• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

نماز، صبراور رجوع الی اللہ، اس کو اپنے لائحہ عمل کا حصہ بنائیں

Updated: June 14, 2024, 2:02 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

موجودہ حالات میں وقتاً فوقتاً ایسے معاملات پیش آتے ہیں جو ہمارے لئے تکلیف دہ ہوتے ہیں، لیکن جوش میں آنے کے بجائے دیکھئے کہ ایسے مواقع پراسلام کی تعلیمات کیا ہیں۔

Under the country`s constitution, Muslims still enjoy freedom of life and property, religion and culture. Photo: INN
ملک کے دستور کے تحت مسلمانوں کو اب بھی اپنی جان ومال، مذہب اور تہذیب کے معاملہ میں آزادی حاصل ہے۔ تصویر : آئی این این

ہندوستان کے مسلمان اس وقت جن حالات سے گزر رہے ہیں، وہ نہ مکمل طور پر مکی زندگی جیسے ہیں، جس میں مسلمانوں پر کھلے عام زیادتی کی جاتی تھی اور اسلام کو بحیثیت مذہب تسلیم نہیں کیا گیا تھا، پورا معاشرہ شرک کے رنگ میں رنگا ہوا تھا اور کوئی صدائے توحید لوگوں کو گوارا نہیں تھی، مسلمانوں کو اپنے گھروں میں چُھپ کر نماز ادا کرنی پڑتی تھی، اور گھر کے اندر بھی وہ بلند آواز میں علی الاعلان قرآن مجید کے تعلیم وتعلم کا فریضہ ادا نہیں کر سکتے تھے، جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبول ِاسلام کے واقعہ سے ظاہر ہے۔ 
ہندوستانی مسلمانوں کے موجودہ حالات سیرت نبویؐ کی مدنی زندگی کے بھی پوری طرح مطابق نہیں ہیں۔ مدینہ میں مسلمانوں کو غلبہ حاصل تھا، وہ سارے فیصلے اپنی مرضی سے کیا کرتے تھے، دوسری مذہبی اقلیتوں خاص کر یہودیوں کو ضرور اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی حاصل تھی، ان کی تعلیم گاہیں بھی تھیں، زبردست قلعے تھے، معاشی اعتبار سے ان کو برتری بھی حاصل تھی؛ لیکن مدینہ کے اقتدار میں غلبہ مسلمانوں کا تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیثیت نہ صرف مسلمانوں کے نبی اور مرکز اطاعت کی تھی بلکہ دوسری قومیں بھی خوشی یا ناخوشی کے ساتھ آپ کی قیادت کو تسلیم کرتی تھیں۔ 
 ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں یہ موقف حاصل نہیں ہے، اقتدار کی باگ ڈور اُن کے ہاتھ میں نہیں ہے ا ور ملک کے اہم فیصلوں میں اُن کی مرضی اور خواہش کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہ صورت حال یوں تو آزادی کے بعد ہی سے شروع ہوگئی تھی؛ لیکن ۲۰۱۴ء سے اس میں بہت اضافہ ہوگیا؛ البتہ ملک کے دستور کے تحت مسلمانوں کو اب بھی اپنی جان ومال، مذہب اور تہذیب کے معاملہ میں آزادی حاصل ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: اسوۂ ابراہیمی ؑ میں ہمارے لئے سبق ہے کہ آزمائشوں میں ثابت قدم رہیں

ان حالات کے لئے قرآن مجید سے جو رہنمائی ملتی ہے، وہ بنیادی طور پر دو باتیں ہیں، ایک یہ کہ مذہب کے معاملہ میں دوسروں کی مذہبی آزادی کو بھی قبول کیا جائے، ہم اپنے دین پر چلیں اوردوسرے لوگ اگر اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزاریں تو اس کو گوارا کریں۔ قرآن کہتا ہے: لکم دینکم ولی دین (الکافرون: ۶)۔ دوسرے : جہاں تک اور جس قدر ممکن ہو، ہم اپنے دین پر عمل کرنے کا اہتمام کریں، قانون اور انتظام کے جو شعبے حکومت کے ہاتھ میں ہیں اور اس میں اسلامی نقطۂ نظر سے ہٹ کر پالیسی اختیار کی گئی ہے، ان میں تو ہم مجبور ہیں ؛ لیکن جن امور میں ہمارے لئے اپنی شریعت پر قائم رہنا ممکن ہے، ان میں ہم دین و شریعت پر قائم رہیں ؛ کیوں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اذا أمرکم بأمر فأتوا منہ ما استطعتم (صحیح البخاری عن ابی ہریرۃؓ، حدیث نمبر: ۷۲۸۸) یعنی اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت ضروری ہے؛ لیکن یہ ہماری طاقت کے بقدر ہے، جیسے ایک غریب آدمی کے لئے زکوٰۃ دینے کا حکم نہیں ہے، اور جیسے ایک بوڑھے اور کمزور شخص پر بعض عبادتوں کا حکم نہیں ہے، اسی طرح کسی بھی شعبۂ زندگی میں مسلمان شخصی یا اجتماعی طور پر اگر کسی خاص حکم کی تعمیل سے معذور ہوں تو ان کو کوشش تو کرنی چاہئے کہ یہ معذوری ختم ہوجائے؛ لیکن جب تک یہ معذوری ختم نہ ہو، اس وقت تک دل کی ناگواری کے ساتھ اس پر عمل کرنا چاہئے، اور ٹکراؤ سے بچنا چاہئے، مثلاً اگر کسی ریاست میں ریلوے اسٹیشن، ائیرپورٹ پر یا سڑک کنارے نماز ادا کرنے سے روک دیا جائے یا ایک خاص حد سے زیادہ آواز میں اذان دینے سے منع کیا جائے تو ہمیں پُر امن طریقہ پر کوشش کرنی چاہئے کہ حکومت اپنے اس غیر منصفانہ حکم کو واپس لے لے؛ لیکن جب تک ایسا نہ ہو قانون کی رعایت کرنی چاہئے۔ جب ہم مجبوری کے تحت اس کو قبول کریں گے تو ان شاء اللہ، اللہ کے یہاں پکڑ نہیں ہوگی، اور اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ دین حق کے دشمنوں کو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور مسلم مخالف جذبات کو مشتعل کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ 
صورت حال اُس وقت بہت نازک ہو جاتی ہے جب حق سے عناد رکھنے والے لوگ نفرت کا ماحول پیدا کرتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں ؟ اس کے جواب میں ایک صورت تو یہ ہے کہ ہم ترکی بہ ترکی جواب دیں، اگر کوئی ہمارے باپ دادا کو برا بھلا کہے تو ہم اس کی سات پشتوں کو برا بھلا کہیں، اس سے جذبات کی تسکین ہوتی ہے اور عام لوگوں کو یہ طریقہ بہت بھلا محسوس ہوتا ہے، اگر کوئی مقرر جوش و خروش کے ساتھ اس بات کو پیش کرے تو اس کو خوب داد بھی ملتی ہے اور واہ واہی بھی ہوتی ہے، ہمارے ملک میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں، اگر اس طرح کی بات سیاسی لوگ کہیں تو اس کا اثر عارضی ہوتا ہے؛ کیونکہ یہ بات مان لی گئی ہے کہ سیاست میں جھوٹ، دھوکہ، بد اخلاقی اور بددیانتی سب کی گنجائش ہے؛ لیکن اگر مذہبی طبقہ کی طرف سے ایسی بات کہی جائے تو اس کا بہت برا اثر ہوتا ہے، اس سے منفی جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ اس وقت جو اسلام دشمن طاقتیں ہمارے ملک میں سرگرم عمل ہیں، وہ چاہتی ہیں کہ ایسا ہی ہو، اس سے ان کا مقصد حاصل ہوگا، ان کا بنیادی مقصد ہے کہ اکثریت کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کریں اور یہ بات معلوم ہے کہ اکثریت ہو یا اقلیت، عوام کی بڑی تعداد نا پختہ ذہن ہوتی ہے، وہ کسی دعویٰ کو ماننے کیلئے ثبوت یا تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتی؛ اس لئے اگر دوسرے فریق کی طرف سے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے تو فوراََ نفرت کی چنگاری آتش فشاں میں تبدیل ہو جاتی ہے، ان حالات کا سامنا کرنے کے لئے قرآن مجید نے جو تعلیم دی ہے، وہ یہ ہے :
’’اے ایمان والو! صبر اور صلاۃ کے ذریعہ اللہ سے مدد چاہو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ‘‘ (البقرہ: ۱۵۳)
صبر بہت ہی اہم عمل ہے، امام احمدؒ سے منقول ہے کہ قرآن مجید میں نوے مقامات پر صبر کا ذکر فرمایا گیا ہے اور اس کے واجب ہونے پر امت کا اجماع ہے۔ (تفسیر ابن قیم: ۱۰۴) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ’’اگر صبر سے کام لوگے تو یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا۔ ‘‘ (النساء: ۲۵) اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’صبر سے زیادہ بہتر انسان کو کوئی چیز نہیں دی گئی۔ ‘‘ (صحیح البخاری، عن ابی سعید الخدریؓ، حدیث نمبر: ۱۴۶۹)
صبر کے معنیٰ ہیں اللہ کی رضا کے لئے اپنی طبیعت اور جذبات کے خلاف باتوں کو برداشت کرنا۔ (تفسیر رازی، سورہ بقرہ، آیت نمبر: ۱۵۳)۔ اللہ تعالیٰ نے صرف صبر ہی کا حکم نہیں دیا ہے؛ بلکہ صبر جمیل کا حکم بھی دیا ہے (معارج: ۵) صبر جمیل کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر حالات کو قبول بھی کرے اور اس میں کوئی مایوسی، گھبراہٹ، اللہ سے شکایت اور جلد بازی پیدا نہ ہو؛ لیکن صبر کے معنی یہ بھی نہیں ہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں ؛ بلکہ اس میں کم از کم تین باتیں شامل ہیں، اول جدو جہد اور تدبیر، دوسرے: حکمت و مصلحت کا لحاظ، تیسرے: اللہ تعالیٰ سے رجوع۔ رسولؐ اللہ اور مسلمانوں کو جب صبر کا حکم دیا گیا تو ایسا نہیں ہوا کہ مسلمان دعوت کا جو کام کر رہے تھے، انہوں نے اس کو روک دیا ہو، دین کی اشاعت اور حفاظت کی تدبیروں سے دست کش ہو گئے ہوں ؛ بلکہ ان کوششوں میں اور قوت کے ساتھ لگے رہے اور اس جذبہ کے ساتھ اپنا کام کرتے رہے کہ جیسے کچھ حالات پیش آئیں، ہم ان کا سامنا کریں گے اور ہم اپنے موقف اور مہم پر ثابت قدم رہیں گے۔ مکی زندگی میں صحابہؓ نے بار بار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت چاہی کہ چوں کہ وہ مشرکین مکہ سے تنگ آچکے ہیں ؛ اس لئے ان کو ان کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کی اجازت دے دی جائے؛ لیکن آپؐ نے اس کی اجازت نہیں دی؛ مگر ایک دن بھی اسلام کی دعوت واشاعت کے کام سے باز رہنے کو گوارا نہیں فرمایا۔ مدنی زندگی میں منافقین کی ایک اچھی خاصی تعداد اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھی اور مسلمانوں کو ہر طرح کا نقصان پہنچانے کے درپے رہتی تھی؛ لیکن حضورؐ نے بہت سے منافقین سے واقف ہونے کے باوجود خاموشی اختیار کی اور اس وقت تک انتظار کیا، جب تک ان کا نفاق پوری طرح لوگوں پر واضح نہ ہو گیا، اور ان کو اپنے خاندان اور لوگوں میں منھ چھپانے کی جگہ بھی باقی نہیں رہی۔ 
ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے جدوجہد کے بہت سے میدان ہیں، قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے برادران وطن میں اسلام کا تعارف اور دعوت، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پیدا کی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا، مسلمانوں کو سچا اور پکا مسلمان بنانا، شریعت پر سو فیصد عمل کا جذبہ پیدا کرنا، تعلیم اور ٹیکنالوجی کے مختلف میدانوں کی طرف تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں اور ہنر مندوں کو لانا، خدمت خلق کی نسبت سے ملک میں اپنی ایک پہچان پیدا کرنا، جیسا کہ عیسائی حضرات کے یہاں ہے یا سکھ بھائیوں میں ہے، اسی طرح مسجدوں اور مدرسوں کو عام فاقہ کش لوگوں کی کفالت کا مرکز بنانا، جیسا کہ گرودواروں میں لنگر کا نظم ہوتا ہے، برادران وطن سے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا، اُنہیں اپنے ہاں مدعو کرنا اور اُن کی سماجی تقریبات میں شامہ ہونا، اور اس کیلئے خود اپنی طرف سے قدم آگے بڑھانا، وغیرہ۔ 
  جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کے مشرکین اور مدینہ کے یہود کے ساتھ کیا تھا، عام انسانی مسائل میں آگے بڑھ کر برادران وطن کے ساتھ کھڑا ہونا، جیسے: شجر کاری، صفائی ستھرائی، ٹریفک قانون کی پابندی، ماحول کو صوتی، آبی اور فضائی آلودگی سے بچانے کی کوشش کرنا، خواتین کے ساتھ ظلم وزیادتی کو روکنے کی مہم چلانا، بوڑھوں اور یتیموں کے حقوق کی طرف توجہ دلانا، کرپشن کو روکنا اور سماج میں پیدا ہونے والے اختلاف کو باہمی مصالحت کے ذریعہ طے کرانا، اور اس طرح کے دوسرے کام، جن کی ضرورت مسلمانوں کو بھی ہے اور برادران وطن کو بھی، ان میں نہ صرف حصہ لینا؛ بلکہ قائدانہ کردار ادا کرنے کی کوشش کرنا، اور یہ کام آسان ہے، اگر سیاسی قیادت میں آپ آگے بڑھنا چاہیں گے تو مزاحمت ہوگی؛ لیکن اگر خدمت خلق کے میدان میں آگے بڑھیں گے تو اس میں مزاحمت نہیں ہوگی؛ بلکہ لوگوں کا تعاون حاصل ہوگا؛ اس لئے ہمیں ان کاموں کو ا پنی ترجیحات میں شامل کرنا چاہئے۔ 
 دوسری چیز ہے حکمت عملی کا لحاظ، حکمت عملی کا دائرہ بہت وسیع ہے؛ لیکن اس کی ایک صورت وہ ہے، جس کو قرآن مجید نے اعراض سے تعبیر کیا ہے۔ (الحجر:۹۴) لوگ مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے، ان پر بے جا تنقید کرتے تھے، ان کے بارے میں نازیبا باتیں پھیلاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: آپ مشرکین سے اعراض برتئے اور یاد رکھئے کہ جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہیں ہم خود آپ کے لئے ان کے مقابلہ میں کافی ہو جائیں گے۔ 
  لوگ سمجھتے ہیں کہ اعراض اور پہلو تہی اختیار کرنا بزدلی کی بات ہے؛ لیکن در حقیقت یہ ایک زبردست حکمت عملی ہے، جو مخالفین کے وار کو ناکام کرتی ہے۔ اگر کسی نے اسلام کے بارے میں بدگوئی کی اور ہم اس کے مذہب کے بارے میں اسی لہجہ کو اپنائیں، اگر کسی نے مسلمانوں کو برا بھلا کہا اور اس کے جواب میں ہم ان کو اسی طرح برا بھلا کہیں تو اس سے عمل اور رد عمل کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، اور عام لوگوں کو اُکسانے اور بھڑکانے کا موقع ملتا ہے، اور اگر بوقت ضرورت سنجیدگی کے ساتھ جواب دیں، یا مصلحت کے تقاضے کے تحت بالکل خاموش ہو جائیں تو اب آپ کے مخالفین کے لئے مزید اشتعال انگیز گفتگو کرنے کا موقع باقی نہیں رہتا۔ 
 اس کی ایک مثال ۲۰۲۴ء کا الیکشن ہے، اس موقع پر ملک کے سب سے اعلیٰ عہدیدار نے اسٹیج سے ایسی جھوٹی باتیں کہیں کہ ان کا جھوٹ ملک اور ملک سے باہر مشہور ہوگیا، یہاں تک کہ ان کی سرپرست تنظیم نے بھی اس پر نوٹس لیا، انھوں نے بار بار مسلمانوں کانام لے کر اکثریت کو اُکسانے کی کوشش کی، ان کے طرز عمل سے ملک کے تمام سنجیدہ لوگوں نے یہ تأثر لیا کہ ان کے پاس کوئی ایسا کام نہیں ہے، جسے وہ پیش کر سکیں، اس حقیقت نے خود ان کی پوزیشن کو کمزور کر دیا، اور اکثریتی فرقہ کے انصاف پسند اور محب وطن شہریوں نے ان کے خلاف آواز بلند کی، اور اس کا اثر یہ ہوا کہ ان کے سنہرے خواب چکنا چور ہوگئے۔ 
 مسلمانوں نے رد عمل کے بجائے تعمیر کی سمت میں محنت کی، اس سال پبلک سروس امتحان میں پچاس سے زیادہ مسلمانوں نے کامیابی حاصل کی، نیٹ کے امتحان میں بڑی تعداد میں مسلم طلبہ اور طالبات نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے، اور بعضوں نے ٹاپ ٹین میں اپنی جگہ بنائی، چندریان مہم میں چار چار مسلمان سائنس دانوں نے حصہ لیا؛ اگرچہ ان کے نام پر میڈیا نے زیادہ توجہ نہیں دی، مختلف شہروں میں مسلمانوں نے تجارت اور چھوٹی موٹی صنعتوں میں اپنی حصہ داری کو بڑھایا، پچھلے دس سالوں میں انھوں نے عصری تعلیم کے ادارے کثرت سے قائم کئے، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں مسلم نوجوانوں کا قدم آگے بڑھ رہا ہے، انہوں نے ٹکرانے میں اپنی قوت خرچ کرنے کے بجائے تعمیر کی طرف اس کا رُخ کر دیا، اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے مختلف میدانوں میں اپنے پاؤں پر چلنے کی کامیاب کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ 
 دینی مدارس پر الزام تھا کہ وہ دنیا سے بے خبر اور عصری علوم سے ناآشنا ہوتے ہیں ؛ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ مدارس سے نکلنے والی نئی نسل نہ صرف ضروری عصری تعلیم سے آراستہ ہے؛ بلکہ وہ آئی اے ایس اور آئی پی ایس بن رہے ہیں، آئی ٹی فیلڈ میں اپنا جوہر دکھا رہے ہیں، قانون کے میدان میں خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور مختلف پیشہ ورانہ میدانوں میں اپنی صلاحیت منوا رہے ہیں۔ یہی حکمت عملی ہے کہ رد عمل، جواب اور جواب الجواب پر اپنی قوت خرچ کرنے کی بجائے اپنی تعمیر پر محنت کی جائے، اگر مسلمان اسی طرح تسلسل کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھیں تو ان شاء اللہ بہت جلد ہماری قوم ملک میں سرخروئی اور سرفرازی کے مقام پر فائر ہوگی اور ان شاء اللہ لوگوں کے لئے سرمایۂ رشک بنے گی۔ 
 تیسری چیز رجوع الی اللہ ہے جس کو سورہ بقرہ میں صلوٰۃ سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی اللہ سے رجوع کرنا، اپنے مالک کے سامنے ہاتھ پھیلانا اور اپنی مظلومیت کو ان کے سامنے پیش کرنا؛ کیوں کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ مظلوم کی دعا کو قبول کرتے ہیں، چاہے وہ فاسق وفاجر ہی کیوں نہ ہو۔ (مسند احمد عن ابی ہریرہؓ، حدیث نمبر: ۸۷۹۵) اللہ سے رجوع کا فائدہ یہ ہے کہ انسان مایوسی اور ناامیدی سے محفوظ رہتا ہے؛ کیوں کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ ہم نے اپنا معاملہ اللہ کے حوالہ کر دیا ہے اور اللہ کی قدرت میں سب کچھ ہے۔ آج کل بہت سے لوگ مایوسی اور نااُمیدی کی باتیں کرتے ہیں ؛یہاں تک کہ بعض اوقات کہتے ہیں کہ کیا ہماری نسلیں اس ملک میں رہ سکتی ہیں ؟ یہ بہت ہی بزدلانہ خیال ہے، ہمیں اللہ پر یقین رکھنا چاہئے اور اس بات پر اعتماد کرنا چاہئے کہ کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی؛ کیوں کہ ہماری اصل طاقت ہمارا ایمان ہے، ہمارااصل اثاثہ اللہ کی مدد ہے اور ہمارے ہاتھوں میں اس نبیؐ کا دامن ہے، جس کی نبوت قیامت تک کیلئے ہے؛ اس لئے کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی، ہم نے اس ملک کی تعمیر وترقی میں حصہ لیا ہےجس پر ہمیں ناز ہے۔ 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK