موجودہ دور میں انسانی زندگی عجیب و غریب تضادات کا مجموعہ بنی ہوئی ہے۔ اسی کرہ ارض پر انسان خوشحال بھی ہے بدحال بھی۔ خوشحال ہے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ سکون والی خوشحالی ہے یا بے سکونی کے شب و روز ہیں جو خوشحالی کا مذاق اڑاتے ہیں
EPAPER
Updated: November 06, 2023, 1:14 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
موجودہ دور میں انسانی زندگی عجیب و غریب تضادات کا مجموعہ بنی ہوئی ہے۔ اسی کرہ ارض پر انسان خوشحال بھی ہے بدحال بھی۔ خوشحال ہے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ سکون والی خوشحالی ہے یا بے سکونی کے شب و روز ہیں جو خوشحالی کا مذاق اڑاتے ہیں
موجودہ دور میں انسانی زندگی عجیب و غریب تضادات کا مجموعہ بنی ہوئی ہے۔ اسی کرہ ارض پر انسان خوشحال بھی ہے بدحال بھی۔ خوشحال ہے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ سکون والی خوشحالی ہے یا بے سکونی کے شب و روز ہیں جو خوشحالی کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ بدحالی ہے تو یہ سمجھنا ہوگا کہ کس درجہ کی ہے۔ عالمی حکمرانوں کو، جن کی زندگی مفادات کی نگرانی میں گزرتی ہے، اپنے مفادات سے غرض ہوتی ہے، اپنے عوام کے مفادات سے نہیں ۔ عوام کی فکر ہوتی تو مالدار سمجھے جانے والے امریکہ میں ایک بھی گداگر دکھائی نہ دیتا۔ اس ملک میں ایک فیصد بمقابلہ ننانوے فیصد کی وہ لڑائی بھی نہ ہوتی جس کی وجہ سے لوگ سڑکوں پر آگئے تھے۔ اس سلسلے میں کئی اور ملکوں کی بھی مثال دی جاسکتی ہے۔ مقصد مثالیں جمع کرنا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ عدم مساوات اور پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے جس میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔ جو لوگ اسے کم یا ختم کرنے کی کوشش میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں وہ برخلاف کام کررہے ہیں بلکہ ان کی سرپرستی میں یہ سب ہورہا ہے۔
ہماری نظر میں اس نابرابری اور عدم مساوات کے دو بڑے اسباب ہیں ۔ پہلا نسلی تفاخر اور دوسرا حریصانہ ذہنیت ہے۔ یہاں نسلی تفاخر کو اس لئے سبقت دی گئی ہے کہ کئی ملکوں میں پہلے سبب ہی کی بناء پر دوسرا سبب تقویت پارہا ہے۔ جب کسی ملک کا ایک طبقہ نسلی تفاخر کے سبب خود کو دوسروں سے اعلیٰ و افضل سمجھتا ہے۔ اس طبقے میں بعد کی نسلوں کا ہر فرد اسی احساس برتری کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور تمام تر وسائل کو اپنی آبائی جاگیر سمجھتا ہے۔ اس کی وجہ سے اندرون ملک جو رسہ کشی پیدا ہوتی ہے وہ تو اپنا رنگ دکھاتی ہی ہے، بیرون ملک بھی اس کے تیور کسی سے چھپے نہیں رہتے۔ ملک سے باہر یہ ذہنیت دوسرے ملکوں کو ہیچ سمجھنے کے گناہ میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ تب اسے اپنے مفادات کو اولیت دینے میں شرم بھی محسوس نہیں ہوتی۔ اسی لئے ٹرمپ کے دور کے امریکہ نے اعلان کردیا تھا کہ ہم پہلے اپنا مفاد دیکھیں گے اس کے بعد کسی اور کا۔ اسی ذہنیت کے سبب مختلف ملکوں کے درمیان رسہ کشی پیدا ہوتی ہے اور پھر جنگ و جدال سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں رہ جاتا۔ اس وقت غزہ بلک رہا ہے۔ اس کی وجہ بھی یہودیوں کا احساس تفاخر ہے۔ وہ اپنا پہلا حق فلسطین پر جتاتے ہیں اور دوسرا حق پوری دنیا پر۔ اسی ذہنیت نے صہیونیت کو جنم دیا۔ صہیونیت کا مذہب سے اتنا تعلق نہیں ہے جتنا سیاسی بالادستی اور پوری دنیا کو اپنا ماتحت اور غلام بنالینے کی بیمار ذہنیت سے ہے۔ اسرائیل میں جو لوگ اس ذہنیت سے محفوظ رہ گئے وہ آج بھی مظاہرے کررہے ہیں کہ ان کی حکومت غزہ میں ناحق خون بہا رہی ہے مگر سنتا کون ہے۔
نسلی تفاخر اور حریصانہ ذہنیت سے وسائل کی نابرابر تقسیم کو روز بہ روز تقویت مل رہی ہے جس کے سبب مالدار ترین افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے یا ان کی دولت میں اضافہ ہورہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے عالمی غربت میں اضافہ ہوتا ہے جو ہورہا ہے۔ اسے روکنے کیلئے چاہے جتنے عالمی جدول جاری ہوجائیں ، چاہے جتنی میٹنگیں ہوجائیں ، ویلفیئر اسٹیٹ بنانے کے چاہے جتنے دعوے کرلئے جائیں کچھ نہیں ہوگا۔ اگر کچھ ہوسکتا ہے تو وہ نظام عدل کے ذریعہ ممکن ہے جو برابری کے حقوق کو یقینی بنانے کی دعوت دیتا ہے۔ جب تک دنیا یہ نہیں سمجھے گی کہ اس کرہ ارض پر سب کا حق ہے، نہ تو بھوک سے راحت ملے گی نہ غربت کم ہوگی۔