بصورت دیگر قیمتی جانوں کے اتلاف کے ساتھ ہی ملک کا ماحول بگاڑنے کے دوسرے ہدف میں بھی دہشت گرد کامیاب ہوجائیں گے، افسوس کہ اس جانب میڈیا کی توجہ ہےنہ حکومت کی بلکہ حکمراں محاذ کا حامی ٹولہ ہی ماحول بگاڑنے میں مصروف ہے۔
EPAPER
Updated: April 27, 2025, 2:31 PM IST | Asim Jalal | Mumbai
بصورت دیگر قیمتی جانوں کے اتلاف کے ساتھ ہی ملک کا ماحول بگاڑنے کے دوسرے ہدف میں بھی دہشت گرد کامیاب ہوجائیں گے، افسوس کہ اس جانب میڈیا کی توجہ ہےنہ حکومت کی بلکہ حکمراں محاذ کا حامی ٹولہ ہی ماحول بگاڑنے میں مصروف ہے۔
خبروں کو کھنگالنے کے دوران اچانک ایک ادھوری سرخی پر نظر پڑی تو خوش گمانی کے احساس کے ساتھ اس پر کلک کردیا۔ کلک کرنے سے قبل خبر کی جو ادھوری سرخی نظر آرہی تھی اس کا مطلب یہ تھا کہ پہلگام حملے کے پس منظر میں مرکزی حکومت نے میڈیا کو اجتناب کا مشورہ دیا ہے۔ گمان گزرا کہ شاید بعد از خرابیٔ بسیار حکومت نے ذرائع ابلاغ کو ذمہ دارانہ رپورٹنگ کا مشورہ دے ہی دیا ہے کہ وہ پہلگام کے حوالے سے خبر نگاری کرتے وقت خیال رکھیں کہ فرقہ واریت کو فروغ نہ ملے۔ افسوس کہ ایسا نہیں تھا۔ خبر میں میڈیا کیلئے ہدایت تو تھی مگر اس بات کی نہیں کہ وہ فرقہ وارایت کے فروغ سے گریز کریں بلکہ یہ تھی کہ دفاعی کارروائیوں کے براہ راست نشریات سے اجتناب کریں۔ وزیراعظم مودی اوران کی حکومت کی جانب سے اس طرح کی کسی ہدایت کی ضرورت اس لئے زیادہ تھی کہ منگل کو حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی جبکہ لوگ حملے کی نوعیت کو بھی پوری طرح سمجھ نہیں سکے تھے، بی جےپی کی چھتیس گڑھ اکائی نے’’دھرم پوچھا، ذات نہیں ‘‘ کے عنوان کے ساتھ حملے میں مارے گئے ایک نوجوان کی لاش ا ورا س کے پاس بے سدھ بیٹھی ہوئی اس کی بیوہ کی تصویر کا پوسٹر شیئر کرکے اشارہ دے دیاتھا کہ اس کیلئے یہ حملہ بھی اپنی سیاست کو چمکانے اور اس کے فروغ کا ایک ذریعہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بیوقوفانہ حرکت کی جب مذمت اور بڑے پیمانے پر تنقیدیں ہوئیں تو مذکورہ پوسٹر کو ’ایکس‘سے ڈیلٹ کردیاگیا مگر دوسرے دن بی جےپی کے رکن پارلیمان نشی کانت دوبے کا آئین کو بدل دینے اور اقلیتوں سے مذہبی آزادی کا ان حق چھین لینے کا بیان یہ ظاہر کررہاتھا کہ اپوزیشن تو اس معاملے میں اس قدر غیر معمولی ذمہ داری کا مظاہرہ کررہا ہے کہ وہ سیکوریٹی میں چوک پر بھی سوال اٹھانے سے گریز کر رہا ہےمگر حکمراں محاذ میں موجود عناصر خود کو قابو میں رکھنے میں ناکام ہیں۔ مغربی بنگال بی جےپی کے ریاستی اکائی کے صدر شوبھندو ادھیکاری کا رویہ بھی ظاہر کررہاہے کہ پہلگام میں ریاست کے ۳؍ سیاحوں کی موت کو وہ اپنی سیاست چمکانے اور ایک سال سے بھی کم عرصہ میں ہونےوالے اسمبلی انتخابات میں فائدہ اٹھانے کے موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
پہلگام میں دہشت گردوں کا نشانہ صرف وہ ۲۶؍ افراد نہیں تھے جنہیں اپنی جانیں گنوانی پڑیں بلکہ کشمیریت اور ہندوستانیت بھی ان کے نشانے پر تھی۔ یہ پہلا موقع ہے جب دہشت گردوں نے سیاحوں کو براہ راست نشانہ بنایا۔ ایک طرف جہاں سیاحوں کو نشانہ بنا کر کشمیر کی معیشت کی کمر توڑنے کی کوشش کی گئی وہیں مذہب پوچھ کر قتل کرکے دہشت گردوں نے ایک بڑا ہدف طے کیا۔ وہ یقیناً یہ چاہتے تھے کہ ملک بھر میں اس کا اثر محسوس کیا جائے۔ افسوس کہ ان کے اس ہدف کے حصول میں ان کے معاون وہ عناصر بنے ہوئے ہیں جو پہلگام حملے کے ذریعہ فرقہ وارانہ منافرت کو فروغ دے رہے ہیں۔
وزیراعظم مودی کا دورہ سعودی عرب مختصر کرکےہندوستان پہنچنا اور یہاں کابینہ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کی ہنگامی میٹنگ کی قیادت کرکے دہشت گردوں کی حمایت کی پاداش میں پاکستان کے خلاف سخت اقدامات کا اعلان یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس حملے کو جس طرح سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے تھا، حکومت اسی طرح اسے سنجیدگی سے لے رہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ حملے ۴؍ دن گزر جانے کے باوجود کیا اس کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی حقیقی پیش رفت ہوئی؟ حملے کے فوراً بعد یعنی دوسرے ہی دن ۳؍ افراد کے خاکے جاری کردیئے گئے اور بتایاگیا کہ یہ تینوں ان ۵؍ افراد میں شامل تھے جنہوں نے پہلگام میں منگل کی دوپہر ۱۰؍ سے ۱۵؍ منٹ میں ۲۶؍ بے قصوروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا مگر ان میں سے ایک کو بھی ۵؍ دنوں بعد بھی گرفتار نہ کرپانا مرکزی حکومت اور بطور خاص امیت شاہ کی تاریخی ناکامی ہیں جو خود کو سردار ولبھ بھائی پٹیل کے بعد خود کو ملک کا دوسرا مرد آہن کہلانے کے متمنی ہیں۔ یہ سوال اہم ہے کہ کشمیر جیسی ریاست میں جو دنیا کے ان علاقوں میں سے ایک ہے جہاں سب سے زیادہ فوجیوں کی موجودگی رہتی ہے، پہلگام کی بیسرن وادی میں ۲۶؍ افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے کےبعد حملہ آور کہاں غائب ہوگئے ؟ انہیں پکڑا کیوں نہیں جاسکا؟ چھاپے مارتے ہوئے ۴؍ دن گزر چکے ہیں مگر اب تک کوئی ایسی اطلاع نہیں ہے کہ کیس کو حل کرنے کی جانب کوئی اہم پیش رفت ہوئی ہو۔ ہاں اس بیچ سندھ آبی معاہدہ کو منسوخ کرنے کا اعلان کرکے عوام کو یہ تاثر ضرور دیا جارہاہے کہ حکومت پاکستان کے خلاف سخت اقدامات کررہی ہے مگر کم لوگ ہی یہ جانتے ہیں کہ سندھ آبی معاہدہ پر روک لگا دینے کے بعد بھی پاکستان جانے والے پانی کو روکنا اتنا آسان نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پانی کاکوئی موٹر ہے جسے بند کردیا اور پاکستان کو پانی جانا بند ہوجائے گا۔ یہاں معاملہ ۵؍ ندیوں کا پانی روکنے کا ہے۔ کیا ان ندیوں میں خاطر خواہ ڈیم موجودہیں کہ جن کو بند کرکے فوراً پانی روک دیا جائےگا یا پھر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرکے سالہاسال کی تعمیر کے بعد وہ ڈیم تیار کرنے پڑیں گے جن کے ذریعہ پاکستان کا پانی روکا جا سکے۔ ا س میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو دہشت گردی کی حمایت کی پاداش میں سخت سے سخت سزا ملنی چاہئے مگر سوال یہ ہے کہ ہم اپنی سرحدوں کی حفاظت میں ناکام کیوں ہیں ؟
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کوئی بھی ہندوستانی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے کبھی پلوامہ میں سی آر پی ایف کے ۴۰؍ جوانوں کو شہید کرکے چلا جاتا ہے تو کبھی پہلگام میں ۲۶؍ بے قصوروں کو موت کےگھاٹ اتار کر پورے ہندوستان میں فرقہ وارانہ منافرت کی آگ بھڑکا کر روپوش ہوجاتا ہے۔ پہلگام کے حوالے سے حکومت کا یہ عذر لنگ بھی اب جھوٹ ثابت ہوچکا ہے کہ بیسرن کی وادی کو پولیس کی اجازت کےبغیر سیاحوں کیلئے کھول دیاگیاتھا۔ یہ حقیقت کھل چکی ہے کہ مذکورہ وادی صرف اُن دنوں میں سیاحوں کیلئے بند رہتی ہے جب برف باری کی وجہ سے راستے مسدود ہوجائیں ور نہ یہ ہمیشہ سیاحوں کیلئے کھلی رہتی ہے۔
بہرحال پہلگام میں جو کچھ ہوا اس کی جوابی کارروائی صرف اتنی نہیں ہونی چاہئے کہ پاکستان کی چوڑی ٹائٹ کر دی جائے بلکہ ان اہداف کے حصول کو روکنا بھی حکومت ہند کی ذمہ داری ہے جو دہشت گرد بیسرن میں نام لے کرلوگوں کو نشانہ بناکر حاصل کرنا چاہتے تھے۔ کشمیر کے عوام نے اس معاملے میں اپنی ذمہ داری بحسن و خوبی نبھائی ہے۔ حملے کے بعد وہ کشمیر میں موجود سیاحوں کیلئے ڈھال بن کر کھڑے ہوگئے، ان کیلئے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیئے اور دہشت گردوں کو واضح پیغام دیا کہ مہمانوں پر ہاتھ اٹھانے والے ان کے بھی دشمن ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہندوستانی میڈیا اور حکومت ہند کشمیریوں کے اس پیغام کو ملک کے دیگر حصے میں عام کرتی تاکہ فرقہ وارانہ منافرت کا وہ ہدف دہشت گرد حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتے جو ان کیلئے مقصود تھامگر افسوس کہ ایسا نہیں ہورہاہے۔ البتہ سوشل میڈیا کے توسط سے مثبت پیغام ضرور عام ہورہاہے اور امید ہے کہ ملک کے عوام اسے سمجھیں اور محسوس کریں گے۔ یہ کشمیری عوام کی خوش اخلاقی ہی ہے کہ جن لوگوں نے اپنے چہیتوں کو کھویا ہے وہ بھی اہل کشمیر کی انسانیت دوستی کا دم بھرتے نہیں تھک رہے ہیں۔ ایسے میں ان نفرتی عناصر پر قدغن ضروری ہے جن کا اوڑھنا بچھونا ہی نفرت اور ہندو مسلم منافرت ہے۔