• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

طلبہ کی زندگی میں والدین اور اساتذہ

Updated: September 17, 2023, 1:43 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

اب تک دونوں کی ذمہ داری طے تھی۔ وہ یہ کہ اساتذہ کا فرض تھا طلبہ کو تعلیم دینا، اُنہیں پڑھانا اور امتحانات کیلئے تیار کرنا۔ والدین کی ذمہ داری تھی اپنے بچوں (طلبہ) کو تعلیمی وسائل فراہم کرنا اور اُن کی جملہ ضروریات کو پورا کرنا۔

Parents Pay Attention to Children`s Education.
والدین بچوں کی تعلیم پر توجہ دیں۔تصویر:آئی این این

اب تک دونوں  کی ذمہ داری طے تھی۔ وہ یہ کہ اساتذہ کا فرض تھا طلبہ کو تعلیم دینا، اُنہیں  پڑھانا اور امتحانات کیلئے تیار کرنا۔ والدین کی ذمہ داری تھی اپنے بچوں  (طلبہ) کو تعلیمی وسائل فراہم کرنا اور اُن کی جملہ ضروریات کو پورا کرنا۔ مگر اب اسے کل کی بات سمجھئے۔ آج کا تقاضا یہ ہے کہ اساتذہ جو خدمات انجام دے رہے ہیں  وہ تو اپنی جگہ ضروری ہیں  ہی، وہ اِن خدمات کو جاری رکھیں  گے مگر والدین بھی  ذمہ دار ہیں  اور اُن کی ذمہ داری محدود نہیں  ہے۔ اگر وہ چاہتے ہیں  کہ اُن کے بچوں  کی تعلیمی کارگزاری بہتر ہو اور وہ مختلف تعلیمی محاذوں  سے شاد کام لوَٹیں  تو اُنہیں  روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ مختص کرنا چاہئے اپنے بچوں  (طلبہ) کے ساتھ تعلیمی اُمور پر گفتگو کیلئے اور اگر اُنہیں  پڑھائی لکھائی میں  کوئی دقت ہے تو اُسے دور کرنے کیلئے۔ 
 بہت سے گھروں  میں  یہ نظم ہے۔ مائیں ، بچوں  کو لے کر بیٹھتی ہیں  تاکہ جائزہ لے سکیں  کہ اسکول میں  کیا پڑھایا گیا۔ اگر کچھ ہوم ورک دیا گیا ہے تو اُس کی تکمیل میں  بچوں  کی مدد کرنا وہ اپنی اخلاقی ذمہ داری تصور کرتی ہیں ۔ والد صاحب یہ کردار ادا کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں  کیونکہ اُنہیں  معاشی ذمہ داریاں  پوری کرنی ہوتی ہیں ۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ مائیں  بھی بچوں  کی پڑھائی لکھائی کی فکر اور ہوم ورک میں  مدد کا فریضہ تبھی تک انجام دیتی ہیں  جب تک بچے چھوٹے ہوتے ہیں ۔ جیسے ہی وہ اعلیٰ جماعتوں  کا رُخ کرتے ہیں  مائیں  سمجھتی ہیں  کہ اب وہ سمجھدار  ہوچکے ہیں  اس لئے اب زیادہ سر کھپانے کی ضرورت نہیں  ہے۔ 
 دراصل طالب علم کو جتنی ضرورت اُستاد کی ہوتی ہے اُتنی ہی والدین کی ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ یہاں  والدین کہا گیا ہے صرف والدہ نہیں ۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جتنی ضرورت اساتذہ کی ہوتی ہے اُس سے کچھ زیادہ ہی والدین کی ہوتی ہے کیونکہ طالب علم کو اُستاد سے زیادہ ماں  باپ جانتے ہیں ۔ اُنہیں  علم ہوتا ہے کہ وہ کتنا زود رنج ہے، کب پڑھائی لکھائی پر آمادہ ہوتا ہے، کب کھانا کھانا پسند کرتا ہے، کب سوتا ہے، کب جاگتا ہے، اُس کی ترجیحات کیا ہیں ، دوستوں ، پڑوسیوں ، رشتہ داروں   اور اہل خانہ سے اُس کا تعلق کیسا ہے۔ ان حوالوں  سے وہی طالب علم کے ذہن و دل سے واقف ہوتے ہیں ۔ اسی لئے اگر وہ طالب علم کے ساتھ پڑھائی لکھائی کے معاملات کیلئے وقت صرف کریں  تو طالب علم کو حوصلہ ملے گا، ماں  باپ کی فکرمندی کا احساس ہوگا اور اُس میں   نفسیاتی بگاڑ کا خطرہ نہیں  رہے گا۔
 دوسرے لفظوں  میں  کہا جاسکتا ہے کہ اساتذہ کا کام طلبہ کو پڑھانا ہے اور والدین کا کام اُنہیں  سنبھالنا ہے۔ اساتذہ کا کام طلبہ کو امتحانات کیلئے تیار کرنا ہے اور والدین کا کام اُن کی اخلاقی پشت پناہی ہے۔ دورِ حاضر میں  طلبہ کے نفسیاتی بگاڑ اور اس کے سبب انتہائی قدم اُٹھانے کی خبریں  کیوں  آرہی ہیں ؟ اس کی مختلف وجوہات میں  سے ایک ہے والدین کے ذریعہ اُن کا اساتذہ کے حوالے کردیا جانا اور خود کو تعلیمی وسائل فراہم کرنے تک کا محدود کرلینا جبکہ اب حالات بدل چکے ہیں ۔ سوشل میڈیا اُن پر کئی زاویوں  سے اثر انداز ہے۔ وہ سامنے بیٹھے ہوں  تب بھی کوئی نہیں  جان سکتا کہ اُن کے ذہن ودل میں  کیا چل رہا ہے۔اسی لئے اب والدین پر بھی برابر کی ذمہ داری ہے۔ تربیت تو اُن کا فرض ہے ہی، تعلیم میں  بھی اُن کی معاونت ضروری ہوگئی ہے۔یہ کردار اُنہیں  لازماً ادا کرنا چاہئے۔

education Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK