• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بہار میں بی ایڈ کالجوں کی مشکلیں

Updated: September 12, 2024, 12:28 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

اب ریاست بہار کے ان تمام بی ایڈ اور ڈی ایل ایڈ کالجوں کے سامنے ایک بڑا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے کہ آئندہ سال سے چار سالہ بی ایڈ کورس کا آغاز کرنے کاا علامیہ ایس سی ای آر ٹی نے جاری کیا ہے۔ اس اعلامیہ کے مطابق اب دو سالہ بی ایڈ کی جگہ پر چار سالہ بی ایڈ کورس چلایا جائے گا۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

ریاست بہار میں گزشتہ ایک دہائی کی مدت کار میں سب سے زیادہ آسامیاں اسکولی اساتذہ کی ہوئی ہیں اور مسلسل پرائمری سے ثانوی سطح کے اسکولوں میں حکومت بہار کی جانب سے بحالی ہو رہی ہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ بہار میں ڈی ایل ایڈ اور بی ایڈ کرنے والے طلبہ کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت بہار کی جانب سے سب سے زیادہ توجہ اسکولی اساتذہ کی کمیوں کو دور کرنے پر ہے اور اسی محکمہ کے ذریعہ مسلسل بحالیاں بھی ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے اساتذہ تربیتی کورس کی اہمیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ اب صرف بی ایڈ یا ڈی ایل ایڈ کرنے کے بعد بھی اساتذہ بننا ممکن نہیں ہے، سی ٹیٹ اور ایس ٹیٹ امتحان میں بھی پاس ہونا لازمی ہے۔ دریں اثناء حکومت بہار نے اساتذہ بحالی کے لئے ایک نئی پالیسی بنائی ہے جس میں بہار پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ اساتذہ بحالی ٹسٹ لیا جاتاہے اور قومی سطح کے اس امتحان میں پاس ہونے کے بعد ہی ضلع وار آسامیوں کے مطابق مختلف موضوعات کے اساتذہ کو ملازمت مل رہی ہے لیکن اب ریاست بہار کے ان تمام بی ایڈ اور ڈی ایل ایڈ کالجوں کے سامنے ایک بڑا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے کہ آئندہ سال سے چار سالہ بی ایڈ کورس کا آغاز کرنے کاا علامیہ ایس سی ای آر ٹی نے جاری کیا ہے۔ اس اعلامیہ کے مطابق اب کوئی بھی بی ایڈ کالج صرف اساتذہ تربیتی کورس ہی نہیں چلا سکتا بلکہ اب دو سالہ بی ایڈ کی جگہ پر چار سالہ بی اے بی ایڈ، بی ایس سی بی ایڈاور بی کام بی ایڈ کورس چلایا جائے گا۔ گزشتہ روز این سی ای آر ٹی نے ریاست بہار کے ۳۳۷؍ نجی بی ایڈ کالجوں کو چار سالہ بی ایڈ کورس چلانے کااہل نہیں سمجھا ہے۔ واضح رہے کہ چا ر سالہ بی ایڈ کورس چلانے کے لئے کسی بھی کالج کو اولاً این اے اے سی میں ’ اے پلس ‘ گریڈ ہونا چاہئے اور اگر این اے اے سی میں یہ گریڈ حاصل نہیں ہے تو اسے کالج آف اکسیلنس ہونا چاہئے۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ریاست بہار کا کوئی بھی ایسا بی ایڈ کالج نہیں ہے جو اس پیمانے پر کھرا اترتا ہو اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست بہار میں اب تک دو سالہ بی ایڈ کورس کا ہی چلن رہا ہے جس کی وجہ سے ان کالجوں کے پاس اتنا مستحکم بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے جس کا تقاضہ ایس سی ای آر ٹی کر رہی ہے۔ جہاں تک چار سالہ بی اے بی ایڈ، بی ایس سی بی ایڈ اور بی کام بی ایڈ کا سوال ہے تو اس کے لئے تمام کالجوں کو شعبۂ تعلیم کے اساتذہ کے علاوہ دیگر شعبے کے اساتذہ کی بھی ضرورت ہوگی اور اب یو جی سی یا ایس سی ای آر ٹی نے تربیتی اساتذہ کالجوں میں اساتذہ بحالی کے لئے جو شرط رکھی ہے اس میں ایجوکیشن میں ایم ایڈ، پی ایچ ڈی اور نیٹ جے آر ایف لازمی ہے۔ جب کہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ایجوکیشن میں ایم ایڈ، پی ایچ ڈی اور یو جی سی نیٹ جے آر ایف کا ملنا محال ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام بی ایڈ کالجوں کے سامنے بنیادی ڈھانچہ کو مستحکم کرنے کے لئے بھی وقت چاہئے اور اساتذہ بحالی کے لئے مالی بجٹ میں اضافہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اگر آئندہ سال یعنی ۲۶۔ ۲۰۲۵ء سے ان کالجوں میں داخلہ بند کیا جاتا ہے تو ریاست میں اساتذہ تربیتی کورس چلانے والے کالجوں کے سامنے ایک بڑا مسئلہ کھڑا ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ ریاست بہار میں بی ایڈ کرنے والے خواہش مند امیدواروں کو بھی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیوں کہ جب تک وہ بی ایڈ یا ڈی ایل ایڈ نہیں کریں گے اس وقت تک سی ٹیٹ یا ایس ٹیٹ میں شامل ہونے کے اہل نہیں ہوں گے اور ریاست بہار میں اساتذہ بحالی کے لئے بہار پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ جو ٹسٹ لینے کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس کے بھی وہ اہل نہیں ہوں گے۔ ایسی صورت میں ریاست بہار کا محکمۂ تعلیم جو اساتذہ بحالی کی مہم چلا رہا ہے وہ بھی اثر انداز ہوگا۔ سب سے بڑا دھچکا تو ان بیروزگاروں کو لگے گا جو اس امید میں بیٹھے ہیں کہ گریجویشن کے بعد دو سالہ بی ایڈ کورس کرکے وہ اسکولی اساتذہ مقابلہ جاتی امتحانات میں شامل ہوں گے اور کامیاب ہو کر اسکولی اساتذہ کی ملازمت حاصل کر سکیں گے۔ واضح رہے کہ بہار میں سرکاری کالجوں میں بھی ایس سی ای آر ٹی کے پیمانے کو پورا کرنے بالخصوص این اے اے سی میں ’ اے پلس ‘گریڈ حاصل کرنے کی اہلیت بہت کم ہے جس کی وجہ سے ریاست بہار کے سرکاری ڈگری کالج بھی اس دوڑمیں شامل نہیں ہو پا رہے ہیں ۔ اس وقت پوری ریاست میں چار سالہ بی اے بی ایڈ، بی ایس سی بی ایڈ اور بی کام بی ایڈ چلانے والے صرف چار کالج ہیں اور وہ بھی نجی کالج ہیں۔ جب کہ ریاست بہار میں ہر سال تقریباً ۳۷؍ ہزار امیدوار بی ایڈ کالجوں میں داخلہ لیتے ہیں اس لئے اچانک چار سالہ بی ایڈ کورس شروع کرنا نہ صرف چل رہے بی ایڈ کالجوں کے لئے مشکل ہے بلکہ سرکاری کالجوں کے بس میں بھی نہیں ہے۔ اس لئے ریاست بہار کی حکومت کو اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غورو فکر کرنے اور مثبت قدم اٹھانے کی ضرورت پڑے گی تاکہ ریاست بہار میں جو اسکولی اساتذہ بحالی کی وجہ سے حکومت کو واہ واہی مل رہی ہے اس پر کسی طرح کا حرف نہ آئے اور جو کالج چل رہے ہیں اس کے وجود پر بھی کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ میرے خیال میں ریاست بہار کے تمام نجی بی ایڈ کالجوں کی انتظامیہ کے ساتھ سرکاری سطح پر میٹنگ ہونی چاہئے اور اس بڑے مسئلے کا حل نکلنا چاہئے۔ اگرچہ ایس سی ای آر ٹی کا فیصلہ قومی سطح کا ہے لیکن اپنے ملک میں جغرافیائی اعتبار سے الگ الگ ریاستوں کے سامنے الگ الگ مسائل ہیں اور تعلیمی اداروں کی صورتحال بھی مختلف ہے۔ اس لئے اس قومی فیصلے سے صرف بہار کو ہی نہیں بلکہ کئی ایسی ریاستیں ہیں جنہیں اس قومی فیصلے کا نقصان اٹھانا ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایس سی ای آر ٹی اس نئی پالیسی کے نفاذ کو لازمی بنانے سے پہلے قومی سطح پر اساتذہ تربیتی کورس چلانے والے تعلیمی اداروں کے ساتھ صلاح ومشورہ کرکے کوئی ایسا راستہ نکالا جائے جس سے یہ قومی مسئلہ حل ہو سکے اور خصوصی طورپر بہار میں بی ایڈ کورس چلانے والے کالجوں کو راحت مل سکے تاکہ ریاست میں بی ایڈ کرنے والوں کو جو ملازمتیں مل رہی ہیں اس راہ میں کوئی دیوار کھڑی نہ ہوسکے کیوں کہ بہار میں بیروزگاری کا مسئلہ حل کرنے میں اساتذہ کی بحالی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK