• Sun, 12 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

سو ِل سروسیز میں بہترکارکردگی کیلئے وسائل کی فراہمی کیلئے مثبت فکر کی ضرورت ہے

Updated: January 12, 2025, 6:44 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

گزشتہ ۲؍ دہائیوں سے سوِل سروسیز امتحان کے نتائج آنے پر یہ دیکھا جانے لگا ہے کہ کامیاب طلبہ میں مسلم نوجوانوں کا تناسب کتنا ہے اور پھر اسپر تبصرے بھی ہوتے ہیں۔ نتیجہ خوشگوار رہا تو جشن کا سماں بندھ جاتا ہے

In the ninth grade, we should show our children the dream of UPSC and start preparing for it from the first day of the eleventh grade. Photo: INN
نویں جماعت میں ہم اپنے بچّوں کو یوپی ایس سی کا خواب دکھائیں اور گیارہویں جماعت کے پہلے دن سے اُس کی تیاری شروع کردیں۔ تصویر: آئی این این

گزشتہ ۲؍ دہائیوں سے سوِل سروسیز امتحان کے نتائج آنے پر یہ دیکھا جانے لگا ہے کہ کامیاب طلبہ میں مسلم نوجوانوں کا تناسب کتنا ہے اور پھر اسپر تبصرے بھی ہوتے ہیں۔ نتیجہ خوشگوار رہا تو جشن کا سماں بندھ جاتا ہے اور اگر نتیجہ اچھا نہ ہو تو مایوسی بھی چھاجاتی ہے۔ پھر اُس پر ہمارے محلّوں کے چوپالوں سے لے کر الیکٹرانی چوپال یعنی سوشل میڈیا پر بحث اور کمینٹس شروع ہوجاتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس پر اکثر تبصرے سطحی ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرہ کے چند افراد اس موضوع پر سنجیدہ غوروفکر کرتے بھی ہیں مگر دل ہی دل میں۔ وہ اپنے اُن خیالات کو اس اہم امتحان کیلئے لائحہ عمل وغیرہ کی تیاری وغیرہ کے حوالے سے تعلیمی و سماجی حلقوں یا عوام تک پہنچانا اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے۔ آج آئیے اس ضمن کے جملہ معاملات کا جائزہ لیں :
اول تو سوِل سروسیز امتحان کی اہمیت کو سمجھ لیں۔ اس ضمن میں ہم چند انتہائی اہم باتیں کہنا چاہیں گے:
(۱) صرف اسی امتحان کے ذریعے ہمارے ملک کی اقلیتیں ملک کی پالیسی سازی میں حصہ دار بن سکتے ہیں۔ 
ّ(۲)یہ واحد امتحان ہے جس میں نا اہل (یا ناکام) ہونے میں بھی فائدہ ہے یعنی ہاتھی مرا بھی تو سوا لاکھ کا، کیوں کہ اس امتحان کی تیاری میں طالب علم کو تاریخ، جغرافیہ، سیاسی سائنس، شہریت، معاشیات، حالاتِ حاضرہ، ادب، ذہنی آزمائش، منطق، نفسیات، عمرانیات، فلسفہ، جدید ٹیکنالوجی، اسپورٹس وغیرہ کے تعلق سے اتنی ساری معلومات حاصل ہوجاتی ہے جو اسکول و کالج کے ۱۵؍برسوں میں حاصل کئے گئے علم سےکم از کم پچاس گنا زیادہ ہوتی ہے۔ 
 اس قدر اہمیت کے حامل اس امتحان میں ہمارے طلبہ کا نتیجہ غیر اطمینان بخش، کمزور اور کبھی کبھی انتہائی مایوس کُن کیوں ہوتا ہے؟ آئیے اس کی وجوہات کا جائزہ لیں :
nسِوِل سروسیز کے امتحان کی اہمیت کے تعلق سے ہماری قوم میں بیداری کیلئے کوئی تحریک نہیں چلی۔ کچھ لوگ تو اِن کوششوں کا یہ کہہ کر مذاق بھی اُڑاتے رہے کہ حکومتی ملازمتوں کیلئے ہم اس دنیا میں نہیں آئے ہیں۔ ایسے لوگوں  نے یہ سوچنے اور سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کی کہ ہماری قوم کے سارے نوجوانوں کو ہم کہاں کہہ رہے ہیں کہ وہ سوِل سروسیز سے جڑجائیں البتہ ہر ملک میں پالیسیوں کی تیاری کیلئے فیصلہ کن رول ادا کرنے والے افسران ہرملک کی ہر پالیسی میں سب سے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور وہاں پر ہماری قوم کی نمائندگی بہر حال ضروری ہے۔ 
سوِل سروسیز کے اس اہم امتحان کے تعلق سے جو تھوڑی بہت معلومات تھی بھی توہ وہ صرف خواص یا اشرافیہ تک محدود رہی اور وہ ’خواص ‘عوام النّاس کے سامنے اس امتحان کے تعلق سے صرف ٹھنڈی آہیں بھرتے رہے البتہ وہ نفسا نفسی کے ایسے شدید مریض تھے کہ اُنھوں نے وہ ساری معلومات اپنے بچّوں تک محدود رکھی۔ 
nاس امتحان کے تعلق سے عام رائے یہ قائم رہی ہے کہ یہ بے حد مشکل امتحان ہے اور اس کا نتیجہ بے حد کمزوررہتا ہے۔ اس ضمن میں طلبہ کو خوفزدہ کرنے کیلئے ہمیشہ غیر منطقی تجزیہ بھی پیش کرتے رہتے ہیں کہ اس امتحان میں ملکی سطح پر کم و بیش ۱۰؍ لاکھ طلبہ شریک ہوتے ہیں اُن میں سے مین امتحان میں ایک لاکھ پہنچتے ہیں، انٹرویو میں صرف ۳؍ہزار اور اُن میں سے صرف ایک ہزارکاہی فائنل انتخاب ہوتا ہے۔ 
 یہ اعداد و شمار محض فرضی ہیں کیوں کہ اُن ۱۰؍لاکھ طلبہ میں سے صرف ایک لاکھ طلبہ نے اس امتحان کی پوری معلومات حاصل کی تھی اوراُن میں سے صرف ۱۰؍ ہزار طلبہ بے حد سنجیدگی اور دل جمعی سے اُس کی تیاریکی، نصاب کا پورا مطالعہ کیا، ضروری کتابوں سے استفادہ کیا، اپنے نوٹس تیار کئے اور کامیاب و ناکامیاب طلبہ سے ملاقاتیں کرتے رہے، الیکٹرانک میڈیا کا صحیح استعمال کیا، ۵۰-۶۰؍ فرضی انٹرویودیئے اور اُن میں سے ۱۰؍ فیصد یعنی ایک ہزار طلبہ اگر منتخب ہوتے ہیں تو یہ رزلٹ بُر انہیں ہے۔ لہٰذا اس امتحان کے ضمن میں صحیح تجزیہ یہ نہیں ہے کہ (صرف فارم بھرنے والے) ۱۰؍لاکھ طلبہ میں سے ایک ہزار طلبہ کاانتخاب ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صحیح سمت میں خوب خوب محنت کرنے والے اوربرسہابرس سے اس امتحان کواپنا ہدف بنانے والے ۱۰؍ہزار طلبہ میں سے ایک ہزار طلبہ کامیاب ہوتے ہیں۔ 
سوِل سروسیز کے امتحان میں ہماری قوم میں سب سے بڑی غفلت یہ ہے کہ ہمارے طلبہ اسکول کی سطح پر اس امتحان کو ہدف بنانا درکنار اُس کا خواب تک نہیں دیکھتے۔ ہمارے کچھ طلبہ جونیئر کالج کی سطح پر اس کی باتیں کرنا شروع کرتے ہیں۔ کچھ گریجویشن کی سطح پر پہنچنے کےبعد اس کی معلومات حاصل کرتے ہیں اور اُن میں سے اکثریت کا رویّہ ’’چلو قسمت آزماتے ہیں ‘‘ والا ہوتاہے۔ 
ہمارے چند طلبہ جو پُرجوش اور کچھ ’ہٹ کر‘ سوچنے والے ہوتے ہیں، وہ جو روایتی ڈگر سے سوچنے والے ہوتے ہیں، اگر سوِل سروسیز کی بات کرنے لگتے ہیں تو اُنھیں بہکی بہکی باتیں کرنے والا قرار دیا جاتا ہے۔ دراصل اس امتحان اور اُس کے سسٹم کے تعلق سے ہمارے نوجوانوں کو ہمیشہ خوف میں مبتلا کیا جاتا ہے اور کامیابی کے حوالے سے پہلے اندیشوں  میں   مبتلا کردیا جاتا ہے۔ 
سوِل سروسیز کی تیاری کرانے والے ہمارے اکثر مراکز کے ذمہ داران سینئر کالجوں کے چکّر کاٹتے اور وہاں پر طلبہ کی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آٹھویں اور نویں جماعت میں ہم اپنے بچّوں کو یوپی ایس سی کا خواب دکھائیں اور گیارہویں جماعت کے پہلے دن سے اُس کی تیاری شروع کردیں۔ جونیئر کالج میں ہر روز ۴؍ گھنٹے اور پھر سینئر کالج میں ہر روز ۵؍تا چھ گھنٹے تیاری کرائی جائے۔ گریجویشن کے بعد بچّوں کو اس اہم اور محنت طلب امتحان کی طرف راغب کرنے میں بہر حال خوب دیری ہوچکی ہوتی ہے کیوں کہ اُس وقت تک (الف) طالب علم کا ذہن کرپٹ ہوچکا ہوتا ہے(ب) اُس کے دوست دنیا بھر کے دیگر متبادل پیش کرچکے ہوتے ہیں (ج) والدین و رشتہ دار ’چولہا چکّی‘ کا حوالہ دے کر اُسے جھٹ پٹ کرئیر پر آمادہ کرچکے ہوتے ہیں (د) ذہن میں کچھ اس قدر ملاوٹ ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے ہدف سے بھٹک جاتے ہیں۔ 
آج بھی ہمارے اسکولوں میں وِزِٹ، سیر کا مطلب ہے چڑیا گھر، آبشار وغیرہ کی سیر ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ۸؍ جماعت کے بعد کے طلبہ کو ہم اُن مراکز کی سیر کرائیں جہاں مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کرائی جاتی ہے۔ اگر۱۰؍فیصد طلبہ اس سے تحریک پائیں تو یہ بڑا کام ہوجائے گا۔ ایسے کسی اقدام کے فقدان کی بناء پر ہمارے کئی گریجویٹس کو یوپی ایس سی کا فُل فارم تک معلوم نہیں رہتا اور اُن کے مدِّ مقابل دوسری قوم کے ساتویں جماعت کے طلبہ سِوِل سروسیز کے ذریعے ملک کی پالیسی سازی کے حصّے دار بننے کا خواب سجا رہے ہوتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK