علم و حکمت کی جستجو قرآن مجید کا ایک اہم موضوع ہے اور اللہ کی کتاب نے بار بار انسان کو فطرت کےتمام داخلی و خارجی مظاہر پر غور کرنے کی دعوت دی ہے۔ ان مظاہر کو خدا نے اپنی قدرت کی نشانیوں سے تعبیر کیا ہے اور ان کا نام آیات رکھا ہے۔
EPAPER
Updated: February 08, 2025, 5:18 PM IST | Dr. Abdul Mughni | Mumbai
علم و حکمت کی جستجو قرآن مجید کا ایک اہم موضوع ہے اور اللہ کی کتاب نے بار بار انسان کو فطرت کےتمام داخلی و خارجی مظاہر پر غور کرنے کی دعوت دی ہے۔ ان مظاہر کو خدا نے اپنی قدرت کی نشانیوں سے تعبیر کیا ہے اور ان کا نام آیات رکھا ہے۔
فطرت و قدرت:
’’ تم رحمان کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤ گے، پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ ‘‘ (الملک:۶۷)
فطرت و قدرت کے الفاظ عام طور پر ایک ہی معنی میں استعمال کئے جاتے ہیں۔ لیکن ان کے درمیان لغت کے اعتبار سے ایک فرق ہے۔ فطرت دنیا میں پیدا ہونے والی چیزوں کی اصلیت ہے اور اس لحاظ سے ہستی کے جتنے مظاہر ہیں سب کا تعلق فطرت سے ہے۔ آدمی کے نقطۂ نظر سے ایک فطرت اس کے وجود کے اندر ہے، دوسری فطرت اس کی نگاہوں کے سامنے زمین سے آسمان تک پھیلی ہوئی پوری کائنات ہے۔ قدرت درحقیقت خدا کی قدرت، اس کی قوت و طاقت اور اس کے بنائے ہوئے اس منصوبہ و نظام کا نام ہے جو زندگی کے تمام جلوؤں اور پہلوؤں پر حاوی ہے۔ چنانچہ اگر محاورہ میں فطرت کو بھی قدرت کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات میں وجود کے تمام مظاہر کو ایک خدا کی مخلوقات سمجھا جاتا ہے۔ فطرت و قدرت کی یہ ہم آہنگی بلاوجہ نہیں ہے۔
یہ ہم آہنگی انسان کے ضمیر کی آواز بھی ہے اور زندگی کا قانون بھی۔ ہزاروں، لاکھوں سال سے جو کارخانۂ ہستی چل رہا ہے وہ بے بنیاد اور بے معنی نہیں۔ اس کا ایک مقصد ہے۔ آدمی کی عقل نے جس حد تک بھی اس مقصد کو سمجھا ہے اسے محسوس ہوا ہے کہ کائنات کی تخلیق کسی بالاتر ہستی کے ارادے سے، اس کے منصوبے کے مطابق ہوئی ہے اور حیات ایک نعمت ہے جو اس لئے دی گئی ہے کہ اس کے تقاضوں کو پورا کیا جائے اور اس کی ذمہ داریاں ادا کی جائیں۔ یہ احساس خدا کی مشیت اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر کی طرف بہت واضح اشارہ کرتا ہے جس سے زندگی کی اہمیت پر روشنی پڑتی ہے۔
یہ اہمیت انسان سے زندگی کے متعلق ایک سنجیدہ رویے کا مطالبہ کرتی ہے۔ دنیا کھیل تماشے کی جگہ نہیں ہے۔ یہاں کی زندگی کی جو نوعیت ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کچھ کر دکھانے کی جگہ ہے اور جو کچھ کیا جائے گا اس کا ایک اندازہ بھی لگایا جائے گا، جس کے مطابق کرنے والے کی حیثیت کا تعین ہوگا۔ ایسی حالت میں آدمی کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ وہ فطرت و قدرت کی حقیقتوں، اصولوں اور مطالبوں کو سمجھ کر ان کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرے تاکہ اس کی ہستی نہ صرف باقی رہے بلکہ اسے صحیح طور پر ترقی کا موقع ملے۔
حیات و کائنات
فطرت و قدرت کی طرح حیات و کائنات کے الفاظ بھی بکثرت ساتھ ساتھ استعمال کئے جاتے ہیں، گرچہ ان کے معنیٰ میں جوفرق ہے وہ لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں۔ اس کے باوجود یہ بات اپنی جگہ ہے کہ حیات و کائنات کے درمیان ایک اندرونی ربط ہے۔ حیات بغیر کائنات کے نہیں ہوسکتی، وہ کائنات کے اندر ہی ہوتی ہے اور اس کے تقاضے ایک کائنات بنالیتے ہیں۔ اسی طرح کائنات کا کوئی تصور حیات کے بغیر معمول کے مطابق نہیں کیا جاسکتا۔ کائنات جب ہے تو اس میں حیات بھی ہے۔ رہا یہ سوال کہ کائنات پہلے ہے یا حیات، تو اس کا جواب آسان نہیں اور یہ مرغی پہلے کہ انڈا، جیسا سوال ہوجاتا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ حیات و کائنات کا وجود ساتھ ساتھ ہوا۔
بہرحال، کائنات اور اس میں حیات کی جو شکل ہمارے سامنے ہے اور ہم نے دونوں کی حقیقت کا سراغ لگانے کے لئے جو کچھ کیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے اس کے سوا کوئی اقرار نہیں کرسکتے کہ حیات و کائنات کے متعلق ہمیں پوری سنجیدگی سے ایک رائے قائم اور ایک رویہ اختیار کرنا چاہئے تاکہ ہم سایوں اور سرابوں کے پیچھے نہ دوڑتے رہیں، دھوکا نہ کھائیں اور زندگی کو برباد نہ کریں بلکہ حقیقتوں کو سمجھ کر شعور کی روشنی میں اپنی قوت اور وقت کا استعمال زندگی کو نکھارنے اور سنوارنے کیلئے کریں تاکہ ایک منزل کی طرف بڑھیں، کامیابی اور ترقی کا راز اسی میں ہے۔
قرآن کا نظریۂ کائنات
قرآن نے پہلے پارے کی پہلی ہی سورہ کی بالکل ابتدائی آیتوں میں واضح کردیا ہے کہ اللہ کی کتاب، جو ختم المرسلین محمد ﷺ پر وحی کے ذریعے نازل کی گئی، ان لوگوں کو روشنی دکھاتی ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ چنانچہ کائنات و حیات کے آغاز کے متعلق، جو سراسر غیب کا معاملہ ہے، قرآن حکیم کی حسب ِ ذیل آیت ایک واضح اعلان کرتی ہے:
’’کیا وہ لوگ جنہوں نے (نبیؐ کی بات ماننے سے) انکار کر دیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے اِنہیں جدا کیا، اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی کیا وہ (ہماری اس خلّاقی کو) نہیں مانتے؟ ‘‘ (الانبیاء:۳۰)
اس کے فوراً بعد کی آیتوں میں تسلسل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے :
(۱)زمین میں پہاڑ جما دیئے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں، شاید کہ لوگ اپنا راستہ معلوم کر لیں۔
(۲)آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا۔
(۳) رات اور دن بنائے۔
(۴) سُورج اور چاند کو پیدا کیا۔
(۵)سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں ۔
(الانبیاء: ۳۱؍تا۳۳)
آخری نکتے پر مولانا مودودیؒ کا تفسیری نوٹ یہ ہے:
’’فلک، جو فارسی کے چرخ اور گردوں کا ٹھیک ہم معنی ہے، عربی زبان میں آسمان کے معروف ناموں میں سے ہے۔ ’’سب ایک فلک میں تیر رہے ہیں ‘‘ سے دو باتیں صاف سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک یہ کہ سب تارے ایک ہی ’’فلک‘‘ میں نہیں ہیں بلکہ ہر ایک کا فلک الگ ہے۔ دوسری یہ کہ فلک کوئی ایسی چیز نہیں جس میں یہ تارے کھونٹیوں کی طرح جڑے ہوئے ہوں اور وہ خود انہیں لئے ہوئے گھوم رہا ہو بلکہ وہ کوئی سیا شے یا فضا اور خلا کی سی نوعیت کی کوئی چیز ہے جس میں ان تاروں کی حرکت تیرنے کے فعل سے مشابت رکھتی ہے۔ ‘‘ ( ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی:سید ابوالاعلیٰ مودودی)
مذکورہ بالا سورہ الانبیاء کی آیت نمبر ۳۰؍ کیا کائنات کی تخلیق کے متعلق سائنس کے جدید ترین نظریے Big Bang کی طرف کھلا اشارہ نہیں کرتی؟ قرآن مجید کے الفاظ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ’’آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں جدا کیا‘‘ اس بیضہ ٔ اصلی پر ایک ضرب ِ عظیم کا بیان ہے جس کی بات سائنس کرتی ہے۔ قرآن کے الفاظ صریحاً زمین و آسمان کی مرکب شکل کے ٹوٹنے کا تذکرہ کرتے ہیں ، یعنی ابتدائے کائنات میں جب وجود کے عناصر ترکیبی ایک دوسرے میں خلط ملط تھے، ایک موردار دھماکہ (Explosion) خدا کے حکم سے، اس کی مشیت کے مطابق ہوا، جس کے بعد ہستی کا ارتقاء اگلے مراحل میں داخل ہوا۔ دھماکے سے پہلے بھی جو عناصر پیدا ہوکر ایک مرکب شکل میں یک جا ہوئے وہ خدا کی قدرت ہی کا کرشمہ تھا۔ وہی تمام چیزوں کا خالق ہے۔ عناصر ِوجود کی تخلیق، تحلیل اور ترکیب سب کچھ اسی کی قدرت و مشیت کے تحت ہی ہوا ہے، ہورہا ہے اور ہوگا۔
اس سلسلے میں زیر بحث آیت کا یہ جملہ کہ ’’پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی‘‘ کائنات اور اس میں حیات کی تخلیق و ترقی کے متعلق سائنس کی ایک اہم تصویر پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سائنس نے جو نظریہ مشاہدے اور تجربے کے بعد قائم کیا اس کی طرف اللہ کی کتاب وحی کے ذریعے واضح اشارہ کرتی ہے۔ قرآن مجید کا فکرانگیز جملہ بالکل عام اور جامع ہے تمام زندہ چیزوں کے لئے، جبکہ زندگی کا اطلاق انسان اور حیوان کے علاوہ نباتات اور جمادات پر بھی ہوسکتا ہے۔ پودے جس طرح اگتے بڑھتے اور پہاڑ بنتے پھیلتے ہیں وہ زندگی کی ایک علامت ہے۔ اس لئے ہر مخلوق، زندگی کے کسی بھی دائرے میں ، پانی کے مادہ حیات ہونے کی شہادت دیتی ہے۔ پھر پانی کو بنیادی مادہ مان کر مختلف سطحوں پر مختلف قسم کی مخلوقات کے ارتقا کا امکان بھی ہے۔ بہرحال، جو چیز بھی پیدا ہوئی یا ہوتی ہے اس کا خالق خدا ہے اور پانی کو بھی اس نے پیدا کرکے دیگر اشیاء و مخلوقات کی تخلیق کے لئے مادے کے طور پر استعمال کیا۔ (جاری)