علم و حکمت کی جستجو قرآن مجید کا ایک اہم موضوع ہے اور اللہ کی کتاب نے بار بار انسان کو فطرت کےتمام داخلی و خارجی مظاہر پر غور کرنے کی دعوت دی ہے۔ ان مظاہر کو خدا نے اپنی قدرت کی نشانیوں سے تعبیر کیا ہے اور ان کا نام آیات رکھا ہے۔
EPAPER
Updated: February 22, 2025, 3:47 PM IST | Dr. Abdul Mughni | Mumbai
علم و حکمت کی جستجو قرآن مجید کا ایک اہم موضوع ہے اور اللہ کی کتاب نے بار بار انسان کو فطرت کےتمام داخلی و خارجی مظاہر پر غور کرنے کی دعوت دی ہے۔ ان مظاہر کو خدا نے اپنی قدرت کی نشانیوں سے تعبیر کیا ہے اور ان کا نام آیات رکھا ہے۔
فطرت و قدرت:
’’ تم رحمان کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤ گے، پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ ‘‘ (الملک:۶۷)
فطرت و قدرت کے الفاظ عام طور پر ایک ہی معنی میں استعمال کئے جاتے ہیں۔ لیکن ان کے درمیان لغت کے اعتبار سے ایک فرق ہے۔ فطرت دنیا میں پیدا ہونے والی چیزوں کی اصلیت ہے اور اس لحاظ سے ہستی کے جتنے مظاہر ہیں سب کا تعلق فطرت سے ہے۔ آدمی کے نقطۂ نظر سے ایک فطرت اس کے وجود کے اندر ہے، دوسری فطرت اس کی نگاہوں کے سامنے زمین سے آسمان تک پھیلی ہوئی پوری کائنات ہے۔ قدرت درحقیقت خدا کی قدرت، اس کی قوت و طاقت اور اس کے بنائے ہوئے اس منصوبہ و نظام کا نام ہے جو زندگی کے تمام جلوؤں اور پہلوؤں پر حاوی ہے۔ چنانچہ اگر محاورہ میں فطرت کو بھی قدرت کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات میں وجود کے تمام مظاہر کو ایک خدا کی مخلوقات سمجھا جاتا ہے۔ فطرت و قدرت کی یہ ہم آہنگی بلاوجہ نہیں ہے۔
یہ ہم آہنگی انسان کے ضمیر کی آواز بھی ہے اور زندگی کا قانون بھی۔ ہزاروں، لاکھوں سال سے جو کارخانۂ ہستی چل رہا ہے وہ بے بنیاد اور بے معنی نہیں۔ اس کا ایک مقصد ہے۔ آدمی کی عقل نے جس حد تک بھی اس مقصد کو سمجھا ہے اسے محسوس ہوا ہے کہ کائنات کی تخلیق کسی بالاتر ہستی کے ارادے سے، اس کے منصوبے کے مطابق ہوئی ہے اور حیات ایک نعمت ہے جو اس لئے دی گئی ہے کہ اس کے تقاضوں کو پورا کیا جائے اور اس کی ذمہ داریاں ادا کی جائیں۔ یہ احساس خدا کی مشیت اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر کی طرف بہت واضح اشارہ کرتا ہے جس سے زندگی کی اہمیت پر روشنی پڑتی ہے۔
یہ اہمیت انسان سے زندگی کے متعلق ایک سنجیدہ رویے کا مطالبہ کرتی ہے۔ دنیا کھیل تماشے کی جگہ نہیں ہے۔ یہاں کی زندگی کی جو نوعیت ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کچھ کر دکھانے کی جگہ ہے اور جو کچھ کیا جائے گا اس کا ایک اندازہ بھی لگایا جائے گا، جس کے مطابق کرنے والے کی حیثیت کا تعین ہوگا۔ ایسی حالت میں آدمی کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ وہ فطرت و قدرت کی حقیقتوں، اصولوں اور مطالبوں کو سمجھ کر ان کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرے تاکہ اس کی ہستی نہ صرف باقی رہے بلکہ اسے صحیح طور پر ترقی کا موقع ملے۔
حیات و کائنات
فطرت و قدرت کی طرح حیات و کائنات کے الفاظ بھی بکثرت ساتھ ساتھ استعمال کئے جاتے ہیں، گرچہ ان کے معنیٰ میں جوفرق ہے وہ لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں۔ اس کے باوجود یہ بات اپنی جگہ ہے کہ حیات و کائنات کے درمیان ایک اندرونی ربط ہے۔ حیات بغیر کائنات کے نہیں ہوسکتی، وہ کائنات کے اندر ہی ہوتی ہے اور اس کے تقاضے ایک کائنات بنالیتے ہیں۔ اسی طرح کائنات کا کوئی تصور حیات کے بغیر معمول کے مطابق نہیں کیا جاسکتا۔ کائنات جب ہے تو اس میں حیات بھی ہے۔ رہا یہ سوال کہ کائنات پہلے ہے یا حیات، تو اس کا جواب آسان نہیں اور یہ مرغی پہلے کہ انڈا، جیسا سوال ہوجاتا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ حیات و کائنات کا وجود ساتھ ساتھ ہوا۔
بہرحال، کائنات اور اس میں حیات کی جو شکل ہمارے سامنے ہے اور ہم نے دونوں کی حقیقت کا سراغ لگانے کے لئے جو کچھ کیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے اس کے سوا کوئی اقرار نہیں کرسکتے کہ حیات و کائنات کے متعلق ہمیں پوری سنجیدگی سے ایک رائے قائم اور ایک رویہ اختیار کرنا چاہئے تاکہ ہم سایوں اور سرابوں کے پیچھے نہ دوڑتے رہیں، دھوکا نہ کھائیں اور زندگی کو برباد نہ کریں بلکہ حقیقتوں کو سمجھ کر شعور کی روشنی میں اپنی قوت اور وقت کا استعمال زندگی کو نکھارنے اور سنوارنے کیلئے کریں تاکہ ایک منزل کی طرف بڑھیں، کامیابی اور ترقی کا راز اسی میں ہے۔
قرآن کا نظریۂ کائنات
قرآن نے پہلے پارے کی پہلی ہی سورہ کی بالکل ابتدائی آیتوں میں واضح کردیا ہے کہ اللہ کی کتاب، جو ختم المرسلین محمد ﷺ پر وحی کے ذریعے نازل کی گئی، ان لوگوں کو روشنی دکھاتی ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ چنانچہ کائنات و حیات کے آغاز کے متعلق، جو سراسر غیب کا معاملہ ہے، قرآن حکیم کی حسب ِ ذیل آیت ایک واضح اعلان کرتی ہے:
’’کیا وہ لوگ جنہوں نے (نبیؐ کی بات ماننے سے) انکار کر دیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے اِنہیں جدا کیا، اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی کیا وہ (ہماری اس خلّاقی کو) نہیں مانتے؟ ‘‘ (الانبیاء:۳۰)
اس کے فوراً بعد کی آیتوں میں تسلسل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے :
(۱)زمین میں پہاڑ جما دیئے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں، شاید کہ لوگ اپنا راستہ معلوم کر لیں۔
(۲)آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا۔
(۳) رات اور دن بنائے۔
(۴) سُورج اور چاند کو پیدا کیا۔
(۵)سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں ۔
(الانبیاء: ۳۱؍تا۳۳)
آخری نکتے پر مولانا مودودیؒ کا تفسیری نوٹ یہ ہے:
’’فلک، جو فارسی کے چرخ اور گردوں کا ٹھیک ہم معنی ہے، عربی زبان میں آسمان کے معروف ناموں میں سے ہے۔ ’’سب ایک فلک میں تیر رہے ہیں ‘‘ سے دو باتیں صاف سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک یہ کہ سب تارے ایک ہی ’’فلک‘‘ میں نہیں ہیں بلکہ ہر ایک کا فلک الگ ہے۔ دوسری یہ کہ فلک کوئی ایسی چیز نہیں جس میں یہ تارے کھونٹیوں کی طرح جڑے ہوئے ہوں اور وہ خود انہیں لئے ہوئے گھوم رہا ہو بلکہ وہ کوئی سیا شے یا فضا اور خلا کی سی نوعیت کی کوئی چیز ہے جس میں ان تاروں کی حرکت تیرنے کے فعل سے مشابت رکھتی ہے۔ ‘‘ ( ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی:سید ابوالاعلیٰ مودودی)
مذکورہ بالا سورہ الانبیاء کی آیت نمبر ۳۰؍ کیا کائنات کی تخلیق کے متعلق سائنس کے جدید ترین نظریے Big Bang کی طرف کھلا اشارہ نہیں کرتی؟ قرآن مجید کے الفاظ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ’’آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں جدا کیا‘‘ اس بیضہ ٔ اصلی پر ایک ضرب ِ عظیم کا بیان ہے جس کی بات سائنس کرتی ہے۔ قرآن کے الفاظ صریحاً زمین و آسمان کی مرکب شکل کے ٹوٹنے کا تذکرہ کرتے ہیں ، یعنی ابتدائے کائنات میں جب وجود کے عناصر ترکیبی ایک دوسرے میں خلط ملط تھے، ایک موردار دھماکہ (Explosion) خدا کے حکم سے، اس کی مشیت کے مطابق ہوا، جس کے بعد ہستی کا ارتقاء اگلے مراحل میں داخل ہوا۔ دھماکے سے پہلے بھی جو عناصر پیدا ہوکر ایک مرکب شکل میں یک جا ہوئے وہ خدا کی قدرت ہی کا کرشمہ تھا۔ وہی تمام چیزوں کا خالق ہے۔ عناصر ِوجود کی تخلیق، تحلیل اور ترکیب سب کچھ اسی کی قدرت و مشیت کے تحت ہی ہوا ہے، ہورہا ہے اور ہوگا۔
اس سلسلے میں زیر بحث آیت کا یہ جملہ کہ ’’پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی‘‘ کائنات اور اس میں حیات کی تخلیق و ترقی کے متعلق سائنس کی ایک اہم تصویر پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سائنس نے جو نظریہ مشاہدے اور تجربے کے بعد قائم کیا اس کی طرف اللہ کی کتاب وحی کے ذریعے واضح اشارہ کرتی ہے۔ قرآن مجید کا فکرانگیز جملہ بالکل عام اور جامع ہے تمام زندہ چیزوں کے لئے، جبکہ زندگی کا اطلاق انسان اور حیوان کے علاوہ نباتات اور جمادات پر بھی ہوسکتا ہے۔ پودے جس طرح اگتے بڑھتے اور پہاڑ بنتے پھیلتے ہیں وہ زندگی کی ایک علامت ہے۔ اس لئے ہر مخلوق، زندگی کے کسی بھی دائرے میں ، پانی کے مادہ حیات ہونے کی شہادت دیتی ہے۔ پھر پانی کو بنیادی مادہ مان کر مختلف سطحوں پر مختلف قسم کی مخلوقات کے ارتقا کا امکان بھی ہے۔ بہرحال، جو چیز بھی پیدا ہوئی یا ہوتی ہے اس کا خالق خدا ہے اور پانی کو بھی اس نے پیدا کرکے دیگر اشیاء و مخلوقات کی تخلیق کے لئے مادے کے طور پر استعمال کیا۔
نظریۂ کائنات کی تشریح کے ساتھ ساتھ نظریہ ٔ حیات کی وضاحت بھی ضروری ہے اس لئے کہ اول تو کائنات خود ایک مظہر حیات (Phenemenon of Life) ہے، دوسرے کائنات بے حیات نہیں ہوسکتی اور کائنات کے اندر حیات کا وجود لازماً ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ خود قرآن نے زمین و آسمان کے مرکب کے اجزائے ترکیبی کو ایک دوسرے سے جدا کرکے تخلیق کائنات کے آغاز کی جو نشاندہی ایک آیت میں ہے، جس کا حوالہ دیا جاچکا ہے، اس میں یہ صراحت بھی کردی ہے کہ خدا نے ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا، یعنی کائنات کے وجود میں آنے کے ساتھ ساتھ حیات کا عمل بھی شروع ہوگیا۔ لہٰذا دیکھناچاہئے کہ کائنات میں حیات کے وجود کے متعلق قرآن کا نقطۂ نظر کیا ہے؟
قرآن کا موقف سمجھنے کے لئے سب سے پہلے حسب ذیل آیات پر ایک نظر ڈالنی چاہئے :
l ’’ہم نے انسان کو سٹری ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا۔ ‘‘ (الحجر: ۲۶)
l ’’اور اُس سے پہلے جنوں کو ہم آگ کی لپٹ سے پیدا کر چکے تھے۔ ‘‘ (الحجر:۲۷)
l ’’وہی جس نے تمہارے لئے زمین کا فرش بچھایا، اور اُس میں تمہارے چلنے کو راستے بنائے، اور اوپر سے پانی برسایا، پھر اُس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار نکالی۔ کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چَراؤ یقیناً اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کیلئے۔ ‘‘ (طٰہٰ: ۵۳۔ ۵۴)
l ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا، پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔ پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا۔ پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔ ‘‘
(المومنون: ۱۲؍ تا ۱۵)
l ’’اور کیا انہوں نے کبھی زمین پر نگاہ نہیں ڈالی کہ ہم نے کتنی کثیر مقدار میں ہر طرح کی عمدہ نباتات اس میں پیدا کی ہیں ؟ یقیناً اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں ۔ ‘‘ (الشعراء:۷۔ ۸)
l ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور پھر اس کے ذریعہ سے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں پہاڑوں میں بھی سفید، سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہیں حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اُس سے ڈرتے ہیں ۔ ‘‘ (فاطر: ۲۷۔ ۲۸)
l ’’اُسی نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر وہی ہے جس نے اُس جان سے اس کا جوڑا بنایا اور اسی نے تمہارے لئے مویشیوں میں سے آٹھ نر و مادہ پیدا کیے وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے یہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں ) تمہارا رب ہے، بادشاہی اسی کی ہے، کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے، پھر تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو؟ ‘‘ (الزمر:۶)
l ’’اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں، شاید کہ تم اس سے سبق لو۔ ‘‘ (الذاریات:۴۹)
l ’’کیا یہ کسی خالق کے بغیر خود پیدا ہو گئے ہیں ؟ یا یہ خود اپنے خالق ہیں ؟ ‘‘ (الطور:۳۵)
l ’’ہم نے ہر چیز ایک تقدیر کے ساتھ پیدا کی ہے اور ہمارا حکم بس ایک ہی حکم ہوتا ہے اور پلک جھپکاتے وہ عمل میں آ جاتا ہے۔ ‘‘
(القمر:۴۹۔ ۵۰)
l ’’حالانکہ اُس نے طرح طرح سے تمہیں بنایا ہے۔ ‘‘ (نوح:۱۴)
(یعنی مولانا مودودی کہتے ہیں ’’تخلیق کے مختلف مدارج اور اطوار سے گزارتا ہوا تمہیں موجودہ حالت پر لایا ہے۔ ‘‘)
l ’’اور اللہ نے تم کو زمین سے عجیب طرح اگایا۔ ‘‘ (نوح:۱۷)
l ’’کیا انسان پر لا متناہی زمانے کا ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا؟ ‘‘ (الدھر:۱)
l ’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ ‘‘ (التین:۴)
مذکورہ بالات آیات کے اشارے سے واضح ہوتا ہے کہ زندگی سر راہے پڑی ہوئی کوئی حودکار چیز نہیں ہے، یہ باضابطہ پیدا کی گئی ہے اور کوئی اس کا پیدا کرنے والا ہے۔ اس بات کا خالق نے حود دعویٰ کیا ہے اور تخلیق کی نسبت اپنی طرف کی ہے، اس لئے کہ وہی خدائے کائنات اور مالک حیات ہے۔ اس نے کائنات کے ساتھ ساتھ حیات ایک اندازے اور منصوبے کے مطابق پیدا کی ہے۔ یہ اس کی بنائی ہوئی تقدیر ہے جس کے تحت ہر چیز بقدر ضروری، پوری اہمیت کے ساتھ پیدا کی گئی ہے۔ ہستی کا ایک نظام ہے جو قدرت ِ الٰہی کے مرتب کئے ہوئے فطری ضابطوں پر مبنی ہے۔ وجود نرا وجود نہیں ہے، اس کے کچھ قواعد اور کچھ مقاصد ہیں ۔ وجود کی بے شمار شکلیں ہیں جو ایک منطقی ربط کے ساتھ باہم مربوط ہیں۔
منصوبۂ تخلیق
حیات و کائنات کے وجود کا تجسس کرتے ہوئے ہر صاحب علم کو یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہئے کہ زمین سے آسمان تک فطرت کےعظیم الشان نظام کا منصوبہ ٔ تخلیق کیا ہے؟ اس اہم ترین سوال کا بہترین جواب وہی ہے جو خودا کے لفظوں میں قرآن مجید نے دیا ہے۔ اس سلسلے میں حسب ذیل آیات پر اچھی طرح غور کیا جانا چاہئے:
l ’’یہ آسمان و زمین اور اِن کے درمیان کی چیزیں ہم نے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنا دی ہیں۔ اِن کو ہم نے برحق پیدا کیا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔ ‘‘ (الدخان: ۳۸۔ ۳۹)
l ’’نہایت بزرگ و برتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں کائنات کی سلطنت ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی۔ ‘‘ (الملک:۱۔ ۲)
l ’’اللہ نے تو آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے اور اس لئے کیا ہے کہ ہر متنفس کو اُس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے لوگوں پر ظلم ہرگز نہ کیا جائے گا۔ ‘‘ (الجاثیہ:۲۲)
l ’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے، یہیں ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردش ایام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہلاک کرتی ہو" در حقیقت اِس معاملہ میں اِن کے پاس کوئی علم نہیں ہے یہ محض گمان کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں ۔ ‘‘ (الجاثیہ:۲۴)
l ’’لوگو! بندگی اختیار کرو اپنے اُس رب کی جو تمہارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں اُن سب کا خالق ہے، تمہارے بچنے کی توقع اِسی صورت ہوسکتی ہے۔ ‘‘ (البقرہ:۲۱)
l ’’پس (اے نبیؐ، اور نبیؐ کے پیروؤں ) یک سُو ہو کر اپنا رُخ اِس دین کی سمت میں جما دو، قائم ہو جاؤ اُس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔ ‘‘ (الروم: ۳۰)
l ’’ہم نے اس آسمان اور زمین کو، اور اس دنیا کو جو ان کے درمیان ہے، فضول پیدا نہیں کر دیا ہے۔ ‘‘ (صٓ: ۲۷)
l ’’پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں انہوں نے عرض کیا:کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقر ر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لئے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں۔ فرمایا:میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے۔ اس کے بعد اللہ نے آدمؑ کو ساری چیزوں کے نام سکھائے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا اگر تمہارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا) تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ انہوں نے عرض کیا: نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں۔ پھر اللہ نے آدمؑ سے کہا: تم اِنہیں اِن چیزوں کے نام بتاؤ" جب اس نے ان کو اُن سب کے نام بتا دیے، تو اللہ نے فرمایا: میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں، جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو، وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے بھی میں جانتا ہوں۔ پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدمؑ کے آگے جھک جاؤ، تو سب جھک گئے، مگر ابلیس نے انکار کیا وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا۔ ‘‘ (البقرہ:۳۰؍تا ۳۴)
ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حیات و کائنات کی تخلیق ایک منصوبے کے تحت، ایک مقصد کے لئے ہوئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ خدا کی بندگی کرتے ہوئے انسان اپنی زندگی میں روئے زمین پر نیابت ِ الٰہی کی امانت کا حق ادا کرے اور اس مقصد کے لئے جہاں ہر ہر فرد بہترین شعور و کردار کا ثبوت دے وہیں پوری نوع انسانی ہر سطح پر ہمہ جہت ترقی کرے تاکہ عالم وجود کا ارتقا اس حد تک پہنچ جائے جو خدا نے مخلوقات کی ہستی کے لئے مقرر کردی ہے۔ یہ فروغ ہستی عروج انسانیت بھی ہے۔ اسلام کی روایات میں نبی کریم ﷺ کو حاصل ہونے والی روحانی و جسمانی معراج، جس کا بیان قرآن کی سورہ بنی اسرائیل اورسورہ نجم میں ہوا ہے، ایک مربوط و متوازن ارتقائے وجود کی وہ انتہا ہے جس کے آگے انسان کا تصور نہیں جاسکتا۔ زمین و آسمان کی وسعت کے مقابلے میں آدمی کی قوتوں کا پیمانہ مختصر ہے لہٰذا اگر وہ عقل سلیم سے کام لے تو اپنے محدود علم پر ناز کرنے کے بجائے ان باتوں کا علم، جن کا سمجھنا اس کیلئے محال ہے، خدا سے طلب کرے اور اس کے لبوں پر یہ دعا ہو:
’’اے میرے رب! مجھے مزید علم عطا کر۔ ‘‘(طٰہٰ: ۱۱۴)
یہ درحقیقت اس حکمت کی طلب ہوگی جسے قرآن مجید نے ’’خیر کثیر‘‘ قرار دیا ہے:
’’جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی، اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔ ‘‘ (البقرہ:۲۶۹)
علم و حکمت کی جستجو قرآن حکیم کا ایک موضوع ہے اور اللہ کی کتاب نے بار بار انسان کو فطرت کے تمام داخلی و خارجی مظاہر پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے۔ ان مظاہر کو خدا نے اپنی نشانیوں سے تعبیر کیا ہے اور ان کا نام آیات رکھا ہے۔ کائنات میں ہر طرف خدا کی آیات پھیلی ہوئی ہیں اور پیہم ان آیات کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ لہٰذا دیدہ وری کا تقاضا ہے کہ ہدایت ِ الٰہی کے تحت ان آیات پر تدبر کرکے ایسی تدبیروں سے کام لیا جائے جو حق و صداقت کو واضح کردیں۔ آدمی کو جو قوتیں فطری طور پر دی گئی ہیں ان کا صحیح مصرف یہی ہے:
’’عنقریب ہم اِن کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ اِن پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تمہاراا رب ہر چیز کا شاہد ہے؟ ‘‘
(حم السجدہ:۵۳)