• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مجموعی طور پراُردو کی حالت ٹھیک رہی، لیکن…

Updated: December 24, 2023, 12:38 PM IST | Prof. Aslam Jamshed Puri | Mumbai

۲۰۲۳ء آخری سانسیں لے رہا ہے۔ اس سال کے دوران اُردو دُنیا میںکیا ہوا، کیسا ہوا اَور کون کون سی سرگرمیاں قابل ذکر رہیں اس کی روداد پر مبنی اہم مضمون۔

The relationship of the reader with books and magazines should be maintained, while in the Urdu world it is breaking. Photo: INN
کتابوں اور رسائل سے قاری کا رشتہ قائم رہنا چاہئے، جبکہ اردو دنیا میں یہ ٹوٹ رہا ہے۔ تصویر : آئی این این

دیکھتے دیکھتے یہ سال (۲۰۲۳ء) بھی گزر گیا۔ مگر گزرتے گزرتے اپنے قدموں کے نشان ثبت کر گیا۔کہنے کو تو یہ بارہ ورق کا ایک کیلنڈر ہوتا ہے مگر ۳۶۵؍ دنوں پر محیط سال کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ کورونا جیسی مہلک بیماری کے بعد پہلی بار ہم نے دیکھا کہ لوگوں نے ہر احتیاط یوں اٹھا دی گویا اسی کے انتظار میں تھے اور ہر پابندی سے عاجز آچکے تھے۔ سمیناروں کی باڑھ سی آگئی۔ مشاعرے تو اس طرح منعقد ہونے لگے، جیسے بارش کے بعد ہر طر ف سبزہ اگ جاتا ہے۔ اردو والوں کی بے حسی اس سال بھی قائم رہی۔وہ سیمیناروں اور مشاعروں تک محدود رہے جبکہ اردو پر کیا مصیبت نہیں گزری۔ اردو اداروں پر تلوار لٹکتی رہی۔ خاص کر قومی اردو کونسل کی بہت سی اسکیمیں بند ہو گئیں اور اردو والے اپنے مفاد اور خسارے کا حساب کرتے رہے ۔ اردو اکادمیاں غلط فیصلے کرتی رہیں اور اپنی مرضی سے کام کرتی رہیں ،اردو والوں نے کبھی ان کا محاسبہ نہیں کیا۔ پروگراموں کی مخالفت میں کبھی آواز بلند نہیں کی۔ کونسل، رامپور رضا لائبریری، خدا بخش لائبریری میں ڈائریکٹر کی اسامی بہت دنوں سے خالی ہے۔ اسکولوں ، کالجوں اور یونیور سٹیز میں بھی کئی اردو پوسٹ خالی ہیں مگر اردو والوں نے نہ آواز اٹھائی نہ پریشر بنایا۔ یہ اب ہماری عادت بنتی جارہی ہے۔ 
 اردو اخبارات کے پڑھنے والوں کی تعداد میں ہر سال کمی آتی جارہی ہے۔ بہت سے رسائل و جرائد بند ہوتے رہے۔ اردو والے، مشاعروں میں امڈنے والی بھیڑ دیکھ کر خوش ہوتے رہے۔اردو کے نام پر بڑے بڑے میلے منعقد ہونے لگے۔ جشن ِ ریختہ، جشن ِ اردو، جشن ِوراثت، جشن ِ بہار، اردو اکادمیوں کے میلے، بڑے بڑے سیمیناروغیرہ۔ آج کل جشن ِ ریختہ،پر بحث چھڑی ہوئی ہے۔ جشن ِریختہ میں بینرز اور ہورڈنگس پر اردو کی بجائے ہندی اور انگریزی رسم الخط میں تھے۔میرا خیال ہے کہ ایک ہی بینر میں اردو اور غیر اُردو زبان تحریر ہو سکتی ہے۔یا پھر کچھ بینرز اور ہورڈنگس اردو میں ، کچھ دیگر زبانوں میں ہوسکتے ہیں ۔ مگر اس ایک بات پر ریختہ کی مجموعی اردو خدمات پرپانی پھیر دیں ،ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ قومی اردو کونسل اور دیگر اردو اداروں کا بھی بہت ساکام اردو میں نہیں ہوتا۔ اردو درس گاہوں ،مدرسوں ،مساجد اور قبر ستانوں کا نام تک دیگر زبان میں لکھا ہوتا ہے۔شادی کارڈ اردو کے علاوہ دیگر زبان میں ہوتے ہیں ۔میں اس کی حمایت نہیں کر رہا بلکہ ایک زمینی حقیقت بتا رہا ہوں ۔اردو کے بہت سے شعبے ایسے ہیں ،جن کا نام دیگر زبان میں لکھا ہوتا ہے۔ راجدھانی اورشتابدی ایکسپریس اور ائیر پورٹ پر مسافر جس زبان کا اخبار مانگے، انہیں دیا جا نا چاہئے۔وہاں ہم نے کتنی بار اردو اخبار کی مانگ کی؟ اچھے ہوٹلوں میں کبھی ہم نے اردو اخبار مانگا؟ یا تو ہم ہر جگہ اپنی زبان کی حفاظت کیلئے کمر کس لیں یا پھر آج کے حالات سے تھوا بہت سمجھوتہ کریں اور دیگر زبانوں کے ساتھ اردو کے فروغ کا منصوبہ بنائیں ۔ ریختہ نے خود کنواں کھودا ہے اور اب وہ پانی ہم پی رہا ہے۔ہم میں بہت سے لوگ ہیں ،جو ریختہ جیسا کام کر سکتے ہیں ۔ آگے آئیں اور اردو کے فروغ کا کام کریں ۔ دوسروں پر تنقید سے بہتر ،اس سے اچھا اور بڑا کام کر کے دکھائیں ۔ ’نئے پرانے چراغ‘ دہلی اردو اکادمی کا اپنے طرز کا انوکھا ادبی میلہ ہے۔اس بار یہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انجینئرنگ کالج کے آڈیٹوریم میں منعقد ہواہے۔اس میں کوشش کی جاتی ہے کہ دہلی کے شعراء، افسانہ نگار، خاکہ نگار، ناقدین، طنزو مزاح نگار، سب اپنی تخلیق پیش کرسکیں ۔ 
 شمس الرحمٰن فاروقی اور گوپی چند نارنگ کو دنیا سے رخصت ہوئے بہت دن ہوئے مگر ابھی تک اردو کے کسی نقاد نے کسی نئے رجحان کی آواز بلند نہیں کی۔کیا ہم لوگ اب بھی جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے دور سے آگے نہیں نکلے ہیں ؟کیا ہر بیس پچیس برس بعد ادب میں کوئی نیا رجحان نہیں آتا؟ کیا ابھی تک مابعد جدیدیت کی موت واقع نہیں ہوئی؟ کیا مغرب میں کوئی نیا رجحان نہیں آیا؟ کیا اب ہمارے ناقدین کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے؟ ان جیسے بے شمار سوالات آج کے قارئین ،مصنفین اور ادب نوازوں کے دل ودماغ میں گردش کر رہے ہیں ؟
 ہر سال کی طرح اس سال بھی بے شمار شعری مجموعے ، افسانوی مجموعے، افسانچوں کے مجموعے، ناول، تنقیدی کتب، تحقیقی کتابیں ، دیگر زبانوں کے اردو میں تراجم، منٹو، غالب، اقبال، منشی پریم چند، سر سید ،مولانا آزاد اور دیگر شخصیات پر کتابیں شائع ہوئیں ۔ اس سال یوں تو بہت ساری کتابیں شائع ہوئیں لیکن کچھ کتابوں نے خاصی دھوم مچائی مثلاً بساطِ ہوائے دل (غزلیں ۔ دانش اثری)، جانِ شوریدہ (غزلیں ۔خوشبو پروین)، لالہ زار ( نظمیں ۔نذیر میرٹھی)، دو کنارے (نظمیں ۔سرور ساجد)، خواب نما (افسانے۔ غیاث الرحمٰن سید) بین کرتی آوازیں (افسانے۔نسترن احسن فتیحی)،گم شدہ خوابوں کی ایک رپورٹ (افسانے۔ اشعر نجمی)، فیضانِ محبت (افسانے۔ رینو بہل)، اردو ڈراما تاریخ و تجزیہ (تنقید۔ محمدکاظم)، سیاہ حاشیے اور حاشیہ آرائیاں (تنقید۔ اسلم پرویز)، اوراقِ علی گڑھ ( تنقید۔ابو سفیان اصلاحی)، اکیسویں صدی میں اردو شعریات( تنقید۔قدوس جاوید)، اردو صحافت اور اخبار ’ الجمیعۃ‘ (صحافت۔ ساجد علی)، احمد فراز کے انٹرویو (صحافت۔ مرتبہ ابرا ہیم افسر)، روہیل کھنڈ میں اردو افسانہ (فکشن تنقید۔ اطہر مسعود خان)، اردو ناول سمت و رفتار (فکشن تنقید۔ علی احمد فاطمی)، نارسائی (ناول۔ روبینہ فیصل)، نئے دھان کا رنگ (ناول۔علی امام)، بجھتے جلتے چراغ (ناولٹ۔ عارف نقوی)، غول (افسانچے۔ رقیہ جمال)، لکشمن کی آنکھیں (افسانچے ۔ رونق جمال)، رشید حسن خاں کے تحقیقی و تد وینی متعلقات ( تحقیق ۔مرتبہ ابراہیم افسر)، اذکار (خاکے۔بشیر مالیر کوٹلوی)، مظفر حنفی کے تبصرے (تبصرے۔مرتبہ فیروز مظفر)، باغ کا ایک اور دروازہ ( تنقید۔مرتبہ احسن ایوبی )، اختر کاظمی : شخصیت اور فن ( صحافت۔ مرتبہ عابد عثمان مومن)، ذکر تیرا بعد تیرے (تذکرے۔مرتبین نزہت جہاں قیصر، محمد خورشید اکرم سوز)، جاں نثارانِ وطن (تاریخ۔ شاہد صدیقی) اور ایسی ہی درجنوں دیگر کتابیں ۔ ختم ہوتے سال میں کئی نئے رسالے منظرِ عام پر آئے، پرانے رسالے بند ہوئے اور ’’آج کل‘‘ کا سائز چھوٹا ہوا۔
 اردو چینلس کی دھوم کچھ کم ہوئی۔ پاکستانی سیریل اور ہندوستانی فلموں کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا۔ آکاش وانی سے اردو پروگرام کم ہوئے۔ ایسا لگتا ہے آکاش وانی اور دور درشن میں اردو کے ساتھ کوئی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ آن لائن پروگراموں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ کئی ویڈیو چینلس آئے۔ سوشل میڈیا پر اردو کا چلن بڑھا۔ ریختہ، آوارگی ودھ دانش، ہم اور آپ، اردو چینل، حلقہ ارباب ِ ذوق، عالمی اردو پروفیسرز گروپ، چاک فکشن فورم، شعرو سخن، اردو کارواں ، بنات، ادب نما، دنیائے افسانچہ ، گلشن ِ افسانچہ، جہانِ افسانچہ ، بزم ِ افسانہ، بزم نثار، عالمی افسانہ فورم وغیرہ سال بھر چھائے رہے۔ دیکھتے دیکھتے یہ سال (۲۰۲۳ء) بھی گزر گیا۔ مگر گزرتے گزرتے اپنے قدموں کے نشان ثبت کر گیا۔کہنے کو تو یہ بارہ ورق کا ایک کیلنڈر ہوتا ہے مگر ۳۶۵؍ دنوں پر محیط سال کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ کورونا جیسی مہلک بیماری کے بعد پہلی بار ہم نے دیکھا کہ لوگوں نے ہر احتیاط یوں اٹھا دی گویا اسی کے انتظار میں تھے اور ہر پابندی سے عاجز آچکے تھے۔ سمیناروں کی باڑھ سی آگئی۔ مشاعرے تو اس طرح منعقد ہونے لگے، جیسے بارش کے بعد ہر طر ف سبزہ اگ جاتا ہے۔ اردو والوں کی بے حسی اس سال بھی قائم رہی۔وہ سیمیناروں اور مشاعروں تک محدود رہے جبکہ اردو پر کیا مصیبت نہیں گزری۔ اردو اداروں پر تلوار لٹکتی رہی۔ خاص کر قومی اردو کونسل کی بہت سی اسکیمیں بند ہو گئیں اور اردو والے اپنے مفاد اور خسارے کا حساب کرتے رہے ۔ اردو اکادمیاں غلط فیصلے کرتی رہیں اور اپنی مرضی سے کام کرتی رہیں ،اردو والوں نے کبھی ان کا محاسبہ نہیں کیا۔ پروگراموں کی مخالفت میں کبھی آواز بلند نہیں کی۔ کونسل، رامپور رضا لائبریری، خدا بخش لائبریری میں ڈائریکٹر کی اسامی بہت دنوں سے خالی ہے۔ اسکولوں ، کالجوں اور یونیور سٹیز میں بھی کئی اردو پوسٹ خالی ہیں مگر اردو والوں نے نہ آواز اٹھائی نہ پریشر بنایا۔ یہ اب ہماری عادت بنتی جارہی ہے۔ 
 اردو اخبارات کے پڑھنے والوں کی تعداد میں ہر سال کمی آتی جارہی ہے۔ بہت سے رسائل و جرائد بند ہوتے رہے۔ اردو والے، مشاعروں میں امڈنے والی بھیڑ دیکھ کر خوش ہوتے رہے۔اردو کے نام پر بڑے بڑے میلے منعقد ہونے لگے۔ جشن ِ ریختہ، جشن ِ اردو، جشن ِوراثت، جشن ِ بہار، اردو اکادمیوں کے میلے، بڑے بڑے سیمیناروغیرہ۔ آج کل جشن ِ ریختہ،پر بحث چھڑی ہوئی ہے۔ جشن ِریختہ میں بینرز اور ہورڈنگس پر اردو کی بجائے ہندی اور انگریزی رسم الخط میں تھے۔میرا خیال ہے کہ ایک ہی بینر میں اردو اور غیر اُردو زبان تحریر ہو سکتی ہے۔یا پھر کچھ بینرز اور ہورڈنگس اردو میں ، کچھ دیگر زبانوں میں ہوسکتے ہیں ۔ مگر اس ایک بات پر ریختہ کی مجموعی اردو خدمات پرپانی پھیر دیں ،ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ قومی اردو کونسل اور دیگر اردو اداروں کا بھی بہت ساکام اردو میں نہیں ہوتا۔ اردو درس گاہوں ،مدرسوں ،مساجد اور قبر ستانوں کا نام تک دیگر زبان میں لکھا ہوتا ہے۔شادی کارڈ اردو کے علاوہ دیگر زبان میں ہوتے ہیں ۔میں اس کی حمایت نہیں کر رہا بلکہ ایک زمینی حقیقت بتا رہا ہوں ۔اردو کے بہت سے شعبے ایسے ہیں ،جن کا نام دیگر زبان میں لکھا ہوتا ہے۔ راجدھانی اورشتابدی ایکسپریس اور ائیر پورٹ پر مسافر جس زبان کا اخبار مانگے، انہیں دیا جا نا چاہئے۔وہاں ہم نے کتنی بار اردو اخبار کی مانگ کی؟ اچھے ہوٹلوں میں کبھی ہم نے اردو اخبار مانگا؟ یا تو ہم ہر جگہ اپنی زبان کی حفاظت کیلئے کمر کس لیں یا پھر آج کے حالات سے تھوا بہت سمجھوتہ کریں اور دیگر زبانوں کے ساتھ اردو کے فروغ کا منصوبہ بنائیں ۔ ریختہ نے خود کنواں کھودا ہے اور اب وہ پانی ہم پی رہا ہے۔ہم میں بہت سے لوگ ہیں ،جو ریختہ جیسا کام کر سکتے ہیں ۔ آگے آئیں اور اردو کے فروغ کا کام کریں ۔ دوسروں پر تنقید سے بہتر ،اس سے اچھا اور بڑا کام کر کے دکھائیں ۔ ’نئے پرانے چراغ‘ دہلی اردو اکادمی کا اپنے طرز کا انوکھا ادبی میلہ ہے۔اس بار یہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انجینئرنگ کالج کے آڈیٹوریم میں منعقد ہواہے۔اس میں کوشش کی جاتی ہے کہ دہلی کے شعراء، افسانہ نگار، خاکہ نگار، ناقدین، طنزو مزاح نگار، سب اپنی تخلیق پیش کرسکیں ۔ 
 شمس الرحمٰن فاروقی اور گوپی چند نارنگ کو دنیا سے رخصت ہوئے بہت دن ہوئے مگر ابھی تک اردو کے کسی نقاد نے کسی نئے رجحان کی آواز بلند نہیں کی۔کیا ہم لوگ اب بھی جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے دور سے آگے نہیں نکلے ہیں ؟کیا ہر بیس پچیس برس بعد ادب میں کوئی نیا رجحان نہیں آتا؟ کیا ابھی تک مابعد جدیدیت کی موت واقع نہیں ہوئی؟ کیا مغرب میں کوئی نیا رجحان نہیں آیا؟ کیا اب ہمارے ناقدین کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے؟ ان جیسے بے شمار سوالات آج کے قارئین ،مصنفین اور ادب نوازوں کے دل ودماغ میں گردش کر رہے ہیں ؟
 ہر سال کی طرح اس سال بھی بے شمار شعری مجموعے ، افسانوی مجموعے، افسانچوں کے مجموعے، ناول، تنقیدی کتب، تحقیقی کتابیں ، دیگر زبانوں کے اردو میں تراجم، منٹو، غالب، اقبال، منشی پریم چند، سر سید ،مولانا آزاد اور دیگر شخصیات پر کتابیں شائع ہوئیں ۔ اس سال یوں تو بہت ساری کتابیں شائع ہوئیں لیکن کچھ کتابوں نے خاصی دھوم مچائی مثلاً بساطِ ہوائے دل (غزلیں ۔ دانش اثری)، جانِ شوریدہ (غزلیں ۔خوشبو پروین)، لالہ زار ( نظمیں ۔نذیر میرٹھی)، دو کنارے (نظمیں ۔سرور ساجد)، خواب نما (افسانے۔ غیاث الرحمٰن سید) بین کرتی آوازیں (افسانے۔نسترن احسن فتیحی)،گم شدہ خوابوں کی ایک رپورٹ (افسانے۔ اشعر نجمی)، فیضانِ محبت (افسانے۔ رینو بہل)، اردو ڈراما تاریخ و تجزیہ (تنقید۔ محمدکاظم)، سیاہ حاشیے اور حاشیہ آرائیاں (تنقید۔ اسلم پرویز)، اوراقِ علی گڑھ ( تنقید۔ابو سفیان اصلاحی)، اکیسویں صدی میں اردو شعریات( تنقید۔قدوس جاوید)، اردو صحافت اور اخبار ’ الجمیعۃ‘ (صحافت۔ ساجد علی)، احمد فراز کے انٹرویو (صحافت۔ مرتبہ ابرا ہیم افسر)، روہیل کھنڈ میں اردو افسانہ (فکشن تنقید۔ اطہر مسعود خان)، اردو ناول سمت و رفتار (فکشن تنقید۔ علی احمد فاطمی)، نارسائی (ناول۔ روبینہ فیصل)، نئے دھان کا رنگ (ناول۔علی امام)، بجھتے جلتے چراغ (ناولٹ۔ عارف نقوی)، غول (افسانچے۔ رقیہ جمال)، لکشمن کی آنکھیں (افسانچے ۔ رونق جمال)، رشید حسن خاں کے تحقیقی و تد وینی متعلقات ( تحقیق ۔مرتبہ ابراہیم افسر)، اذکار (خاکے۔بشیر مالیر کوٹلوی)، مظفر حنفی کے تبصرے (تبصرے۔مرتبہ فیروز مظفر)، باغ کا ایک اور دروازہ ( تنقید۔مرتبہ احسن ایوبی )، اختر کاظمی : شخصیت اور فن ( صحافت۔ مرتبہ عابد عثمان مومن)، ذکر تیرا بعد تیرے (تذکرے۔مرتبین نزہت جہاں قیصر، محمد خورشید اکرم سوز)، جاں نثارانِ وطن (تاریخ۔ شاہد صدیقی) اور ایسی ہی درجنوں دیگر کتابیں ۔ ختم ہوتے سال میں کئی نئے رسالے منظرِ عام پر آئے، پرانے رسالے بند ہوئے اور ’’آج کل‘‘ کا سائز چھوٹا ہوا۔
 اردو چینلس کی دھوم کچھ کم ہوئی۔ پاکستانی سیریل اور ہندوستانی فلموں کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا۔ آکاش وانی سے اردو پروگرام کم ہوئے۔ ایسا لگتا ہے آکاش وانی اور دور درشن میں اردو کے ساتھ کوئی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ آن لائن پروگراموں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ کئی ویڈیو چینلس آئے۔ سوشل میڈیا پر اردو کا چلن بڑھا۔ ریختہ، آوارگی ودھ دانش، ہم اور آپ، اردو چینل، حلقہ ارباب ِ ذوق، عالمی اردو پروفیسرز گروپ، چاک فکشن فورم، شعرو سخن، اردو کارواں ، بنات، ادب نما، دنیائے افسانچہ ، گلشن ِ افسانچہ، جہانِ افسانچہ ، بزم ِ افسانہ، بزم نثار، عالمی افسانہ فورم وغیرہ سال بھر چھائے رہے۔

اردو روزناموں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا لیکن ریڈر شپ میں کمی آئی۔ روزنامہ انقلاب، راشٹر یہ سہارا، صحافت، ہمارا سماج، آگ، اودھ نامہ، قومی تنظیم، اخبار ِ مشرق، سیاست، منصف، ممبئی نیوز، اردو ٹائمز، سالار، نیا نظریہ، لازوال، کشمیر عظمٰی، روشنی، تیسری دنیا، اڑان، آفتاب، تعمیل ارشاد، گھومتا آئینہ (آن لائن)، جیسے اخبارات اس سال بھی زور شور سے شائع ہوتے رہے۔ان میں سے کئی روزنامے حسب معمول ایک سے زیادہ شہروں سے نکلتے رہے۔ ویسے کورونا جیسے مہلک مرض نے اخبارات کے سر کولیشن کو بری طرح متاثر کیا۔اس سال سے ان اخبارات کی حالت میں کچھ حد تک بہتری آئی ہے۔
 اردو میں بھی اب بہت بڑے بڑے ایوارڈ ملنے لگے ہیں ۔ یہ سلسلہ خالد جاوید کے ناول ’’نعمت خانہ‘‘ سے شروع ہوا۔انہیں گزشتہ برس جے سی بی ایوارڈ ملاجو تقریباً ۲۵؍ لاکھ روپے کا تھا۔ اس میں دوسری زبانوں کے ناول بھی شامل تھے۔ ٹھیک اسی طرح بینک آف بڑودہ نے اپنا ایوارڈ شروع کیا۔ پہلا ہی ایوارڈ اردو کے ناول ’’اللہ میاں کا کارخانہ‘‘پر محسن خان کو اسی سال ملا۔ یہ ایوارڈ بھی تقریباً ۲۵؍ لاکھ روپے کا ہے۔ رواں ماہ (دسمبر ۲۳ء) میں صادقہ نواب سحر کو ان کے ناول ’’راجدیو کی امرائی ‘‘ پر ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کا اعلان ہوا ہے۔ اس سال کا پروفیسر نسیم نکہت فکشن ایوارڈ پروفیسر غضنفر کو ملا اور سید محمد اشرف کو ایوانِ غالب کا تخلیقی نثر کا ایوارڈ ملا۔ راقم کو ادبی خدمات کے اعتراف میں ٹاٹا اسٹیل کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 
  اس سال بھی بہت سے لوگ داغِ مفارقت دے گئے۔ شارب ردولوی، امام اعظم، مظہر سیانوی، سبرت رائے، انور نزہت، اطہر صدیقی، انور قمر، آچاریہ شوکت خلیل، ارشاد آفاقی، غلام نبی خیال، کرشن بھاوک، جمشید آذر، حسیب سوز، رہبر تابانی، شارق کفیل،نجم الہدیٰ، ناشاد اورنگ آبادی، احسان سیوانی، نسیم نکہت، سید ندیم احمد، شاہنواز قریشی، رشید قریشی، اختر یونس قدوائی، سید حسنین نقوی، ابوللیث جاوید، احمد حسن دانش، سمیرا حیدر، ابرار الحق، شہباز حسین، غلام حسین، ارتضیٰ ٰ نشاط، خواجہ محبوب الٰہی، الیاس اعظمی، یٰسین اختر مصباحی، سید رابع حسنی، الطاف اعظمی وغیرہ ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہو گئے۔آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔
 اس سال ہمارے کئی شعبہ ہائے اردواور اکادمیوں نے پچاس اور سو سال پورے کئے۔ اس موقع پر شاندار پروگرام منعقد ہوئے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے پروفیسر احمد محفوظ کی صدارت میں بہت سے رنگا رنگ پروگرام کئے۔ پچاس سال کے کارنامے اور قابل ذکر سابق طلباء کی فہرست جاری کی۔ اس مو قع پر ’’ ارمغان ‘‘ رسالے کے تازہ شمارہ، جو شعبۂ اردو کے پچاس برس کے کارناموں پر مبنی تھا، کا اجرا اس وقت کی شیخ الجامعہ پروفیسر نجمہ اختر کے ذریعہ ہوا۔ دوسری طرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو نے اپنے قیام کے سو برس پورے کئے۔
 اور بھی کئی پروگراموں کا انعقاد عمل میں آیا۔ پروفیسر محمد علی جوہر کی قیادت میں ایک بڑا سہ روزہ عالمی سیمینار منعقد ہوا۔ شعبۂ فارسی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نے جامعہ کے سو سال ہونے پر ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا۔ اترپردیش اردو اکادمی نے اپنی گولڈن جبلی منائی۔ صحافت کے دو سو سال ہونے پر اکادمی نے ایک شاندار سہ روزہ جشن منایا، ایک قومی سیمینار کا اہتمام کیا اور اپنے رسالے ’’ اکادمی‘‘ کا ایک خاص شمارہ صحافت پر شائع کیا ۔ 
 اس برس سوشل میڈیا کے استعمال میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ اردو پبلشرز نے اپنی تازہ کتابوں کے اشتہار کے لئے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔ اس میں کتاب دار ،ممبئی، عرشیہ پبلشرز، دہلی، میٹر لنک پبلشرز دہلی اور لکھنؤ،ایم آر پبلی کیشنز،دہلی،کتابی دنیا پاکستان، قاسمی کتب خانہ، جموں وغیرہ شامل ہیں ۔ اردو کی زیادہ کتابیں شائع کرنے کے معاملے میں اس سال بھی ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی نے بازی ماری اور کسی بھی ہندوستانی پبلشر سے زیادہ کتا بیں شائع کیں ۔پہلے پاکستانی کتابوں کیلئے اردو والے ترستے تھے، اب پاکستان کی مقبول کتابیں ہندوستان میں میٹر لنک پبلشر نے چھاپنی شروع کر دی ہیں ۔ کئی اخبار اور رسالے یا ان کے مالکان نے اپنے یا رسالے اور اخبار کے نام سے سوشل میڈیا پر گروپ بنا کر تشہیر کی۔ روزنامہ گھومتا آئینہ، روزنامہ حالات ،ہفت روزہ تنویر ادب، رسالہ زیست، بیسویں صدی، عالمی ادبستان، عالمی فلک، ثالث، چہار سو، تریاق، رنگ، استفسار، اردو جرنل وغیرہ۔ کئی شعبہ ہائے اردو نے سوشل میڈیا پر گروپ بنائے۔ شعبۂ اردو، پٹنہ یونیورسٹی، بی ایچ یو، مولانا آزاد اردو یونیورسٹی، میرٹھ یونیورسٹی، ممبئی یونیورسٹی، جموں یونیورسٹی وغیرہ کے علاوہ کچھ کالجز نے بھی اپنے گروپ بنائے۔
 اس سال بہت سے شعراء ،ادباء،ناقدین پرکتابیں آئیں اور رسالوں نے خاص نمبر شائع کئے۔شموئل احمد پر سہیل وحید کی کتاب’’ شموئل احمد کی تخلیقیت‘‘، ’’غضنفر شناسی ‘‘ (رمیشا قمر)، اسرار گاندھی : ایک منفرد تخلیق کار کے علاوہ شموئل احمد پر دربھنگہ ٹائمز، عالمی فلک، ثالث نے خاص نمبر اور گوشے شائع کئے۔ ’استفسار‘ نے نیر مسعود، ’نیا ورق‘ نے ساگر سرحدی ، ’ثالث ‘ نے منظر اعجاز پر گوشے اورخاص نمبر شائع کئے۔
 یوں مجموعی طور پر اردو کی حالت ٹھیک لگتی ہے لیکن اسکولوں ، کالجز اور یونیورسٹیز میں اردو پڑھنے والوں کی تعداد ہر سال کم ہو رہی ہے۔ اس کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ جب تک ہم اردو کے پودے کی جڑوں کو سیراب نہیں کرینگے، کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس کے لئے ہمیں پرائمری سطح پر زیادہ محنت کرنی ہوگی۔ہم سب کو ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا۔ اردو کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا ہوگا اوراردو اخبارات، رسائل و کتب خرید کر پڑھنا ہوں گے۔ مَیں یہ بات یہ جانتے ہوئے لکھ رہا ہوں کہ اہل اُردو اس جملے کے عادی ہوچکے ہیں ، اس پر عمل کرنا نہیں چاہتے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK