Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

ارشاد نبویؐ ہے:سحری کھا یا کرو کیونکہ سحری کرنے میں بے انتہا برکت ہے!

Updated: March 08, 2025, 1:53 PM IST | Muhammad Raza Noori | Nashik City

حضور ﷺ نے اکلۃ السحر (سحری کے چند لقمے) کا جملہ فرما کر درحقیقت یہ اشارہ فرمایا ہے کہ سحری کو دن بھر کا کھانا،پیٹ میں جمع کر لینے کا ذریعہ نہ سمجھا جائے،بلکہ چند لقمے یعنی تھوڑا کھانا، ہلکی غذا سنت سمجھ کر کھائی جائے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

رمضان کی نعمتوں میں سے ایک نعمت سحری بھی ہے۔ سحر، صبح سے پہلے آخری رات کے وقت کو کہا جاتا ہے۔ اور اس کے کھانے یا پینے کو سحری کہتے ہیں، روزے کی نیت سے سحر کے وقت کھانا پینا سنت ہے کہ اس پر مسلمان کو ثواب دیا جاتا ہے۔ 
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’سحری کھاؤ، کہ سحری کھانے میں برکت ہے۔ (مشکوٰۃ شریف) یعنی سحر کے وقت روزے کے لئے کھانا، پینا، برکت کا ذریعہ ہے۔ اس سے رزق میں برکت ہوتی ہے۔ مبارک ہیں وہ گھر جن میں رات کے آخری حصہ میں سوتے، سوتے اٹھ کر کھایا پیا جاتا ہے اور رمضان کی اس نعمت سے وہ پورا، پورا فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ 
یہ بات قابل غور ہے کہ کھانا، اگر پیٹ بھرنے کے لئے کھایا جائے، پانی پیاس بجھانے کے لئے پیا جائے تو انسان کو یہ فائدے حاصل ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر یہی کھانا، پینا، سنت جان کر حضور علیہ السّلام کی اتباع و پیروی میں ہو تو اس سے صرف پیٹ ہی نہیں بھرتا پیاس ہی نہیں بجھتی بلکہ یہ عبادت بن جاتا ہے، اس پر ثواب بھی ملتا ہے، اور رزق میں فراخی کا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ عبادت نام ہے حضور علیہ السّلام کی اداؤں پر عمل کرنے کا، سحری اس میں ذریعۂ برکت بنی کہ حضور علیہ السّلام کی سنت ہے۔ سچ یہ ہے کہ اگر ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز نہ پڑھی ہوتی تو وہ عبادت نہ کہلاتی۔ اور یہی حال ان تمام کاموں کا ہے جن کو ہم ذریعہ ثواب جانتے ہیں۔ 
رمضان کا مہینہ؛خدا کی بندگی اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کے مظاہرے کا مہینہ ہے۔ دیکھئے!اس مہینہ کا چاند نظر آتے ہی بندگانِ خدا، مسلمانوں کے کھانے، پینے، سونے کے سب اوقات تبدیل ہو گئے۔ ہمارے دن رات کا جو نظام گیارہ مہینے رہتا ہے، رمضان میں وہ بالکل تبدیل ہو جاتا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ سحر جو فطری طور پر گہری نیند کا وقت ہے اور اس وقت دنیا سوتی ہوتی ہے لیکن مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ اس وقت اس کے گھر میں کھانا پینا ہو رہا ہے، لیکن جو اس وقت کھا پی رہا ہے اس کے لئے کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ وہ تو یقین کرتا ہے، میرا کھانا، پینا، اور کوئی بھی عمل میری اپنی مرضی سے نہیں میں تو بندہ ہوں، اور بندگی کا تقاضا یہی ہے کہ بندے کا ہر عمل آقا کے حکم اور مرضی کے مطابق ہو۔ پس میرا معبود حقیقی مجھے جس وقت کھانے، پینےکا حکم دیتا ہے میں کھاتا پیتا ہوں اور جب وہ روک دیتا ہے تو چاہے کتنی ہی بھوک لگے، کتنی ہی پیاس لگے، میری کیا مجال جو کھانے، پینے کی چیزوں پر نظر بھی ڈالوں، کیا مجال جو دل میں کھانے، پینے کا وسوسہ بھی پیدا ہونے پائے، یہی تو بندگی ہے۔ جب مسلمان کا حال یہ ہو کہ بھوک لگے تو کھائے۔ پیاس لگے تو پئے۔ چاہے کھانا پینا حلال ہو یا حرام، رمضان ہو یا غیر رمضان، کچھ پرواہ نہیں۔ وہ مسلمان خدا کا بندہ نہیں بلکہ اپنے پیٹ اپنے نفس اور اپنی خواہش کا غلام ہے۔ اور جس نے نفس کی غلامی سے چھٹکارا حاصل نہ کیا وہ نہ دنیا کی بھلائی پا سکتا ہے، اور نہ ہی آخرت کی نجات۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے نفس پر قابو پا لینے کو جہاد اکبر قرار دیا اور رمضان کا مہینہ اسی جہاد کا مہینہ ہے۔ دن بھر کی تھکان کے باوجود پابندی سے بیس رکعت تراویح ادا کرنا، گہری نیند سے بیدار ہو کر کھانا پینا، سارا دن بھوکا پیاسا رہنا، نفس کی خواہش پر کنٹرول کرنا، یہ سب کچھ کیا ہے، نفس سے جہاد ہی تو ہے اور یہ ایک مہینہ کا جہاد مسلمان کو پورے سال کے لئے ایسا مضبوط مجاہد بنا دیتا ہے کہ پھر وہ کسی میدان میں شکست نہیں کھاتا۔ 
سحری سنت ہے۔ حضرت عمر ابن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بتاتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں فرق سحری کے چند لقمے ہیں۔ ‘‘(مشکوٰۃ شریف)
اہلِ کتاب کے نزدیک روزوں کے دنوں میں رات کو سونے کے بعد کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے۔ اور ہماری شریعت میں سحری مقرر کی گئی، یہی فرق ہے، اہل کتاب اور مسلمانوں کے روزوں میں۔ لہٰذا اگر چہ سحری فرض و واجب نہیں لیکن اس کو بغیر کسی عذر کے مستقل چھوڑ دینا خدا کی نعمت کو ٹھکرانا اس کی ناشکری کرنا ہے، اور ایک برکت سے محروم ہونا ہے۔ ہاں !اگر کسی رات کسی وجہ سے سحری نہ کھائی تب بھی روزہ رکھا جائے اور روزے میں کوئی کمی، یا کراہت واقع نہیں ہوگی، سحری چھوٹ جانے کو روزہ چھوڑ دینے کا عذر ہرگز نہیں بنانا چاہئے۔ 
حضور ﷺ نے اکلۃ السحر (سحری کے چند لقمے) کا جملہ فرما کر درحقیقت یہ اشارہ فرمایا ہے کہ سحری کو دن بھر کا کھانا، پیٹ میں جمع کر لینے کا ذریعہ نہ سمجھا جائے، بلکہ چند لقمے یعنی تھوڑا کھانا، ہلکی غذا سنت سمجھ کر کھائی جائے۔ کیونکہ سحری کے وقت اتنا پیٹ بھر کر کھا لینا کہ فجر کی نماز ادا کرنا دشوار ہو۔ دن بھر طبیعت بھاری رہے، صحت کے لئے بےحد مضر ہے۔ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پسند نہیں فرماتے کہ ان کے غلاموں کی صحت خراب ہو، یا وہ بیمار ہو جائیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بتاتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’مؤمن کی اچھی سحری کھجور ہے۔ ‘‘ (مشکوٰۃ شریف) یعنی سحری کے وقت ثقیل غذا استعمال نہ کی جائے کہ بد ہضمی ہو۔ کھجور یا اس جیسی ہلکی اور طاقتور غذا استعمال کرنا چاہئے۔ اس حدیث کے مطابق بزرگوں کا یہ طریقہ ہے کہ سحری کے کھانے کے بعد وہ کھجور استعمال کرتے ہیں، تاکہ حضورؐ کے اس ارشاد پر پوری طرح عمل ہو جائے۔ بہتر ہے کہ ہم بھی اس سنت کو ادا کر لیا کریں۔ 
سحری کا وقت نصف رات کے بعد ہو جاتا ہے، لیکن بہتر ہے کہ آخری وقت میں کی جائے۔ لیکن وقت ختم ہونے سے چند منٹ پہلے کھانا پینا ختم کر دینا چاہئے۔ اسی میں احتیاط ہے، کہ اگر حساب میں غلطی، یا گھڑی غلط ہونے کی وجہ سے ایک منٹ کی بھی دیر ہو گئی تو روزہ نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شریعت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK