دین کے آفاقی پیغام کی دعوت و اشاعت سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں ذرائع ابلاغ کے بغیر ممکن نہیں ہے اس لئے کہ آج کے دور میں نئی ایجادات نے زندگی کے مختلف شعبوں میں غیر معمولی تبدیلیاں پیدا کی ہیں، جدید ذرائع ابلاغ ہر گھر تک بلکہ فرد فرد تک پہنچ گئے ہیں۔
دین کی دعوت کے لئے جدید ذرائع ابلاغ کا نہایت مفید استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تصویر: آئی این این
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارا لوگوں کو) پہنچا دیجئے۔ ‘‘
(المائدہ:۶۷)
اسی طرح فرمایا:
’’(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے۔ ‘‘ (النحل:۱۲۵)
اور ایک جگہ فرمایا گیا:
’’تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے۔ ‘‘
(آل عمران: ۱۱۰)
دین اسلام پوری دنیا اور تمام نوع انسانی کی کامیابی و کامرانی کیلئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کائنات کا خالق و مالک ہے اور اس کی ہر چیز اس کی عظمت کی گواہی دیتی ہے۔ جو شخص دین اسلام کو قبول کرتا ہے، اس پر یہ امر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ حق کے پیغام کو دوسروں تک پہنچائے۔ اسلام ایک جامع دین ہے جو رہتی دنیا تک کے لئے ہے، اسلئے دین اسلام کی دعوت اور اس کی خوبیوں کو اس چمنستان عالم کے کونے کونے میں پہنچانا اور پھیلانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس کی ادائیگی میں جدید ذرائع ابلاغ کا نہایت مفید استعمال کیا جا سکتا ہے۔
دین کے آفاقی پیغام کی دعوت و اشاعت سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں ذرائع ابلاغ کے بغیر ممکن نہیں ہے اس لئے کہ آج کے دور میں نئی ایجادات نے زندگی کے مختلف شعبوں میں غیر معمولی تبدیلیاں پیدا کی ہیں، جدید ذرائع ابلاغ ہر گھر تک بلکہ فرد فرد تک پہنچ گئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے دعوت دین کاثبوت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ سے بھی ملتا ہے۔ جب رسولؐ اللہ کو نبوت عطا کی گئی تو آپؐ نے اپنی دعوت کا آغاز صفا کی چوٹی سے کیا۔ یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں تھا، بلکہ یہ اہل مکہ کا طریقہ تھا کہ جب بھی اہم معلومات کا اعلان کرنا ہوتا، اسی مقام سے کیا جاتا تھا۔ اس طرح لوگ جمع ہو کر آپؐ کے پیغام کو سنتے تھے۔ یہ اس دور میں مکہ کا سب سے بڑا ذریعۂ ابلاغ تھا۔
آپؐ حج کے موقع پر بھی دعوتِ اسلام کا کام کیا کرتے تھے، حالانکہ اس وقت بہت سی برائیاں رائج تھیں۔ آپ لوگوں کو حق کی دعوت پہنچاتے تھے، اور اسی مناسبت سے اہل مدینہ نے اسلام قبول کیا۔ یہ اجتماعات اس وقت کے طاقتور ذرائع ابلاغ سے فائدہ اٹھانے کی بہترین مثال ہیں۔ آج بھی اس کی پیروی کرنا ہماری ذمہ داری ہے کہ اس سے دعوت کا کام آسان ہوجاتا ہے۔
اسلام نے ہمیشہ فکر و نظر کی آزادی کا احترام کیا ہے اور ہر شخص کو اپنی بات رکھنے کا حق دیا ہے۔ اسلامی تاریخ میں ایسے واقعات موجود ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسلام نے حریتِ رائے کے تصور کی کتنی شدت سے پرورش کی۔ غزوۂ اُحد اور غزوۂ خندق میں صحابہ کرامؓ کے مشوروں کا احترام کیا گیا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں رائے کی آزادی کا بڑا مقام ہے۔
آج کل مباحثوں اور مذاکروں کا انعقاد بھی ہوتا ہے، جہاں مختلف موضوعات پر گفتگو کی جاتی ہے۔ اسلام نے اس قسم کی مباحثوں کی آزادی دی ہے، بشرطیکہ وہ تعمیری ہوں اور کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح نہ کریں۔
اسلام نے کسی کی نجی زندگی میں مداخلت سے منع کیا ہے، لیکن اگر کسی کے عمل سے مفادِ عامہ متاثر ہوتا ہو تو اس کا پردہ فاش کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع ابلاغ عوام کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور حمایت و مخالفت کے اصول بھی مقرر کئے گئے ہیں۔
خطیب الاسلام حضرت مولانا محمدسالم صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ ذرائع ابلاغ کی مثال چھری سے دیتے تھے کہ اس کے ذریعے پھل بھی کاٹے جا سکتے ہیں اور کسی کی جان بھی لی جا سکتی ہے۔ اسی طرح میڈیا ظلم و ستم کی حمایت کر سکتا ہے یا مصلح کا کردار بھی ادا کر سکتا ہے۔ اس لئے ذرائع ابلاغ کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں ہمیشہ اس کی ذمہ داریوں کا خیال رکھنا چاہئے۔