• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مسلمانوں کی دینی وتہذیبی شناخت کی حفاظت وقت کا اہم مسئلہ ہے

Updated: December 15, 2023, 2:57 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

گزشتہ دنوں جامعۃ الاسوۃ الحسنہ پلا پٹی (تمل ناڈو) میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے بتیسویں فقہی سیمینار میں تین سو سے زیادہ علماء وارباب افتاء نے شرکت کی۔ افتتاحی اجلاس میں مضمون نگار نے جو اظہار خیال کیا اس کا خلاصہ اس مضمون کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے۔

The two-day seminar of the Islamic Jurisprudence Academy held in Tamil Nadu discussed issues related to suspicion. Photo: INN
تمل ناڈو میں منعقدہ اسلامک فقہ اکیڈمی کے دوروزہ سمینار میں تشبہ سے متعلق مسائل پر گفتگو کی گئی۔۔ تصویر : آئی این این

اس وقت ملک کے جو حالات ہیں اور مسلمان جس صورت حال سے دو چار ہیں، وہ دو پہر کی روشنی کی طرح واضح ہے، کہیں اسلامی شعائر کی اہانت، کہیں مسلم نوجوانوں کی ماب لنچنگ، کہیں مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ اور کہیں دوسرے رسوا کن واقعات پیش آرہے ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر وہ نفرت انگیز پروپیگنڈہ ہے، جس کے ذریعہ برادران وطن کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف آگ سلگا ئی جارہی ہے۔ عدم  برداشتگی کا ماحول پروان چڑھ رہا ہے اور منظم طور پر اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ضرورت ہے کہ پوری گہرائی کے ساتھ اس صورت حال کو سمجھا جائے اور مسلمانوں کیلئے درست لائحۂ عمل کی نشاندہی کی جائے۔ اسلامک فقہ اکیڈمی کا موضوع تو دورِ جدید میں پیدا ہونے والے فقہی مسائل کا حل ہے؛ لیکن فکری پہلو سے مسلمانوں کو جو مسائل در پیش ہیں، اکیڈمی نے ہمیشہ ان میں بھی رہنمائی کی کوشش کی ہے۔ غور کیا جائے تو اس سیمینار کے عناوین میں جو ’’تشبہ‘‘ کا موضوع رکھا گیا ہے، وہ اس پہلو سے بڑا اہم ہے، جو موجودہ حالات میں اپنی ملی وتہذیبی شناخت کی حفاظت کی طرف متوجہ کر رہا ہے۔
مذہبی شدت پسندی اور مخالف فکر کو برداشت نہ کرنے کا جذبہ انسان کو اس طرف لے جاتا ہے کہ وہ دوسرے نظریہ کو ختم کر دے۔ اس کی سب سے خطرناک صورت یہ ہے کہ دوسری فکر پر یقین رکھنے والوں کو مذہب بدلنے پر مجبور کر دیا جائے، اور نہ ماننے کی صورت میں کوئی رحم کھائے بغیر تہہ تیغ کر دیا جائے۔ اس کی مثال قدیم تاریخ میں بھی ملتی ہے۔ قرآن مجید میں کم از کم اس طرح کے دو واقعات پوری وضاحت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں، ایک یہ کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو عقیدۂ توحید سے روکنے کیلئے نسل کشی کی تدبیر اختیار کی کہ بنی اسرائیل میں جو بھی بیٹا پیدا ہوتا، اسے قتل کر دیا جاتا۔ نہ جانے کتنے بچے فرعونِ وقت کے اس ظالمانہ حکم کا شکار ہوئے (تفسیر السمعانی: بقرہ)۔ 
اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ جو مذہبی منافرت کی بناء پر تشدد اور بے برداشت ہونے کا ہے، وہ ہے جسے ’’اصحاب اخدود‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ حق پرست عیسائیوں کا واقعہ ہے، جن کو جیتے جی نذر آتش کرنے کیلئے ایک بڑی کھائی کھودی گئی اور کم وبیش۲۰؍ ہزار افراد اس میں زندہ جلا دئیے گئے۔ (قصص القرآن:۳) اسلام کے ابتدائی دور میں بھی بعض ایسے واقعات پیش آئے، جن میں بئر معونہ کے واقعہ میں ستر حفاظ صحابہ کی شہادت کا واقعہ ناقابل فراموش ہے (صحیح البخاری، کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع وبئر معونۃ)۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک رومی سردار نے کئی مسلمانوں کو توحید پر قائم رہنے کے جرم میں کھولتے ہوئے تیل کی کڑاہی میں ڈال دیا؛ مگر ان کے پایۂ استقامت میں جنبش تک نہیں آئی۔ ( شعب الایمان للبیہقی)
اہل یورپ میں مذہبی شدت پسندی بہت زیادہ تھی، دنیا کی آنکھوں نے ماضی قریب تک اس کی مثالیں بار بار دیکھی ہیں، انہوں نے سرد جنگ میں فتح پانے کے بعد فلسطین میں جو مظالم ڈھائے، وہ تاریخ کا ایک خونچکاں باب ہے۔ پھریہ شدت پسند عیسائی ہی تھے، جنہوں نے یہودیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کیلئے ہولوکاسٹ کیا، اور بے شمار یہودی گیس کے چیمبروں میں ایک ایک قطرۂ آب کو ترستے ہوئے مار ڈالے گئے (مرگ انبوہ، دائرۃ المعارف برٹانیکا)۔ یہ مغرب ہی ہے جس نے اندلس کے مسلمانوں کو دھوکہ دے کر سمندر میں غرق کر دیا اور اپنے عہد کا کوئی پاس نہیں رکھا اور ہزاروں مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے شہید کر دیا؛ کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ اسپین سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹ جائے۔ ( خلافت اندلس نواب ذوالقدر جنگ بہادر)۔
 مغرب نے سائنس و ٹیکنالوجی کی طاقت حاصل کی اس کو بھی انہوں نے پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنے مخالفین کو بے نام ونشان کرنے کیلئے استعمال کیا، جس کی مثال دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے دو آباد اور بھرے پُرے شہروں  ہیرو شیما اور ناگاساکی پر نیوکلیئر بم کی بارش ہے، جس نے لاکھوں لوگوں کو لقمۂ اجل بنا دیا۔ دور کیوں جائیں، بوسنیا کے قتل عام کا تصور کیجئے اور شام اور عراق  کے  شہداء کو یاد کیجئے کہ کس طرح خون انسانی کی ارزانی کا تماشہ مشرق سے لے کر مغرب تک ساری دنیا نے دیکھا، غرض کہ کسی مذہب کی پیش قدمی یا کسی قوم کی بالادستی کو روکنے کیلئے تشدد کی بہت قدیم تاریخ رہی ہے۔ 
کسی مذہبی گروہ کو ختم کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ فکری وتہذیبی طور پر ان کو اپنے وجود میں جذب کر لیا جائے، اس کی واضح مثال موجودہ عیسائیت ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی ٔبرحق تھے۔ انہوں نے انسانیت کو توحید کی دعوت دی تھی؛ مگر یہودیوں نے ان کے متبعین پر بڑے مظالم ڈھائے، یہاں تک کہ وہ فلسطین سے نکل کر مختلف جگہوں پر بھٹکنے پر مجبور ہوگئے۔ عیسائیوں پر جوروستم کیلئے اُکسانے والوں میں سے ایک اہم شخصیت راسخ العقیدہ یہودی پولس (POLUS ) کی تھی، جو سینٹ پال کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس نے جب دیکھا کہ تشدد کا ہتھیار کام نہیں آرہا ہے تو اس نے عیسائیت پر فکری پہلو سے شب خوں مارا۔ اس زمانہ میں دنیا کی مختلف قومیں تثلیث، یعنی تین خداؤں کا عقیدہ رکھتی تھیں۔ روم ویونان میں بھی تثلیث کا تصور موجود تھا۔
سینٹ پال نے مخلصانہ یا منافقانہ طور پر عیسائیت قبول کرنے کے بعد عیسائیت کو روم و یونان میں مقبول بنانے کیلئے اس کو تثلیث کے سانچے میں ڈھال دیا اور اس کیلئے باپ، بیٹا اور روح القدس کی اصطلاح ایجاد کی، جس کی خود انجیل میں کوئی صراحت نہیں ہے۔ آخر عیسائیت کا وجود ہمیشہ کیلئے تثلیث میں گم ہو کر رہ گیا۔ اگر قرآن مجید نے اس حقیقت کو واضح نہیں کیا ہوتا، تو شاید کبھی اس جھوٹ سے پردہ نہیں اٹھ پاتا۔ اسی طرح جب رسولؐ اللہ اس دُنیا میں تشریف لائے اور آپؐ نے اہل مکہ کو بُت پرستی سے باز آنے اور ایک خدا کی عبادت کرنے کی دعوت دی تو پہلے تو انہوں نے طاقت کے ذریعہ اس کو ختم کرنے کی کوشش کی؛ لیکن جب ان کو اندازہ ہوگیا کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے تو صلح کا ایک فارمولہ پیش کیا،  وہ یہ کہ ہم لوگ بھی مسلمانوں کے خدا کو تسلیم کر لیں اور اس کی عبادت کریں اور مسلمان بھی ہمارے معبودو ں کو خدا مان لیں اور وہ بھی ان کی پرستش کر یں، نیز ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں کیلئے ایک ایک سال مقررکر لیں، ایک سال ہمارے معبودوں کی عبادت کا  اور ایک سال مسلمانوں کے خدا کی عبادت کا ہو۔ اسی پس منظر میں ’’سورۂ کافرون‘‘ نازل ہوئی (روح المعانی :۵۱؍ ۵۸۴)۔ یہ بظاہر صلح کی ایک کوشش تھی؛ صلح کا یہ فارمولہ مسلمانوں کو اپنے وجود میں جذب کرنے کی سازش تھی۔ قرآن مجید میں صاف طور پر اس نقطۂ نظر کو رد کر دیا گیا اور واضح کر دیا گیا کہ توحید اور شرک دو متضاد چیزیں ہیں، یہ ایک شخص میں جمع نہیں ہو سکتیں، ممکن نہیں کہ ایک انسان بیک وقت ایک خدا کی بھی عبادت کرے اور بہت سارے خداؤں کی بھی۔
 اس پس منظر میں اگر ہم اپنے ملک کی تاریخ کو دیکھیں تو واضح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ موجودہ ہندوتوا  کی ترجمانی کرنے والا گروہِ برہمن بہت ہی گہری اور شعوری کوششوں کے ساتھ مخالف نقطۂ نظر کو اپنے راستے سے ہٹا کر اس کو مشرکانہ سوچ میں ضم کرنا چاہتا ہے۔ بودھ  اصل میں توحید کے قائل تھے اور خدا کو ’’علۃ العلل‘‘ اور کائنات کا اصول اول قرار دیتے تھے، گوتم بدھ کی اصل دعوت برہمنوں کے اس تصور کو ختم کرنا تھا کہ پیدائشی طور پر کوئی انسان برتر اور کوئی کمتر ہے، برہمنوں کی من گھڑت رسموں سے نجات حاصل کرنا بودھ کی بنیادی تعلیمات کا حصہ تھی؛ اسی لئے برہمنیت کی طرف سے  اس فرقہ کو ناستک، یعنی ملحد قرار دیا گیا۔ برہمنوں نے ان کے مندر توڑ ڈالے، ہزاروں لوگوں کو قتل کر ڈالا۔ جب راجہ اشوک نے بودھ مذہب قبول کیا تو یہ اس خطہ کا غالب اور مقبول مذہب بن گیا اور یہاں سے چین، جاپان، سری لنکا، کوریا، ویتنام اور تھائی لینڈ تک پھیل گیا۔ لیکن بالآخر ہوا یہ کہ جب راجہ کنشک تخت حکومت پر بیٹھا تو اس نے مہاتما بودھ کو خدا کا اوتار مان کر لوگوں کو ان کی مورتی کی پوجا کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اس طرح ایک ایسا مذہب جس کی بنیاد اللہ کی توحید اور انسان کی وحدت پر تھی ، شرک کے رنگ میں رنگ گیا۔ اب گوتم بودھ کی پرستش بودھ سماج کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے، اور اُن کی بڑی بڑی مورتیاں بنائی جا رہی ہیں، یہاں تک کہ آج ہمارے ملک میں بودھ ہندو سماج کا حصہ بن گئے ہیں، اور بڑی چالاکی کے ساتھ ملک کے دستور میں بھی ان کو ہندو قرار دے دیا گیا ہے۔ اسی کی ایک مثال جین مت ہے، جو ایک بڑا فلسفیانہ مذہب ہے، اس کے دو بڑے فرقے ہیں، ایک دگامبر جو بے لباس رہتے ہیں، دوسرے: شوتامبر جو سفید کپڑے استعمال کرتے ہیں، یہ دونوں بنیادی طور پر بت پرستی کے مخالف ہیں، اس قوم کو مجسمہ سازی کے فن میں امتیاز حاصل رہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ایلورا اجنتا کے مندر ان ہی کی فنکاریوں کا نمونہ ہیں۔ جینیوں کو بھی آہستہ آہستہ مشرکانہ رنگ میں رنگ دیا گیا اور خود مہاویر جین کی مورتی پوجا پر ان کو آمادہ کر لیا گیا۔ آج یہ بھی ہندو سماج کا حصہ بن چکے ہیں۔
 اسی کی ایک مثال سکھ مت ہے، اس مذہب کے بانی گرونانک جی کا زمانہ زیادہ دور نہیں ہے، وہ ۱۴۶۹ء میں پیدا ہوئے، وہ شروع سے توحید پر عامل تھے، اور بت پرستی سے دور رہتے تھے، انہوں نے جو مُول منتر، یعنی بنیادی کلمہ سکھایا، اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ خدا ایک ہے، اس کا نام سچ ہے، وہی قادر مطلق ہے، وہ بے خوف ہے، اسے کسی سے دشمنی نہیں ہے، وہ ازلی وابدی ہے، بے شکل وصورت ہے، قائم بالذات ہے، (ہندوستانی مذاہب، ڈاکٹر رضی کمال ص: ۳۶)۔ یہ تحریک در اصل برہمنی رسوم ورواج کو ختم کرنے کیلئے شروع ہوئی تھی؛ اسی لئے سکھوں کے چوتھے گرو رام داس نے شادی اور مرنے کی رسوم ہندو مذہب سے الگ مقرر کیں، ستی کی رسم کی مخالفت کی اور بیواؤں کی شادی پر زور دیا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گرونانک جی اسلام سے زیادہ متاثر تھے، انھوں نے پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا، روزہ رکھنے کی تلقین کی، ختم نبوت پر ایمان لانے کو کہا، رسولؐ اللہ کی اپنے کلام میں جا بجا ستائش کی اور اسلامی تعلیمات کو سراہا؛ مگر افسوس کہ سیاسی اختلافات اور اس سے پیدا ہونے والے جنگ و جدال نے ان کو مسلمانوں سے دور کر دیا؛ اسی دوران سکھ سماج کو موجودہ ہندو سماج کا حصہ بنانے کی کوشش شروع ہوئی اور سکھوں کے انکار کے باوجود بہت ہی ڈھٹائی کے ساتھ دستوری طور پر ان کو بھی ہندوؤں میں شامل کر لیا گیا۔ ہندو مذہب کے متکلمین نے زیادہ سے زیادہ قوموں کو اپنے اندر جذب کرنے کیلئے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ خداؤں کی تعداد کو بڑھایا جائے، کہا جاتا ہے کہ اصل ہندو مذہب میں ایک ہی خدا کا تصور تھا؛ چنانچہ مذہب اور تہذیب کے مشہور محقق اور مؤرخ ڈاکٹر گستاؤلی بان لکھتے ہیں :
’’ایک خدائے مطلق کا خیال جو تمام فانیوں اور غیر فانیوں کا خالق اور تمام انسانوں ، پتروں اور دیوتاؤں پر حاکم ہو، رگ وید میں بے شک پایا جاتا ہے؛ لیکن محض ایک خاکہ کی صورت میں ۔‘‘ (تمدن ہندص: ۱۶۲)
یہ ایک سے تین اور تین سے تینتیس ہوئے، یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ موجودہ دور میں ہندو دیویوں اور دیوتاؤں کی تعداد ۳۳؍ کروڑ تک پہنچ چکی ہے؛ چنانچہ ایک ہندو محقق لکھتے ہیں : پھر یہ تعداد بڑھ کر تینتیس کروڑ تک پہنچ جاتی ہے، جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ دیوتاؤں کی بے شمار تعداد زندگی اور فطرت پر حکومت کر رہی ہے لیکن یہ بنیادی تصور کہ ایک خدا ارتقاء کر کے تین بن گئے، پھر تینتیس اور پھر روحانی قوت کے لا تعداد پہلوؤں میں تبدیل ہوگئے، منظر سے کبھی اوجھل نہیں ہو۔
 ( The culture heritage of -India ص:۸۹) 
دیوتاؤں کی اس کثرت کا یہ فائدہ اٹھایا گیا کہ مختلف گروہوں کے پیشواؤں کو خدا کے اوتار کا درجہ دے کر انہیں بھی ہندو قوم میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی۔ آریوں نے دراوڑیوں پر پہلے بڑے مظالم ڈھائے اور ان کو نیست ونابود کرنے کی کوشش کی؛ لیکن جب اس میں پوری کامیابی نہیں مل سکی تو ان کو ہندو قوم کا حصہ بنانے کیلئے دراوڑ جن مورتوں کی پوجا کرتے تھے، ان کو اپنے معبودوں میں شامل کر لیا گیا۔ اہل علم جانتے ہیں کہ ایک زمانہ میں بعض ہندو لیڈروں نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ وہ ہمارے ساتھ مل جائیں ، ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایک اوتار مان لیتے ہیں ۔ شاید اسی کوشش کا ایک حصہ یہ بھی ہو کہ ہندو مذہبی رہنماؤں نے کبھی ہندو مذہب کے عقائد و افعال متعین کرنے اور ہندو قوم کی حدود اربعہ قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کسی نے کہا جو ہندو ماں باپ سے پیدا ہو، وہ ہندو ہے، چاہے دھرم شاستروں کا عقیدہ رکھتا ہو یا نہیں ، اسی معنی میں پنڈت جواہر لال نہرو کو بھی ہندو مانا گیا ہے۔ کسی نے کہا جو سندھو دریا کے اِس پار پیدا ہوا ہو، وہ ہندو ہے۔ کسی نے کہا کہ جو کسی اور مذہب کو ماننے والے نہ ہوں اور ہندوستان ان کی جائے پیدائش ہو، وہ سب ہندو ہیں ، یا یہ کہا گیا کہ جس کو ہندو ہونے سے انکار نہ ہو، وہ ہندو ہے۔اسی پس منظر میں سنگھ پریوار کے موجودہ رہنما موہن بھاگوت بعض دفعہ ملک کے تمام باشندوں کو ہندو قرار دیتے ہیں ۔ ہندو مذہب اور ہندو قوم کی غیر متعین تعریف کو بہت سے ہندو علماء ہندو مذہب کی وسعت قرار دیتے ہیں ؛ مگر حقیقت میں کسی چیز کی حقیقت کا متعین نہ ہونا اور اس میں ناقابل وضاحت ابہام کا پایا جانا کوئی قابل تعریف بات نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک عیب ہے، جو اس تصور کے بے حقیقت ہونے کو ظاہر کرتا ہے مگر برہمنوں نے اس کا فائدہ یہ اٹھایا کہ انہوں نے بہت سے غیر ہندو گروہوں کو ہندو قوم کا حصہ بنا دیا۔
ایسا نہیں سمجھنا چاہئے کہ مسلمانوں کو اس کا نشانہ بنانے کی کوشش نہیں کی گئی، آزادی سے پہلے جو آخری مردم شماری ہوئی اس میں بہت سے لوگوں نے مذہب کے خانہ میں اپنے آپ کو ’’محمدی ہندو ‘‘ قرار دیا، سندھ کی بعض برادریوں کو ’’حسینی برہمن ‘‘ کہا جاتا تھا اور کہا جاتا ہے کہ عجمی مسلمانوں اور خاص کر بر صغیر کے مسلمانوں میں مشرکانہ رسوم جس کثرت سے پائی جاتی ہیں ، بعض دفعہ نظریہ کے اعتبار سے انبیاء اور اولیاء میں خدائی صفات کو مانا جاتا ہے اور عملی زندگی میں بھی مخلوقات کے ساتھ غلو آمیز تقدس کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ بعض دفعہ شرکِ صریح کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے برادران وطن سے تأثر کارفرما ہے، اسی لئے اس ملک میں جن شخصیتوں نے تجدیدی کارنامہ انجام دیا، مجدد الف ثانیؒ سے لے کر سید احمد شہیدؒ، شاہ اسماعیل شہیدؒ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒتک سب نے عقیدۂ توحید کو بے غبار کرنے اور مسلمانوں کو مشرکانہ رسوم وعادات اور افکار وتصورات سے بچانے پر سب سے زیادہ توجہ دی۔ اکبر کے دربار میں ہندو عالموں اور فلسفیوں کا غلبہ اور دین الٰہی کی ایجاد اور پھر گیتا کے شارح دارا شکوہ کے افکار اور منجانب اللہ اورنگ زیب کی فتح مندی اور ہندو مذہبی مقدسات کے ساتھ ان کے فراخدلانہ عطیات اور حسن سلوک کے باوجود سنگھی مصنفین کے یہاں اورنگ زیب کی مذمت اور اس کے کارناموں کو نظر انداز کرنا یہ در اصل اسی بنیاد پر ہے کہ مسلمانوں کو ہندو تصور اور تہذیب میں جذب کرنے کی جو کوشش ہو رہی تھی، جس کے خلاف مجدد الف ثانیؒ نے پوری قوت کے ساتھ آواز اٹھائی تھی، اورنگ زیب عالمگیر نے سیاسی قوت کے ذریعہ اس کو پوری قوت کے ساتھ ناکام کر دیا تھا۔
ملک کی آزادی میں مسلمان پیش پیش تھے؛ حالانکہ اس تاریخ کو مٹانے کی بہت کوشش کی جا رہی ہے؛ لیکن انڈیا گیٹ ایک واضح ثبوت بن کر ہمارے سامنے کھڑا ہے جس میں مجاہدین آزادی کے نام کندہ کئے گئے ہیں ، اور ان میں ۶۰؍ فیصد سے زیادہ مسلمانوں کے نام ہیں ، اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ باوجودیکہ آر ایس ایس کی پیدائش ۱۹۲۵ء میں ہو چکی تھی اور ان کی کوشش تھی کہ ہندوستان کا دستور خالصتاً اس تصور پر مبنی ہو، جس کو ان لوگوں نے ہندوتوا سے تعبیر کیا ہے، اور جو اس وقت ایک حد تک اکثریتی گروہ کیلئے سب سے زیادہ مقبول فکر ہے؛ لیکن مختلف گروہوں اور خاص کر مسلمانوں کی جنگ آزادی میں شرکت نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ خود ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر برہمنیت کے مخالف، بلکہ اس کے باغی تھے۔ دستور ساز کونسل میں مختلف مسلم قائدین بھی تھے اور جواہر لال نہرو جیسے سیکولر اور ایک حد تک کمیونسٹ ذہن رہنما بھی اس میں شامل تھے؛ اس لئے ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی، اور پھر ہندتوا فلسفہ سے متاثر مجرمانہ ذہن کے حامل ایک شخص ناتھورام گوڈسے نے جب گاندھی جی کا قتل کر دیا تو اس سے وقتی طور پر پورا ماحول بدل گیا، اور لوگوں میں اس گروہ کا اصل مزاج واضح ہوگیا، اس سے ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں ۔ اب ملک کے موجودہ حالات میں مختلف جہتوں سے مسلمانوں کو مرعوب ، بے وزن اور فکری اعتبار سے کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؛ تاکہ خدا نخواستہ ان کو ذہنی ارتداد کی طرف لایا جا سکے، اس کے لئے تخویف و ترہیب اور ترغیب و تحریص دونوں طریقے اختیار کئے جا رہے ہیں ، جو کئی شکلوں میں سامنے آرہا ہے۔ مسلم آبادیوں سے جلوس لے جانے کی کوشش اور مسجدوں کی بے حرمتی، مسلم افراد کا ہجومی قتل بالخصوص غریب مسلمان تاجروں ، آٹو ڈرائیوروں کو نشانہ بنانا، اسکولوں میں پڑھنے والے مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کو رسوا اور ذلیل کرنا، مسلم عورتوں کو نشانہ بنا کر بے آبرو کرنا ، آئے دن اس طرح کی خبریں اخبارات میں آتی رہتی ہیں ۔
مسلمانوں کو معاشی اعتبار سے کمزور سے کمزور تر کرنے کی کوشش بھی جا ری ہے، سرکاری ملازمتوں کا دروازہ بڑی حد تک مسلمانوں پر بند تھا؛ البتہ کچھ پرائیویٹ ملازمتیں مسلمانوں کو مل جاتی تھیں ، خاص کر آئی ٹی سیکٹر کی ترقی اور غیر ملکی تجارتی کمپنیوں کی آمد کی وجہ سے مسلم نوجوانوں کو روزگار کے کچھ بہتر مواقع حاصل ہو رہے تھے، اب اس پر بھی روک لگانے اور کمپنیوں کو مسلمان ملازم نہ رکھنے کا پابند کیا جارہا ہے۔
کچھ باہر کے ملکوں میں میسر آنے والا روزگار اور کچھ پرائیویٹ کمپنیوں میں ملازمت کی وجہ سے مسلمانوں کی معاشی حالت بہتر ہو رہی تھی، انہوں نے تجارت کے میدان میں بھی قدم رکھنا شروع کیا ہے، یہ بات فرقہ پرست طاقتوں کو بہت کَھل رہی ہے، انہوں نے مسلمانوں کی دکانوں کا بائیکاٹ کرنے؛ یہاں تک کہ مسلم مزدوروں سے کام نہ لینے کی بھی اپیل کی ہے۔ مسلمانوں کو سیاسی طور پر بے وزن کرنے کی صورت حال یہ ہے کہ مسلم امیدوار کسی بھی پارٹی سے، یہاں تک کہ فرقہ پرست جماعت ہی سے کیوں نہ کھڑا ہو، برادران وطن اس کو ووٹ نہیں دیتے ہیں ، مسلم مکت وزارت، پارلیمنٹ اور اسمبلی بنانے کی دعوت دی جارہی ہے، اور اس پر پوری شدت کے ساتھ عمل بھی ہو رہا ہے۔
 یہ تو امن وامان ، معیشت و سیاست کا پہلو ہے؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مذہبی پہلو سے دو طرفہ حملہ ہے، ایک یہ کہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی بھرپور سعی ہو رہی ہے، میڈیا کے ذریعہ جھوٹ اور فریب پر مبنی ایسے پروگرام نشر کئے جاتے ہیں ، جو اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کریں ، اور اس پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔یہی نہیں ، اپنے آپ کو سیکولر کہنے کے باوجود اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو ملک مخالف بنا کر پیش کیا جاتا ہے، میڈیا کے علاوہ تعلیم کے راستہ سے بھی اسلام اور مسلمانوں کو مطعون کرنے کی مسلسل کوششیں ہو رہی ہیں اور یہ ستم بھی جاری ہی ہے کہ نصاب تعلیم سے مسلمانوں کے پورے عہد کو نکال دیا گیا ہے۔ 
بتانے کی ضرورت نہیں کہ ملک کی تاریخ بدلی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ہندوستان ۱۹۴۷ء میں دوسو سال کی نہیں ؛ بلکہ دو ہزار سال کی غلامی سے آزاد ہوا ہے، نصاب ِتعلیم میں مسلمانوں کو ڈاکو اور قاتل کی حیثیت سے پیش کیا جارہا ہے۔

اس سلسلے میں چند باتیں جو بہت اہم نظر آتی ہیں اور جن کو انجام دینے میں علماء بنیادی رول ادا کر سکتے ہیں ، ان کا ذکر کیا جاتا ہے:
(۱) کوشش ہونی چاہئے کہ کوئی مسلمان لڑکا یا لڑکی بنیادی دینی تعلیم سے محروم نہ رہ جائے، اس کے لئے زیادہ سے زیادہ مکاتب قائم کئے جائیں ، چاہے یہ صباحی یا مسائی مکاتب ہوں ، یا مغربی ملکوں کی طرح اتوار کو ہفتہ وار مکتب کا نظم ہو۔ اسی طرح عصری تعلیم کے کسی پُرکشش مضمون، جیسے انگریزی ، حساب یا سائنس کے ساتھ لازمی طور پر بنیادی دینی تعلیم کو شامل کرتے ہوئے کوچنگ سینٹر قائم کئے جائیں ۔ ہمارے یہاں مکتب کے روایتی نظام میں کچھ ماثور اذکار اور چند پاروں کا ناظرہ قرآن پڑھایا جاتا ہے، اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا؛ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اس تعلیم میں ایمانیات کو شامل کیا جائے، خاص کر توحید، شرک والحاد، انسانی زندگی کے لئے نبوت کی ضرورت، ختم نبوت کا عقیدہ اور جزا وسزا کا اسلامی تصور، اور اس کے مقابلہ تناسخ (آواگون، دوسرا جنم) کا غلط ہونا وغیرہ کی بابت بالتفصیل بتایا جائے۔
(۲) زیادہ سے زیادہ اسلامی اسکولوں کا قیام، جس میں مسلمان بچوں اور بچیوں کے لئے اسلامیات کی تعلیم لازمی ہو، اُن کے یونیفارم پُر کشش مگر شریعت کے دائرہ میں ہوں ، مڈل کلاس کے بعد لڑکوں اور لڑکیوں کی جداگانہ تعلیم کا نظام ہو، خواہ اسکول ہی الگ ہو جو سب سے بہتر طریقہ ہے، یا کم از کم کلاس روم الگ ہو، اور آخری درجہ یہ ہے کہ کلاس روم میں لڑکوں اور لڑکیوں کی صفوں کے درمیان ایک چھوٹی دیوار ہو اور آمدورفت کے راستے الگ ہوں ۔ اکیڈمی اپنے ۷۲؍ ویں سیمینار منعقدہ ممبئی میں اس سلسلہ میں تفصیلی تجویز منظور کر چکی ہے۔
(۳) تعلیم اور ملازمت کیلئے جس امتحان اور ٹیسٹ کی ضرورت ہو، اس کے لئے کوچنگ کا انتظام کیا جانا چاہئے، اگر دینی مدارس بشرط گنجائش اپنے کیمپس میں نہ نفع نہ نقصان کی اساس پر فیس لے کر ایسے کوچنگ سینٹر قائم کریں تو نہ صرف اعلیٰ تعلیم میں مسلمان لڑکے آسکیں گے اور نہ صرف ان کو ملازمت کے بہتر مواقع مل سکیں گے؛ بلکہ ساتھ ہی ساتھ اسلامی ماحول کی وجہ سے ان کے اندر دین کی عظمت اور اپنی شناخت کی حفاظت کا جذبہ بھی پیدا ہوگا، اور سرکاری تعلیمی اداروں میں جن مشرکانہ افکار واعمال پر ان کو مجبور کیا جاتا ہے، یا ان سے مانوس کیا جاتا ہے، وہ اپنے آپ کو اس سے محفوظ رکھ سکیں گے۔
(۴) موجودہ دور میں اسکل ڈیولپمنٹ اور فنی تعلیم کی بہت اہمیت ہے، جس کے ماہرین کی ضرورت ہر جگہ پڑتی ہے۔ ہندوستان میں ہنر مندوں کی تعداد ضرورت کے اعتبار سے بہت کم ہے، اور بیرون ملک میں اس کی بہت طلب ہے، اس کے ذریعہ صِفر سرمایہ سے انسان اپنے کاروبار کو شروع کر سکتا ہے، اور کم تعلیم یافتہ نوجوان بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ جو پرائیویٹ ادارے ہیں ، وہ اس کام کو کمرشیل بنیاد پر کرتے ہیں اور اس میں دینی تربیت کا کوئی لحاظ نہیں ہوتا۔ اگر مذہبی تنظیمیں اور مدارس ایسے ادارے اور تربیتی مراکز قائم کریں جن میں نسبتاً کم اخراجات ہوتے ہیں ، تو اس سے مسلمانوں کو روزگار فراہم کرنے میں بڑی مدد ملے گی اور وہ معاشی اعتبار سے خود مکتفی ہو سکیں گے، اور جب معاشی اعتبار سے خود مکتفی ہوں گے تو ارتداد کی رو میں بہنے سے بچ سکیں گے۔
(۵) انسان جن باتوں کو بار بار سنتا ہے، وہ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ذرائع ابلاغ اسی اُصول پر کسی نقطۂ نظر کے موافق یا مخالف فضا بناتے ہیں ؛ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں حاصل اور میسر ذرائع ابلاغ کا استعمال فرمایا، آپؐ کعبۃ اللہ کے صحن سے بھی اہل مکہ کے سامنے توحید کی دعوت پیش کر سکتے تھے؛ لیکن آپؐ نے صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر اپنی دعوت پیش کی؛ کیونکہ اُس وقت تمام اہل مکہ تک اپنی دعوت پہنچانے کا یہی سب سے موثر ذریعہ تھا، پھر آپؐ نے پورے جزیرۃ العرب تک اسلام کی دعوت پہنچانے کیلئے حج کے مبارک اجتماع اور بعض تجارتی میلوں کا سہارا لیا؛ حالانکہ اس وقت یہ اجتماعات بعض منکرات سے خالی نہیں ہوتے تھے؛ کیونکہ ان ہی اجتماعات کے ذریعہ ایک دوسرے سے پورے جزیرۃ العرب میں بات پہنچ جاتی تھی، پھر جب صلح حدیبیہ ہوگئی، مسلمانوں کو کچھ لمحات سکون کے میسر آئے، نیز اس کے بعد جب مکہ مکرمہ فتح ہوگیا تو آپ ﷺ نے جزیرۃ العرب سے باہر جہاں تک سفارت کاری کے ذریعہ اسلام کی دعوت پہنچائی جا سکتی تھی اس کی بھر پور کوشش کی، یہاں تک کہ بعض مؤرخین کے بیان کے مطابق چین تک آپؐ کے نمائندے پہنچے۔ اس سے میڈیا کی اہمیت اور اسلام کی نظر میں اس کی وقعت اور اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں اور موجودہ حالات میں اسلام اور مسلمانوں کو میڈیا جس درجہ نقصان پہنچا رہا ہے، شاید ہی کوئی اور طاقت اتنا نقصان پہنچا رہی ہو، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس میدان میں ہم اتنے پیچھے ہو چکے ہیں کہ ہمارے لئے اپنے بدخواہوں کی برابری میں آنا ناممکن سا نظر آتا ہے؛ لیکن بحیثیت مسلمان ہمارا فرض ہے کہ ہم جتنا کر سکتے ہیں ، کم از کم اُتنا تو ضرور کریں ۔اس میں تساہلی نہ برتیں ۔ 
اس وقت سوشل میڈیا کا ایک ایسا دروازہ کھلا ہے، جو ایک سمندر کی طرح ہے، جس میں گندگی بھی ہے اور صاف وشفاف پانی بھی، اور ہر شخص اس میں اتر کر طبع آزمائی کر سکتا ہے۔ آج کل سوشل میڈیا کے مختلف وسائل کے ذریعہ مؤثر انداز میں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک بات پہنچائی جا سکتی ہے، اپنے یوٹیوب چینلس قائم کئے جا سکتے ہیں ، ٹی وی مباحثوں میں جو زہر پھیلایا جاتا ہے، یو ٹیوب اور ویڈیوز کے ذریعہ اس کا جواب دیا جا سکتا ہے، اس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ادھر ماشاء اللہ نوجوان علماء نے بھی بہت سے یو ٹیوب چینل قائم کئے ہیں ؛ لیکن زیادہ تر وہ روایتی پروگرام پیش کرتے ہیں اور بعض دفعہ تو مسلکی معاملات کیلئے اس کا استعمال کربیٹھتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام مخالف چینلوں کے سوالات سامنے رکھ کر کم از کم یوٹیوب چینلوں کے ذریعہ ان کا جواب دیا جائے۔جو لوگ سوشل میڈیا میں سرگرم ہیں ، وہ باہمی ارتباط کے ذریعہ ایسے پروگراموں کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں ، اور جو مسلمان نوجوان آئی ٹی کی دنیا سے تعلق رکھتے ہوں ، ان کی تربیت کی جائے کہ جو پروگرام اسلام کی مخالفت میں آئے، وہ بڑے پیمانے پر اس پر تردیدی تاثرات (Comment ) دیں ، اور جہاں اس سوال کا صحیح جواب مل سکتا ہو، اس کا حوالہ دیں ، مقرر کے جھوٹ کو واضح کرتے ہوئے اس سے دلیل طلب کریں ۔ اس طرح ہم مسلمانوں کی نئی نسل کو ارتدادی فکر سے بچا سکتے ہیں ، اور بہت سے برادران انسانیت کی غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکتا ہے۔ فی الحال اس طرح ہم ایک حد تک میڈیائی یلغار کا مقابلہ کر سکتے ہیں ، اور اگر مسلمان اس میں دلت چینلوں سے رابطہ کر لیں اور ان سے بھی استفادہ کی راہ نکال لیں تو یہ کوشش اور زیادہ مؤثر ہو جائے گی۔
(۶) مسلمانوں کے اندر فرقہ بندی اور اختلاف کا افسانہ ہمارے دشمن بھی مزے لے لے کر سناتے ہیں ، اور ہم بھی نمک مرچ لگا لگا کر اس کو آگے بڑھاتے ہیں ؛ بلکہ اپنے اختلافات کو میڈیا میں قوت اور مبالغہ کے ساتھ پیش کرتے ہیں ، کم از کم جن ملکوں میں ہم اقلیت میں ہیں ، وہاں ہمیں ایسے رویے سے پرہیز کرنا چاہئے، اور اپنے اختلافات کو درسگاہوں تک اور جب عوام سوال کریں تو فتاویٰ تک محدود رکھنا چاہئے، اور اس میں بھی اعتدال کا لحاظ ہونا چاہئے۔ چونکہ اس وقت فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کے آپسی اختلاف کو بڑھاوا دینے کی پوری کوشش میں لگی ہوئی ہیں ، اس لئے اعراض کا راستہ اختیار کرنا بہتر ہوتا ہے، ہمیں دوسری قوموں سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ برادران وطن کے فرقوں کی تعداد بے شمار ہے، اور فکر وعمل کے اعتبار سے ان کے درمیان اتنی دوریاں ہیں ، جیسے دریا کے دو کنارے؛ لیکن مسلمانوں کی مخالفت کی بنیاد پر اور مسلمانوں کا خوف دلا کر قوم کو متحد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عیسائی برادران کے عام طور پر تین فرقے مشہور ہیں ؛ لیکن شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ حقیقت میں ان کے تین سو سے زیادہ فرقے ہیں ، جن کے درمیان شدید اعتقادی وفکری اختلاف ہے؛ مگر وہ اپنے اختلافات کو عوام میں لانے سے بچتے ہیں ۔
حاصل یہ ہے کہ اس وقت بہت چوکسی اور جہد مسلسل کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو ایسے تہذیبی تشبہ سے منع کرنے کی جس سے کسی گروہ کی شناخت متعلق ہو، شعائر کفر سے بچانے کی، اسلامی شناخت پر ثابت قدم رکھنے کی، توحید وشرک کی سرحدوں کو اچھی طرح سمجھانے کی، شرک کی مختلف قسموں اور بالخصوص مشرکانہ اعمال کو واضح کرنے اور اپنی پہچان کی حفاظت کرتے ہوئے برادران وطن کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنے کی ضرورت ہے، اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اندیشہ ہے کہ نئی نسل کا ایک بڑا حصہ پہلے تہذیبی ارتداد پھر اسلام کے روایتی اعمال پر قائم رہتے ہوئے فکری ارتداد اور آخر میں خدانخواستہ معلنہ ارتداد تک پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی اس سے حفاظت فرمائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK