ان دونوں مقابلوں کے تعلق سے ان شخصیات سے گفتگو ملاحظہ کریںجو برسوں سے اس دشت کی سیاحی میں مصروف ہیں۔
EPAPER
Updated: February 17, 2025, 1:43 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai
ان دونوں مقابلوں کے تعلق سے ان شخصیات سے گفتگو ملاحظہ کریںجو برسوں سے اس دشت کی سیاحی میں مصروف ہیں۔
فرانسس بیکن کا کہنا ہے کہ ’’جو زیادہ پوچھتا ہے وہ بہت سیکھتا ہے‘‘گویا سیکھنے کے لئے سوالات کا پوچھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اگر تدریسی عمل کی بات کی جائے تو سوالات اس عمل کا لازمی اور کلیدی جزو ہیں، جس کو مدنظر رکھے بغیر موثر، بہتر اور جدید تعلیمی تدریس ممکن نہیں ہو سکتی۔ سولات کا ہماری دانست میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دلچسپ اور آسان سوالات سے طلبہ میں تجسس کا مادہ پیدا ہوتا ہے، یہی تجسس سبق یاد کرنے اور تحقیق کا جذبہ بیدار کرنے میں کارآمد ہوتا ہے۔ یہی بات ہم طلبہ کے لئے منعقد کئے جانے والے کوئز مقابلوں کے لئے بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان مقابلوں کی وجہ سے طلبہ میں معلومات عامہ کا جو شعور بیدار ہو تا ہے وہ عمر کے آخری پڑائو تک ان کے ساتھ رہتا ہے۔ کچھ یہی عالم شعر و شاعری اور ادبی ذوق کا بھی ہے۔ ایک طرف اگر کوئز مقابلے معلومات عامہ میں طلبہ کو طاق بناتے ہیں تو دوسری طرف بیت بازی جیسے مقابلے طلبہ کا ادبی و شعری ذوق بیدار کرتے ہیں۔ انہیں شعر پڑھنے کا طریقہ اور اس سے حظ اٹھانے کا سلیقہ فراہم کرتے ہیں۔ انہیں شاعر کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے لے کر شعر فہمی کی ان کی سطح کو بلند کرتے ہیں۔ ہم نے کوئز مقابلوں اور بیت بازی سے طلبہ کو ہونے والے فوائد پر ان شخصیات سے گفتگو کی جو برسوں سے اس دشت کی سیاحی میں مصروف ہیں اور انہوں نے سیکڑوں طلبہ کو کوئز مقابلوں اور بیت بازی کے مقابلوں سے فیض پہنچایا ہے۔
گزشتہ ۲۴؍ سال سے ممبئی و اطراف کے اردو طلبہ میں عام معلومات کے فروغ کے لئے پورے جذبہ اور ذوق کے ساتھ شاندار کوئز مقابلے منعقد کرنے والے کوئز ٹائم کے روح رواں ، مدیر ماہنامہ ’شاعر‘ اور معروف شاعر حامد اقبال صدیقی نے کہا کہ’’کوئز مقابلے بہت ضروری ہیں طلبہ کی ذہنی نشو ونما اور ان کے علم میں اضافے کے لئےلیکن افسوس یہ ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں اردو میں جو طریقہ کار ایجاد ہے اس میں بچوں کو ۱۰۰؍ یا ۲۰۰؍ سوالات یاد کرنے کے لئے دے دئیے جاتے ہیں ۔ ایسے میں ’رٹّو طوطے ‘ ہی مقابلہ جیت جاتے ہیں لیکن ان کا کوئی بہت بڑا فائدہ نہیں ہوتا۔ ‘‘ حامد اقبال صدیقی کے مطابق کوئز مقابلہ ایسا ہونا چاہئے کہ عام معلومات کے وسیع و عریض سمندر میں طلبہ کو چھوڑ دیا جائے اور پھر اس میں سے وہ جو کشید کرلیں اس کا فائدہ انہیں ہمیشہ ہوتا رہے گا۔ حامد اقبال صدیقی، جن کے کوئز ٹائم مقابلے کی اگلے سال سلور جبلی ہونے والی ہے، ایک طویل عرصے سے عام معلومات کی اہمیت پر زور دے رہے ہیں، وہ مزید کہتے ہیں کہ کوئز کے کئی شعبے ہیں جن میں سے اسلامی کوئز کے مقابلے کافی ہوتے ہیں ، یہ اچھی بات ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ضروری ہے کہ جنرل نالج پرکوئز مقابلے کروائے جائیں۔ یہ وقت کا تقاضا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو آئی اے ایس اور دیگر اعلیٰ عہدوں پر دیکھنا چاہتے ہیں اور ہر سال یہ شور مچاتے ہیں کہ ہمارے بہت کم طلبہ ان مشکل امتحانات میں کامیاب ہوپاتے ہیں جبکہ ہم اس بات کی طرف دھیان ہی نہیں دیتے ہیں کہ ان امتحانات میں کامیابی کی بنیادی سیڑھی ہی معلومات عامہ ہے۔ حامد اقبال صدیقی نے بیت بازی کے تعلق سے کہا کہ یہ موجودہ زمانے میں بہت مشینی انداز میں منعقد کی جارہی ہے جبکہ ماضی میں اس کا طریقہ بہت مختلف تھا۔ یہ بہت اچھے مقابلے ہوسکتے ہیں جن کی مدد سے طلبہ کی شخصیت سازی کی جاسکتی ہے، ان کا ادبی ذوق بیدار کیا جاسکتا ہے اور ان کی شعر پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو جلا بخشی جاسکتی ہے۔
بیت بازی کے موضوع پر سیکڑوں بہترین اشعار کے ذخیرے والی ’آپ مسافر، آپ ہی منزل ‘ جیسی شاندار کتاب ترتیب دینے والے سینئر معلم اقبال عثمان مومن نے کہا کہ ’’ بیت بازی نہایت اہم مقابلہ ہوتا ہےجس کے ذریعہ ہم مستقبل کے شاعرتیار کرسکتے ہیں ۔ ساتھ ہی طلبہ میں ادبی و شعر فہمی کا ذوق بھی پیدا کرسکتے ہیں۔ چونکہ طلبہ کو سیکڑوں اشعار ذہن نشین کرنے ہوتے ہیں اس لئے شعر پڑھنے اور اسے پڑھنے کے انداز کی ان کی جو مشق ہوتی ہے وہ میرے خیال میں کلاس رومس میں نہیں ہو سکتی۔ یہ مشق صرف ان مقابلوں میں حصہ لینےکے وقت ہی ہو تی ہے جس سے طلبہ کے ذہن و دل میں شعر گوئی کا ذوق بیدار ہوتا ہے۔ ‘‘ اقبال عثمان مومن کے مطابق شعر کی کیفیت اگر درست ہے اور وہ اسی کیفیت میں پڑھاگیا ہے جیسا کہ اسے پڑھا جانا چاہئے تو یہ ایسا لطف دیتا ہے کہ اس کا بدل نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سے طلبہ جو بیت بازی میں شامل ہوتے ہیں اپنے مستقبل میں بھی اشعار کو نہ صرف یاد رکھتے ہیں بلکہ وقتاً فوقتاً دوران گفتگو اسے پیش بھی کرتے رہتے ہیں۔ اقبال عثمان سر کے مطابق بیت بازی کی وجہ سے طلبہ کے سوچنے، سمجھنے اور تصور کرنے کی حدود میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان کی ذہنی استعداد بڑھتی ہے کیوں کہ ہر شعر اپنے آپ میں مکمل تو ہوتا ہے مختلف و منفرد بھی ہوتا ہے اور اسے اس کے انداز میں یاد رکھنے اور بر موقع پیش کرنے کیلئے صلاحیت درکار ہوتی ہےجو بیت بازی کی وجہ سے مزید نکھر جاتی ہے۔
رئیس ہائی اسکول کی سرگرم معلمہ اور طلبہ کومختلف کوئز مقابلوں اور بیت بازی کیلئے تیار کرانے والی صوفیہ فیاض مومن کے مطابق ’’بیت بازی کے مقابلوں سے قدیم اور جدید اردو زبان سے واقفیت پیدا ہوتی ہے، طلبہ کلاسیکل شعرا ء کے کلام سے روشناس ہوتے ہیں، اشعار کو درست آہنگ کے ساتھ پڑھنے کا سلیقہ آتا ہے، طلبہ کی قوت حافظہ مضبوط ہوتی ہے، کئی طلبہ بیت بازی کے بعد شعر کہنے کی بھی کوشش کرتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ غرض اس مقابلے سے طلبہ پوری طرح مستفیض ہوتے ہیں۔ ‘‘صوفیہ مومن کے مطابق کوئز مقابلوں کے ذریعےبھی طلبہ کو بہت فائدہ پہنچتا ہے کیوں کہ وہ ان کی عام معلومات میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔ یہ ایک اتنا بڑا فائدہ ہے اس کے سامنے دیگر سب باتیں ضمنی محسوس ہوں گی۔ عام معلومات میں اضافہ سے طلبہ کی خوداعتمادی بڑھتی ہے۔ ساتھ ہی مقابلہ جاتی امتحانات میں ان کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بیت بازی اور کوئز مقابلے دونوں ہی طلبہ کی ہمت جہت ترقی کی بنیاد ہیں۔ ان مقابلوں کا انعقاد نہ صرف ہوتے رہنا چاہئے بلکہ طلبہ کو بھی ان میں حصہ لینے سے پیچھے نہیں ہٹناچاہئے۔
بھیونڈی کے جی ایم مومن کالج کی بی ایس سی کی طالبہ مریم انصاری کے مطابق ’’کوئز مقابلوں سے ہماری عام معلومات میں کافی اضافہ ہوجاتا ہے۔ ساتھ ہی نئی نئی معلومات حاصل کرنے کا جذبہ بھی بیدار ہوتا ہے۔ ‘‘ مریم انصاری، جنہوں نے دہلی میں جشن ریختہ کے مقابلوں میں مہاراشٹر کی نمائندگی کی تھی اور انعام بھی جیتا تھا ، نے کہا کہ بیت بازی اور کوئز دونوں ہی مقابلے ایسے ہیں کہ یہ طلبہ کی معلومات سے لے کر ان کے ذوق تک کی آبیاری کرتے ہیں۔ اس لئے ایسے مقابلے وقتاً فوقتاً منعقد ہوتے رہنے چاہئیں۔