کیا ہے لیکن جیسا کہ بالائی سطروں میں تذکرہ کیا گیا ہے ، ابھی ہم ان پہلوؤں کو نہیں چھیڑیں گے، شکوہ شکایت تو ہم سال کے بارہ مہینے کرتے ہی رہتے ہیں اور وقت ضرورت آئندہ بھی کریں گے، فی الحال ہم صرف حصولیابی پر گفتگو کریںگے۔ گزشتہ  ۷۵؍ برسوں میں ملک نے کئی محاذ پر نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، ان تمام کا احاطہ ممکن نہیں ہے،اسلئے ہم ان میں ۱۰؍ اہم اور قابل ذکر کامیابیوں کا  اختصار سے جائزہ لیں گے۔
ملک کا اپنا دستور بنا جو کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے
 ملک کاآئین اس لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں ملک کے تمام طبقات کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ ۳۹۵؍ دفعات پر مشتمل اس آئین کو ۲۲؍ مختلف ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس   میں ۱۲؍ درج فہرستیں ہیں۔ جس وقت یہ دستور تیار ہوا ،اُس وقت اسے ایک لاکھ ۴۵؍ ہزار الفاظ  کےساتھ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا تحریری دستور ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ دنیا کا سب سے بڑا تحریری دستور امریکی ریاست ’الباما‘ کا  ہے۔ اب تک اس میں وقت ضرورت ۱۰۵؍ مرتبہ ترامیم کی جاچکی ہیں۔آئین ہند میں تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت کی وجہ سے اسے دنیا میں قابل احترام نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔    آئین کو ترتیب دینےاور اس کا مسودہ تیار کرنے کیلئے ایک دستور ساز مجلس تشکیل دی گئی تھی۔ اس دستور سازمجلس کے اراکین کو صوبائی اسمبلیوں کے اراکین نے منتخب کیا تھا۔مذکورہ مجلس کے اراکین کی تعداد ابتدائی دنوں میں۳۸۹؍تھی لیکن ملک کی تقسیم کے بعد ان کی تعداد۲۹۹؍ کردی گئی تھی۔ آئین کی تشکیل میں تین سال کا عرصہ لگا تھا۔ اس دوران ۱۱؍ اجلاس منعقد کئے گئے تھے۔ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر اس ڈرافٹنگ کمیٹی کے چیئرمین تھے جبکہ دیگر اراکین میں پنڈت جواہر لال نہرو، ولبھ بھائی پٹیل، مولانا ابوالکلام آزاد، جے بی کرپلانی، ڈاکٹر راجندر پرساد  اور سی راج گوپال اچاریہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ مذکورہ کمیٹی میں رفیع احمد قدوائی،آصف راؤ، محمد سعداللہ اور مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی کے علاوہ کئی اہم مسلم لیڈران بھی شامل تھے۔  بنیادی حقوق کی ضمانت کے ساتھ ہی جمہوریت اور سیکولرازم کی پاسداری  کی وجہ سے آئین ہند کو پوری دنیا میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔
تعلیمی میدان میں انقلاب
 زمانہ قدیم میں کبھی ہندوستان تعلیم کا گہوارہ رہا ہوگا لیکن ملک کی آزادی کے وقت   یہاں تعلیم کی صورتحال اچھی نہیں تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں ۸۵؍ فیصد سے زیادہ ایسے لوگوں کی آبادی تھی جو پڑھے لکھے نہیں تھے جبکہ آج ملک میں تعلیم کی شرح ۷۴؍ فیصد سے زائد ہے۔ ملک آزاد ہوا تو ملک کے پہلے وزیرتعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہی تھا۔ ان کے سامنے ملک کی مالی حالات کو دیکھتے ہوئے تعلیمی ادارے کھولنا اور تعلیم کی شرح بڑھانا اولین ترجیح تھی لیکن مولانا  نے صرف اتنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے تعلیم کے ساتھ معیاری تعلیم کے نظم کا خواب دیکھا اور اپنی ساری توانائی اس سمت میں لگا دی۔یہ ان کی کاوشوں اور محنتوں کے ساتھ ہی ان کی دور اندیشی کا نتیجہ ہے کہ آزادی کے فوراً بعد ہی      ملک کو آئی آئی ایم اور آئی آئی ٹی جیسے ادارے ملے  جن کی دھاک آج بھی پوری دنیا میں قائم ہے۔ملک کا پہلا آئی آئی ٹی مغربی بنگال کے شہر کھڑگ پور میں ۱۹۵۱ء میں اور پہلا آئی آئی ایم گجرات کے احمدآباد میں ۱۹۶۱ء میں قائم ہوا۔ آج ملک بھر میں آئی آئی ٹی کے ۲۳؍ اور آئی آئی ایم کے ۲۰؍ ادارے قائم ہیں جن کا  بین الاقوامی سطح پر تعلیمی اداروں میں ایک اہم مقام ہے۔آل انڈیا سروے آف ہائر ایجوکیشن (اے آئی ایس ایچ ای) کی ۲۰۔۲۰۱۹ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں ۱۰۴۳؍یونیورسٹیز اور ۴۲؍ ہزار ۳۴۳؍ منظور شدہ کالجز میں طلبہ کو تعلیم دی جارہی تھی۔ ان   میں۵۴؍ سینٹرل اور ۴۱۶؍ اسٹیٹ ، ۱۲۵؍ڈیمڈ  اور باقی پرائیویٹ یونیورسٹیاں ہیں۔ 
فوجی طاقت :اسلحہ سازی سے نیوکلیائی تجربہ تک
  فوجی طاقت کے لحاظ سے دنیا میں وطن عزیز کی پوزیشن چوتھی ہے۔ اس کے باوجود یہاں جبری فوجی بھرتی کا رواج نہیں ہے بلکہ یہ کام رضاکارانہ ہوتا ہے۔ اگرچہ وقت پڑنے پر جبری فوجی بھرتی کیلئے آئین میں ایک شق موجود ہے، لیکن اس کو کبھی نہیں نافذ کيا گیا ہے ۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے اسٹریٹجک اسٹڈیز، کی ایک رپورٹ کے مطابق۲۰۱۰ء میں فوج میں ۱۱؍ لاکھ ۲۹؍ ہزار۹۰۰؍ فعال اہلکار تھے جبکہ ۹؍ لاکھ ۶۰؍ ہزار اہلکار ریزرو تھے۔ وکی پیڈیا کی رپورٹ کے مطابق آج فعال اہلکاروں کی تعداد ۱۴؍ لاکھ ۵۵؍ ہزار اور ریزرو اہلکاروں کی تعداد۱۱؍ لاکھ ۵۵؍ ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ملک کی آزادی کے وقت، جب جنرل ایم کریپا نے برطانوی کمانڈر سر فرانسس روبوٹ رائے بوچر سے فوج کی ذمہ داریاں اپنے ہاتھوں میں لی تھیں، ہندوستانی فوجیوں کی مجموعی تعداد محض ۲؍ لاکھ تھی جبکہ ج ایک لاکھ سے زائد  فوجی، ہندوستانی فوج میں مختلف عہدوں پر اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔آج ہمارا ملک نیوکلیائی طاقت کا مالک بھی ہے۔۱۸؍ مئی ۱۹۷۴ء کو ہندوستان کی دفاعی تاریخ میں خاص اہمیت حاصل ہے جب راجستھان کے خطہ پوکھرن میں ملک نے اپنا پہلا نیوکلیائی تجربہ کیا تھا۔اس کے مئی ۱۹۹۸ء میں کئی تجربے کئے گئے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان  میں ۲۲؍ نیوکلیئر ری ایکٹر کام کررہے ہیں جبکہ ملک کے پاس ۸؍ نیوکلیئر پلانٹس بھی ہیں۔
شعبہ مواصلات میں نمایاں کارکردگی
 ملک آزاد ہوا تو شعبہ مواصلات میں ہم بہت پیچھے تھے لیکن آج ہم اس شعبے میں دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں سے اپنا موازنہ کرسکتے ہیں۔ ملک کے پہلے وزیر مواصلات رفیع احمد قدوائی نے جو اس شعبے میں جو شجرکاری کی تھی،اس کے ثمرات سے آج پوری قوم فیضیاب ہورہی ہے۔  فی الحال ہم نے ’فائیوجی‘ کے دور میں قدم رکھنے کااعلان کردیا ہے۔گزشتہ دنوں سوئزرلینڈ کے شہر جنیوا میں منعقدہ ایک بین الااقوامی میٹنگ میں ہندوستانی وزیرمواصلات برائے مملکت دیوسنگھ چوہان نے  اعلان کیا تھا کہ ملک میں لگ بھگ ایک لاکھ۷۵؍ہزارگاؤں کو آپٹیکل فائبر سے جوڑا جاچکاہے اور ’فورجی کنکٹی ویٹی‘ سے محروم گاؤں کو یونیورسل سروس آبلی گیشن  فنڈ (یوایس اوایف ) کے ذریعہ احاطہ کیاجارہاہے ۔
سبز، سفید،سنہرا اور گلابی انقلاب
 ایک وقت تھا کہ ملک میں کھانے کی قلت تھی، قحط سالی عام بات تھی جس کی وجہ سے اکثر بھکمری کی نوبت آجاتی تھی لیکن اب ملک اس بحران سے پوری طرح آزاد ہوچکا ہے۔ آج ہمارا ملک نہ صرف یہ کہ غذا اور غذائیت میںخود کفیل ہے بلکہ دوسرے ملکوں کو یہ اشیا برآمد بھی کرتا ہے۔  اس کیلئے وقفے وقفے سے ملک میں سبز، سفید، سنہرا اور گلابی انقلاب کی مہم چلائی گئی۔ غذائی  اجناس کی قلت پر قابو پانے کیلئے ۱۹۶۰ء کی دہائی میں سبز انقلاب سے ملک کو روشناس کرایا گیا۔اس کے بعد ملک کی زراعت میں واقعی ایک انقلاب آگیا۔ ۱۹۷۰ء میں ’آپریشن فلڈ‘ کے نام سے ملک میں ’سفید انقلاب‘ کی مہم چلائی گئی۔ ’امول‘ کمپنی کے بانی ’ڈاکٹر  ورگیز کورین‘ کو اس مہم کا بانی قرار دیا جاتا ہے جنہوں نے ملک میں دودھ کی پیداوار کیلئے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق محض ۳۰؍ برسوں میں ملک میں دودھ کی پیداوار میں ۱۰۰؍ فیصد کا اضافہ ہوگیا تھا۔۱۹۹۱ء میں ملک میں ’سنہرے انقلاب‘ کی مہم چلائی گئی جس کے تحت  شہد، پھل اور ترکاریوں کی کاشت میں بہتری لانے کیلئے مختلف طریقے اختیار کئے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند ہی برسوں میں ہندوستان اس معاملے میں نہ صرف خود کفیل ہوگیا بلکہ دوسرے ملکوں کو برآمد کرنے کے قابل بھی بن گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق چین کے بعد ہندوستان میں سب سے  زیادہ پھلوں اور ترکاریوں کی پیداوار ہوتی ہے۔ ’گلابی انقلاب‘ کے تحت ’بڑے کے گوشت‘ کی پیداوار  بڑھانے کی کوشش کی گئی۔ اس مہم کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس معاملے میں۲۰۱۲ء تک ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا ’ایکسپورٹر ‘ بن گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق مودی حکومت کے دور میں  اس شعبے نے قابل ذکر ترقی کی ہے اور ۲۰۱۵ء سے ۲۰۱۹ء کے درمیان ۴۴؍ فیصد کا اضافہ درج کیاگیا ہے۔

کھیل کی دنیا میں دھاک
کامن ویلتھ گیمز:آزادی کے وقت تک ہمارا ملک چنندہ کھیلوں میں حصہ لیتا تھا لیکن ’غلامی‘ کے اثرات کی وجہ سے اس کی کارکردگی بہت نمایاں نہیں ہوا کرتی تھی۔ اگر ہم صرف کامن ویلتھ گیم کا جائزہ لیں تو ۱۹۳۰ء میں کناڈا میں اس کا آغاز ہوا لیکن اس میں ہندوستان نے حصہ ہی نہیں لیا۔ اس کے دوسرے سیزن یعنی انگلینڈ میں ۱۹۳۴ء میں ہونے والے کھیل میں حصہ لیا۔ اس میں ہندوستان کو صرف ایک برونز میڈل پر اکتفا کرنا پڑا جو ہندوستان کے پہلوان راشد انور نے کشتی کے مقابلے میں حاصل کی تھی۔ اس کے بعد۲۴؍ سال تک ہندوستان کے کھاتے میں کوئی اور دوسرا میڈل نہیں آسکا۔  اس کے ۱۹۵۸ء میں فلائنگ سکھ سے مشہور ملکھا سنگھ نے  ملک کیلئے پہلا گولڈ میڈل حاصل کیا۔ لیکن اب اس کھیل میں ملک کی اپنی ایک دھاک ہے۔ دولت مشترکہ کھیلوں میں ہندوستان نے اب تک کل ۵۶۴؍تمغے جیتے ہیں۔ ان میں سے۴۱۱؍ تمغے اس نے گزشتہ۶؍ کامن ویلتھ گیمز میں جیتے تھے۔ ملائیشیا میںمنعقد ہونے والے۱۹۹۸ء کے کامن ویلتھ گیمز تک ہندوستان نے صرف ۱۵۳؍ تمغے جیتے تھے۔اس طرح دیکھا جائے تو پچھلے۶؍ سیزن میں ہندوستان کی کارکردگی میں۲۵۰؍ فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔اس میںملک کا سب سے اچھا پرفارمنس ۲۰۱۰ء کا رہا جب ۳۸؍گولڈ میڈل کے ساتھ ملک نے ۱۰۱؍ میڈل جیتنے میں کامیابی حاصل کی اوردوسری پوزیشن پر رہا۔ یہ پہلا موقع تھا جب ملک نے میڈل کی سنچری پوری کی تھی۔
کرکٹ میں نمایاں کامیابی:ملک کی آزادی کے وقت کرکٹ کو انگریزوں کا کھیل تصور کیا جاتا تھا لیکن بہت جلد ملک نے اس کھیل میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ صورتحال یہ ہے کہ آج پوری دنیا میں کرکٹ کنٹرول بورڈ آف انڈیا (بی سی سی آئی) کی دھاک ہے۔ اس کھیل نے دنیائے کرکٹ کو کپل دیو، سنیل گاؤسکر، سچن تینڈولکر، محمد اظہرالدین، مہندر سنگھ دھونی اوروراٹ کوہلی جیسے اسٹار دیئے ہیں جن کے بغیر کرکٹ کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔
دیگر کھیلوں میں بھی شناخت بنائی: اس کے علاوہ بیڈ منٹن، کشتی، شطرنج، شوٹنگ اور دیگر کھیلوں میں ہندوستانیوں کھلاڑیوں نے ملک کا نام روشن کیا ہے ۔  وشوناتھن آنند، سائنا نہوال، ثانیہ مرزا، نکہت زرین ، پی وی سندھو اور نیرج چوپڑہ جیسے سیکڑوں کھلاڑیوں کی فہرست  ہے جنہوں نے ملک کا وقار بلند کیا ہے ۔ یہ وہ چند کامیابیاں اور حصولیابیاں ہیں جن پر ملک بجاطورپر ناز کرسکتا ہے اور ملک کی آزادی کے ۷۵؍ سالہ’امرت مہوتسو‘ کے موقع پر جشن کا اہتمام کرسکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK