زندگی کا کوئی قابل قدر اور مستحق ِتوجہ پہلو اور گوشہ ایسا نہیں ہے جس میں سرور کائناتؐ کی معصوم اور قابل اقتداء زندگی ہمارے لئے بہترین نمونہ اور اعلیٰ ترین معیار نہ بنتی ہو، اس کے باوجود ہم اس پر عمل سے دور رہتے ہیں۔
EPAPER
Updated: April 18, 2025, 4:16 PM IST | Maulana Muhammad Sarfaraz Khan Safdar | Mumbai
زندگی کا کوئی قابل قدر اور مستحق ِتوجہ پہلو اور گوشہ ایسا نہیں ہے جس میں سرور کائناتؐ کی معصوم اور قابل اقتداء زندگی ہمارے لئے بہترین نمونہ اور اعلیٰ ترین معیار نہ بنتی ہو، اس کے باوجود ہم اس پر عمل سے دور رہتے ہیں۔
دنیا میں جتنے بھی رسول اور نبی تشریف لائے ہیں ہم ان سب کو سچا مانتے ہیں اور ان پر سچے دل سے ایمان لاتے ہیں اور ایسا کرنا ہمارے فریضہ اور عقیدہ میں داخل ہے ’’لا نفرق بین احد من رسلہ‘‘ مگر اس ایمانی اشتراک کے باوجود بھی ان میں سے ہر ایک میں کچھ ایسی نمایاں خصوصیات اور کچھ جداگانہ کمالات و فضائل ہیں جن کو تسلیم کئے بغیر ہرگز کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے انبیاء و رسل علیہم السلام تشریف لائے ہیں تو ان سب کی دعوت کسی خاص خاندان اور کسی خاص قوم سے مخصوص رہی۔ حضرت نوح علیہ السلام تشریف لائے تو اپنی دعوت کو صرف اپنی ہی قوم تک محدود رکھا۔ حضرت ہود علیہ السلام جلوہ افروز ہوئے تو فقط عاد کو خطاب کیا۔ حضرت صالح علیہ السلام مبعوث ہوئے تو محض قوم ثمود کی فکر لے کر آئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم کے پیغمبر تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو نجات دلانے کے لئے بھیجے گئے تھے اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کا مقصد بعثت بھی مذہبی و دنیوی دونوں پہلوؤں کو محیط تھا۔
یہی وجہ تھی کہ ان پیغمبروں میں سے کسی ایک نے بھی اپنی قوم سے باہر نظر نہیں ڈالی لیکن جب فاران کی چوٹیوں سے رحمت ِ خداوندی کی وہ عالمگیر گھٹا جو اٹھی تھی اس سے انسانیت و شرافت، دیانت و امانت، عدل و انصاف اور تقویٰ و ورع کی مرجھائی ہوئی کھیتیاں پھر سے سرسبز و شاداب ہو کر لہلہا اٹھیں، وہ قوم و جماعت، ملک و زمین، مشرق و مغرب، شمال و جنوب اور بر و بحر کی تمام قیدوں اور پابندیوں سے بالکل آزاد تھی۔ وہ بلا امتیاز وطن و ملت، بلا تفریق نسل و خاندان، بلاتمیز رنگ و خون، بغیر لحاظ سیاہ و سپید اور بے اعتبار حسب و نسب تا قیامت پوری نسل انسانی کیلئے رحمت ِ مہداۃ (ہدیۂ رحمت) بن کر نمودار ہوئی اور رب ذوالاحسان نے خود آپ ہی کی زبان فیض رساں سے یہ اعلان کروا دیا کہ: ’’آپ فرما دیں : اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ ‘‘(الاعراف:۱۵۸)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت صرف نسلِ انسانی ہی کے لئے نہیں بلکہ جنّات بھی اس امر کے مکلّف اور پابند ہیں کہ آپؐ کی نبوت و رسالت کا اقرار کر کے آپؐ کی شریعت پر عمل پیرا ہو کر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور نجاتِ اخروی تلاش کریں۔ قرآن کریم میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ ’’آپؐ کو تمام جہانوں کے لئے نذیر (ڈر سنانے والا) بنا کر بھیجا گیا ہے۔ ‘‘ (الفرقان:۱)
جو مکارمِ اخلاق آپؐ کو خالق ِ کونین کی طرف سے مرحمت ہوئے تھے اور جن کی تکمیل کے لئے آپؐ کو اس دنیا میں بھیجا گیا تھا وہ مکلّف مخلوق کی فطرت کے جملہ مقتضیات کے عین مطابق تھے اور جن کا مقصد صرف یہی نہیں تھا کہ ان کے ذریعے روحانی مریضوں کو ان کے بستروں سے اٹھا دیا جائے بلکہ یہ بھی تھا کہ اٹھنے والوں کو چلایا جائے اور چلنے والوں کو بسرعت دوڑایا جائے اور دوڑنے والوں کو روحانی کمال اور اخلاقی معراج کی غایۃ قصویٰ تک اور سعادتِ دنیوی ہی نہیں بلکہ سعادتِ دارین کی سدرۃ المنتہٰی تک پہنچایا جائے۔ ان کی نعمت فقط مریضوں کے لئے قوت بخش اور صحت افزاء نہ ہو بلکہ وہ تمام مکلف مخلوق کی اصل فطری اور روحانی لذیذ غذا بھی ہو۔ آپؐ کے مکارمِ اخلاق اور اسوۂ حسنہ نے وہ تمام ممکن اسباب مہیا کر دیئے ہیں کہ خلقِ عظیم کی بلند اور دشوار گزار گھاٹی پر چڑھنا آسان اور سہل ہو گیا ہے۔ آپؐ کی بعثت کے اغراض و مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ بھی تھا جیسا کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’مجھے اس لئے مبعوث کیا گیا ہے تاکہ میں نیک خصلتوں اور مکارمِ اخلاق کی تکمیل کروں۔ ‘‘(قال الشیخ حدیث صحیح۔ السراج المنیر)
یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ جس طرح دیگر انبیاء کرام علیہم السلام خاص خاص جماعتوں اور مخصوص قوموں کے لئے مصلح اور پیغمبر تھے اسی طرح ان کی روحانیت اور اخلاقی آئینے بھی خصوصی صفات اور اصناف کے مظہر تھے۔ مثلاً حضرت نوح علیہ السلام مجرم اور نافرمان قوم کی نجات کے لئے، باوجود قوم کی ایذا رسانی کے سعی بلیغ کی زندہ یادگار تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اخلاص و قربانی کی مجسم مثال تھے کہ انہوں نے اپنے اکلوتے اور عزیز ترین لخت ِ جگر کو خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور رضاجوئی کے لئے اپنی طرف سے ذبح کر ہی ڈالا اور اس حکم کی تعمیل میں کسی قسم کی کوتاہی اور کمزوری نہ دکھائی، جس کی ایک ادنیٰ اور معمولی سی برائے نام نقل آج بھی ہر صاحبِ استطاعت مسلمان اتارتا اور ’’قربانی‘‘ کی شکل میں سنت ِ براہیمی کی پیروی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام صبر و رضا کے پیکر تھے، مصائب و آلام کے بے پناہ سیلاب بہہ گئے مگر وہ مضبوط پہاڑ کی طرح اپنی جگہ ثابت رہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی جرأت حق کا ایک اعلیٰ نمونہ تھی کہ فرعون جیسے جابر اور مطلق العنان بادشاہ کے دربار میں ساون کے بادلوں کی طرح گرج اور صاعقہ ٔ آسمانی کی طرح کڑک کر تہلکہ ڈال دیتے تھے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی صبر آزما حیات یادگارِ دہر تھی کہ اپنے ہی بیٹوں کے ہاتھ سے پیارے یوسفؑ کے سلسلہ میں اذیت اور دکھ اٹھا کر ’’فَصَبْر جَمِیْل‘‘ فرما کر خاموش ہو گئے اور اندر ہی اندر آنسوؤں کے طوفان موجیں مارتے ہوئے ساحل امید سے ٹکراتے رہے اور ناامیدی کو قریب نہیں آنے دیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی عفتِ مآب زندگی پاکدامن نوجوان کے لئے باعث صد افتخار ہے کہ انہوں نے ’’امراۃ عزیز‘‘ کی تمام مکّاریوں اور حیلہ جوئیوں کی استخواں شکن زنجیروں کی ایک ایک کڑی کو معاذ اللہ فرماتے ہوئے پاش پاش کر دیا۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کی شاہانہ زندگی ان سب سے نرالی تھی کہ قبائے سلطنت اور عبائے خلافت اوڑھ کر مخلوقِ خدا کے سامنے ظہور پزیر ہوئے اور اس طریقہ سے عدل و انصاف کے مطابق ان کی خدمت کا عمدہ فریضہ انجام دیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام توکل و قناعت، زہد و خودفراموشی کی ایک پوری کائنات تھے کہ زندگی بھر سر چھپانے کے لئے ایک جھوپڑی بھی نہیں بنائی اور فرمایا ’’اے لوگو! یہ کیوں سوچتے ہو کہ کیا کھاؤ گے؟ فضا کی چڑیوں کے لئے کاشتکاری کون کرتا ہے؟ اور ان کے منہ میں خوراک کون ڈالتا ہے؟ اے لوگو! تمہیں اس کی کیا فکر ہے اور تم یہ کیوں سوچتے ہو کہ کیا پہنو گے؟ جنگل کی سوسن کو اتنی دیدہ زیب پوشاک اور خوبصورت لباس کون پہناتا ہے؟‘‘
یہ تمام بزرگ اور مقدس ہستیاں اپنے اپنے وقت پر تشریف لائیں اور بغیر حضرت مسیح علیہ السلام سب دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ لیکن جب قصرِ نبوت اور ایوانِ رسالت کی آخری اینٹ کا ظہور ہوا جس کے انتظار میں دہر کہن سال نے ہزاروں برس صرف کر دیئے تھے، آسمان کے ستارے اسی دن کے شوق میں ازل سے چشم براہ تھے، ان کے استقبال کیلئے لیل و نہار بے شمار کروٹیں بدلتے رہے، ان کی آمد سے محض کسریٰ کے محل کے چودہ کنگرے ہی نہیں بلکہ رسم عرب، شان عجم، شوکت روم، فلسفہ یونان اور اوجِ چین کے قصرہائے فلک بوس گر کر آن واحد میں پیوند زمین ہو گئے تو پورے کرۂ ارض کیلئے ایک عالم گیر سعادت اور ایک ہمہ گیر رحمت لے کر آئی۔ آپؐ کا وجود مقدس روحانیت کے تمام اصناف کی ایک خوشنما کائنات، اخلاق حسنہ کی ایک دلآویز جاذبیت اور رنگ برنگ گل ہائے اخلاق کا ایک پورا چمنستان تھا۔ امت ِ مرحومہ کیلئے حضرت نوحؑ کی دلسوزی، حضرت ابراہیمؑ کی خلّت (بیحد دوستی، بے پناہ محبت)، حضرت ایوبؑ کا صبر، حضرت داؤدؑ کی مناجات، حضرت موسٰی کی جرأت، حضرت ہارونؑ کا تحمل، حضرت سلیمانؑ کی سلطنت، حضرت یعقوبؑ کی آزمائش، حضرت یوسفؑ کی عفت، حضرت زکریاؑ اور حضرت یحییٰؑ کی تقرب الٰہی کے لئے گریہ و زاری، اور حضرت مسیحؑکا توکل، یہ تمام منتشر اوصاف آپ ﷺ کے وجود مسعود میں سمٹ کر جمع اور یکجا ہو چکے تھے۔
غرض کہ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام میں سے ہر ایک کی زندگی خاص خاص اوصاف میں نمونہ اور اسوہ تھی مگر سرور دوجہاں ﷺ کی اعلیٰ و ارفع زندگی تمام اوصاف و اصناف میں ایک جامع زندگی ہے۔ آپؐ کی سیرت مکمل اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ ایک کامل ضابطۂ حیات اور دستور ہے۔ اس کے بعد اصولی طور پر کسی اور چیز کی سرے سے کوئی حاجت ہی باقی نہیں رہ جاتی اور نہ کسی اور نظام و قانون کی ضرورت ہی محسوس ہو سکتی ہے۔
اگر آپ بادشاہ اور سربراہِ مملکت ہیں تو شاہِ عربؐ اور فرمانروائے عالمؐ کی زندگی آپ کے لئے نمونہ ہے۔
اگر آپ فقیر و محتاج ہیں تو کملی والےؐ کی زندگی آپ کے لئے اسوہ ہے جنہوں نے کبھی دقل (ردی قسم کی کھجوریں ) بھی پیٹ بھر کر نہ کھائیں اور جن کے چولہے میں بسا اوقات دو دو ماہ تک آگ نہیں جلائی جاتی تھی۔
اگر آپؐ سپہ سالار اور فاتح ملک ہیں تو بدر و حنین کے سپہ سالار اور فاتح مکہؐ کی زندگی آپ کے لئے ایک بہترین سبق ہے جس نے عفو و کرم کے دریا بہا دیئے تھے اور ’’لا تثریب علیکم الیوم‘‘ کا خوش آئند اعلان فرما کر تمام مجرموں کو آنِ واحد میں معافی کا پروانہ دے کر بخش دیا تھا۔
اگر آپ قیدی ہیں تو شعب ِ ابی طالب کے زندانی کی حیات آپ کے لئے درسِ عبرت ہے۔
اگر آپ تارکِ دنیا ہیں تو غارِ حرا کے گوشہ نشینؐ کی خلوت آپ کے لئے قابل تقلید عمل ہے۔
اگر آپ چرواہے ہیں تو مقام اجیاد میں آپؐ کو چند قراریط (ٹکوں ) پر اہل مکہ کی بکریاں چراتے دیکھ کر تسکینِ قلب حاصل کر سکتے ہیں۔
اگر آپ معمار ہیں تو مسجد نبویؐ کے معمار ِ اعظم ؐ کو دیکھ کر ان کی اقتداء کر کے خوشی محسوس کر سکتے ہیں۔
اگر آپ مزدور ہیں تو خندق کے موقع پر اس بزرگ ہستی کو پھاوڑا لے کر مزدوروں کی صف میں دیکھ کر اور مسجد نبویؐ کے لئے بھاری بھر کم وزنی پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے ہوئے دیکھ کر قلبی راحت حاصل کر سکتے ہیں۔
اگر آپ مجرّد ہیں تو اس پچیس سالہ نوجوان کی پاکدامن اور عفت مآب زندگی کی پیروی کر کے سرورِ قلب حاصل کر سکتے ہیں جس کو کبھی کسی بدترین دشمن نے بھی داغدار نہیں کیا اور نہ کبھی اس کی جرأت کی ہے۔
اگر آپ عیال دار ہیں تو ازواج مطہرات کے شوہر کو ’’انا خیرکم لاھلی‘‘ فرماتے ہوئے سن کر جذبۂ اتباع پیدا کر سکتے ہیں۔
اگر آپ یتیم ہیں تو حضرت آمنہ کے لعلؐ کو یتیمانہ زندگی بسر کرتے دیکھ کر آپؐ کی پیروی اور تاسّی کر سکتے ہیں۔
اگر آپ ماں باپ کے اکیلے بیٹے ہیں اور بہنوں اور بھائیوں کے تعاون و تناصر سے محروم ہیں تو حضرت عبد اللہ کے اکلوتے بیٹے کو دیکھ کر اشک شوئی کر سکتے ہیں۔
اگر آپ باپ ہیں تو حضرت زینبؓ، رقیہؓ، کلثومؓ، فاطمہؓ، قاسمؓ اور ابراہیمؓ کے شفیق و مہربان باپ کو ملاحظہ کر کے پدرانہ شفقت پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔
اگر آپ تاجر ہیں تو حضرت خدیجہؓ کے تجارتی کاروبار میں آپؐ کو دیانت دارانہ سعی کرتے ہوئے معائنہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ عابد شب خیز ہیں تو اسوۂ حسنہ کے مالک کے متورّم قدموں کو دیکھ کر اور ’’افلا اکون عبدًا شکورًا‘‘ فرماتے ہوئے آپؐ کی اطاعت کو ذریعۂ تقربِ خداوندی اختیار کر سکتے ہیں۔ اور
اگر آپ قوم کے خطیب ہیں تو خطیبِ اعظم ؐ کو منبر پر جلوہ افروز ہو کر بلیغ اور مؤثر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے اور غافل قوم کو ’’انی انا نذیر العربان‘‘ فرما کر بیدار کرتے ہوئے ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
الغرض زندگی کا کوئی قابل قدر اور مستحق توجہ پہلو اور گوشہ ایسا باقی نہیں رہ جاتا جس میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معصوم اور قابل اقتداء زندگی ہمارے لئے بہترین نمونہ، عمدہ ترین اسوہ اور اعلیٰ ترین معیار نہ بنتی ہو۔ پس اس وجودِ قدسی پر لاکھوں بلکہ کروڑوں درود و سلام جس کے وجود مسعود میں ہماری زندگی کے تمام پہلو سمٹ کر آجاتے ہیں۔ ہماری روح کا ایک ایک گوشہ عقیدت و اخلاص کے جوش سے معمور ہو جاتا ہے جب ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا کے لعل و گوہر کا جو پائیدار خزانہ تمام ارض و سماء اور بحر و بر چھان ڈالنے کے بعد بھی کسی قیمت پر جمع نہیں ہو سکتا تھا وہ انمول خزانہ امت مرحومہ کو اپنے پیارے نبیؐ کے اسوۂ حسنہ، اپنے برگزیدہ رسولؐ کی سنت ِ صحیحہ اور اپنے مقبول رسولؐ کے معدنِ حدیث کی ایک ہی کان اور معدن سے فراہم ہو گیا ہے، اور قرآن کریم کے بعد ہماری تمام بیماریوں کا مداوا حدیث پاک میں علیٰ وجہ الاتم موجود ہے۔