• Thu, 19 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

خواتین کیلئے مفت سرکاری اسکیموں کی سیاست!

Updated: December 18, 2024, 11:38 PM IST | Dr. Mushtaq Ahmed | Mumbai

مہاراشٹر میں بھی مدھیہ پردیش کی طرح لاڈلی بہن یوجنا اور جھارکھنڈ میں ’’میّا‘‘ اسکیم انتخابی عمل سے محض دو تین ماہ پہلے شروع کی گئی ۔اس پر فوری عمل بھی ہوا اور لاکھوں خواتین کے کھاتے میں اعلانیہ رقم بھیجی گئی ۔

Women
خواتین

 کسی بھی جمہوری ملک میںانتخابی عمل کے دوران ووٹ دہندہ کے لئے فلاحی وعدوں کا چلن عام ہے۔ ہر ایک سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور میں طرح طرح کے وعدے کرتی ہیں ۔یہ اور بات ہے کہ دنیا کے ایک بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں حالیہ چار پانچ دہائیوں کے قومی اور ریاستی انتخابی عمل کا جائزہ لیجئے تویہ تلخ حقیقت خود بخود عیاں ہو جاتی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنے انتخابی منشور میں اعلامیہ وعدوں کو پورا نہیں کیا ہے اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ اب انتخابی عمل مذہبی منافرت اور اشتعال انگیزی کی بنیاد پر ہونے لگے ہیں ۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ علاقائیت کے فروغ اور ذات پات کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے کی روش بھی مستحکم ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں اب نہ قومی انتخاب اور نہ ریاستی انتخاب عوامی مسائل کے حل کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔اس کا خمیازہ ملک کے غریب اور پسماندہ طبقے کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ آزادی کی آٹھ دہائی مکمل ہونے کو ہے لیکن ملک میں اب بھی ۸۰؍ کروڑ سے زائد افراد مفت راشن کی بدولت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ 
 بہر کیف! ایک جمہوری ملک میں عوام کے لئے فلاحی اسکیموں کی ضرور ت تو ہے لیکن ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جس طرح مفت سرکاری اسکیموں کے ذریعہ انتخابی عمل کو متاثر کیا جا رہاہے وہ جمہوریت کی صحت کے لئے مضر ثابت ہو سکتا ہے۔اس وقت ملک میں ایک نئی سیاسی پہل شروع ہوئی ہے کہ ٹھیک انتخابی عمل سے پہلے طرح طرح کی مفت سرکاری اسکیموں کا اعلان کیا جانے لگتا ہے اور اس سے کسی خاص سیاسی جماعت کو انتخابی فائدہ بھی مل رہا ہے۔ بالخصوص جب سے خواتین کے لئے مفت سرکاری اسکیموں کی روش شروع ہوئی ہے اور نقد رقم دینے کی بدولت انتخابی نتائج میں فائدہ نظر آیا ہے اس کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس طرح کی مفت اسکیموں کے اعلان کا سلسلہ جاری ہے۔خواتین کو خود مختار بنانا اور بالخصوص غریب طبقے کی خواتین کو معاشی طورپر پریشانیوں سے نجات دلانا اچھی پہل ہو سکتی ہے لیکن عین انتخابی عمل کے دوران صرف اور صرف ووٹوں میں اضافے کی خاطر مفت ریوڑیاں تقسیم کرنا کسی بھی طورپر ایک جمہوری ملک کے لئے مفید نہیں کہا جا سکتا ہے۔جہاں حکمراں جماعت اس طرح کی مفت اسکیموں کا اعلان کرتی ہے وہاں فوراً نقد رقم بذریعہ بینک ادائیگی کا عمل شروع ہو جاتاہے اور اس کا فائدہ حکمراں جماعت کو ملتا ہے اس کا کھلا ثبوت مدھیہ پردیش ہے ۔ جہاں ریاسی اسمبلی الیکشن میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان نے ’’لاڈلی بہن یوجنا‘‘ کا آغاز کیا اور اس کی وجہ سے وہاں کی حکمراں جماعت کو ایک تاریخی سیاسی فتح حاصل ہوئی ۔اس آزمودہ فارمولہ کو حالیہ اسمبلی انتخاب مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں بھی اپنایا گیا کہ ان دونوں جگہوں پر اسی طرح کی مفت اسکیم کا اعلان ہوا ۔ مہاراشٹر میں بھی مدھیہ پردیش کی طرح لاڈلی بہن یوجنا اور جھارکھنڈ میں ’’میّا‘‘ اسکیم انتخابی عمل سے محض دو تین ماہ پہلے شروع کی گئی ۔اس پر فوری عمل بھی ہوا اور لاکھوں خواتین کے کھاتے میں اعلانیہ رقم بھیجی گئی ۔ ان دونوں جگہوں پر اس اسکیم کے اثرات نمایاں ہوئے ہیں ۔ اب بہار میں بھی حزب اختلاف راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر بہار کے سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو کی طرف سے ’’مائی بہن اسکیم‘‘ کا اعلان کیا جا رہاہے کہ اگر آئندہ ۲۰۲۵ءمیں ان کی جماعت کو اکثریت حاصل ہوتی ہے اور حکومت تشکیل پاتی ہے تو وہ غریب طبقے کی خواتین کو ۲۵۰۰؍ روپے ماہانہ دیں گے۔ اسی طرح ضعیف العمر پنشن کی رقم چار سو کی جگہ پر ایک ہزار دے گی۔ تیجسوی یادو نے بیروزگاری بھتہ اور معذور بھتہ میں بھی خاطر خواہ اضافے کا اعلان کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ تیجسوی یادو کو یقین ہے کہ جس طرح مدھیہ پردیش ، مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں اس طرح کی اسکیموں کی وجہ سے وہاں کی سیاسی جماعتوں کو فائدہ ہوا ہے اگر وہ بہار میں اس طرح کا اعلان کرتے ہیں تو اس کا فائدہ ان کی پارٹی کو ملے گا ۔ مگر سوال یہ ہے کہ مذکورہ تینوں ریاستوں میں تو حکمراں جماعت نے اعلان کیا اور فوراً اس پر عمل بھی کیا کہ اعلان کے مطابق خواتین کے کھاتوں میں رقم بھیجی جانے لگی لیکن اس وقت تیجسوی یادو کی وہ پوزیشن نہیں ہے کہ وہ اپنے اس اعلان کو عملی جامہ پہنا سکیں اس لئے اس خوش فہمی میں رہنا کہ اعلان کا انتخابی عمل پر بہت بڑا اثر ہوگا ۔ میرے خیال سے اس کا نقصان بھی ہو سکتا ہے کہ اگر حکمراں جماعت نے کوئی نئی مفت اسکیم شروع کردی اور اس پر عمل بھی ہونے لگا تو پھر یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوگا کہ اس کا فائدہ حزب اختلاف کو مل سکتا ہے۔ گزشتہ پارلیمانی انتخاب میں اسی طرح کا اعلان کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے ذریعہ بھی کیا گیا تھا کہ اگران کی حکومت تشکیل پائی تو خواتین کے بینک کھاتوں میں ’’کھٹاکھٹ، کھٹاکھٹ‘‘ رقم پہنچنے لگے گی اس وقت اس اعلان کا بھی بہت شور ہواتھا لیکن نتیجہ کیا نکلا وہ سامنے ہے۔
 دراصل حکمراں جماعت جب اس طرح کی مفت سرکاری اسکیموں کا اعلان کرتی ہے تو وہ فوراً اس پر عمل کرتی ہے اور چوں کہ اس ملک میں آہستہ آہستہ انتخابی عمل مشکوک ہونے لگے ہیں ایسے وقت میں اکثریت کو یہ احساس ہو گیاہے کہ ان کے ذریعہ ووٹ دینے اور نہ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑ رہاہے کیوں کہ حال ہی میں مہاراشٹر کے ایک گائوں نے ایک تاریخی قدم اٹھایا کہ انتخابی نتائج کے بعد اس گائوں کے لوگوں کو یہ محسوس ہوا کہ یہاں کے لوگوں نے جس سیاسی جماعت کو بالکل ووٹ نہیں دیا تھا اس سیاسی جماعت کو گائوں کے حمایتی امیدوار سے زیادہ ووٹ ملا تھا۔ غرض کہ اس طرح کے غیر یقینی اور مشکوک ماحول میں یہ روش عام ہو رہی ہے کہ ’’جو ہاتھ آیا وہی ساتھ آیا‘‘ ۔بالخصوص خواتین کے لئے نقد رقم کی اسکیمیں زیادہ اثر دکھا رہی ہیں اس لئے الگ الگ ریاستوں میں سیاسی جماعتوں کے ذریعہ اس طرح کی اسکیموں کا اعلان کیا جا رہاہے۔ میرے خیال میں مفت پانے اور حرص کی عادت ایک جمہوری ملک کے مستقبل کیلئے تابناک اشارہ نہیں ہے اس پر بھی تمام تر سیاسی مفاد سے بالا تر ہو کر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ محض انتخابی فائدے کیلئے اپنی جمہوری شناخت کو ہم مسخ تو نہیں کررہے ہیں ؟ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK