Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

دُعا دل سے نکلی تھی اس لئے اُمید ہے قبول ہوگی!

Updated: March 24, 2025, 11:10 AM IST | Saaima Shaikh | Mumabi

مَیں نے پیچھے پلٹ کر دیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ شخص شاید آگے بڑھ چکا تھا۔ دیر تک اس کے جملے ذہن میں گردش کرتے رہے اور دل پر بوجھ سا محسوس ہونے لگا کہ موجودہ دَور میں ہر چیز کی غیر معمولی فراوانی کے باوجود وہ لوگ بڑی مشکل سے کچھ خرید پاتے ہیں جن کی قوتِ خرید کم ہے۔

National Dairy`s Malpoh is famous from Mumbai to Dubai. Photo: INN
نیشنل ڈیری کا مالپوہ ممبئی سے دبئی تک شہرت رکھتا ہے۔ تصویر: آئی این این

رمضان کا دوسرا عشرہ شروع ہوچکا تھا۔ دن کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔ مَیں جلدی جلدی گھر کے کام نپٹا رہی تھی کہ تبھی مانوس آواز آئی، ’’مچھی والا، جھینگا ہے بومبل ہے راوس ہے..... مچھی والا!‘‘ میرے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ مسکراہٹ کی وجہ یہ تھی کہ ماں ہمیشہ ان سے ہی مچھلی لیتی ہیں مگر رمضان میں یہ کہہ کر منع کر دیتی ہیں کہ ’’بھیا رمضان میں کون مچھلی کھاتا ہے۔‘‘ پھر مجھے یاد آیا کہ مچھلی والے چچا تو کئی مہینوں سے گاؤں گئے ہوئے تھے یہ اچانک رمضان میں کیوں آگئے؟ خیر مَیں نے ہاتھ تیزی سے چلانے شروع کئے کیونکہ مجھے دفتر کے لئے نکلنا تھا۔ کچھ دیر بعد گھر سے نکلی اور ماں کے گھر گئی جو کچھ ہی فاصلے پر ہے۔ ان سے دعا سلام کرکے دفتر کی راہ لینے کا ارادہ تھا کہ مجھے مچھلی والے چچا یاد آگئے۔
مَیں نے ماں سے پوچھا، ’’مچھلی والے چچا آئے تھے؟‘‘ تو بولی، ’’ہاں آئے تھے اور مَیں نے مچھلی نہیں لی۔ ان سے کہا بھی کہ اس مہینے کیوں آگئے تو کہنے لگے تین تین بیٹے ہیں مگر ایک بھی کام نہیں کرتے۔ مئی میں بیٹی کی شادی کی تاریخ طے کر لیا ہوں۔ اب شادی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے تو نہیں ہوجائے گی اس لئے رمضان میں آگیا ہوں۔‘‘ اتنا بتانے کے بعد ماں نے رک کر کہا، ’’اللہ اس کی مشکل آسان کرے۔‘‘ دعا دل سے نکلی تھی اس لئے اُمید ہے کہ بارگاہِ خداوندی میں قبول بھی ہوجائے۔ آمین!
رمضان کے ۲؍ ہفتے گزرنے کے بعد میکے میں افطار کرنا طے پایا تھا۔ اب پترا چال کا منظرنامہ پوری طرح سے بدل چکا ہے۔ ان گلیوں میں گزرتے وقت زیادہ تر اجنبی چہرے نظر آتے ہیں۔ کبھی کبھار ہی کوئی شناسا دکھائی دیتا ہے تو محلے کی اجنیبت کچھ کم ہوجاتی ہے۔ دراصل بائیکلہ اور آس پاس کے علاقے کی کچی بستیاں بڑی تیزی سے ٹاوروں میں بدل رہی ہیں جس کی وجہ سے آس پاس کے کارخانہ دار اپنی فیملی سمیت ہمارے محلوں میں بسنا شروع ہوگئے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ محلے والے بلڈنگوں میں منتقل ہو رہے ہیں اور بیرونی علاقوں نیز ریاستوں سے آنے والے اس محلے میں بس رہے ہیں۔ اس وجہ سے محلے میں اب پہلی جیسی بات نہیں رہی اور خاص طور پر رمضان میں وہ رونق نہیں رہی جو ہوا کرتی تھی۔ مغرب کا وقت قریب تھا، دسترخوان سجا ہوا تھا اور اس پر انواع اقسام کی چیزیں۔ ہم سبھی اللہ کے ذکر میں مصروف تھے کہ پڑوس سے چنے کی تکرار (لگتا ہے آج پھر کسی کے حصے میں چنا کم آیا) کی آوازیں آنے لگیں۔ ہم سبھی مسکرا دیئے۔ یقیناً محلہ بدل گیا ہے مگر بچپن ہی سے پڑوس سے چنے کیلئے ہونے والی تکرار اب بھی ویسی کی ویسی ہے۔ ابھی میرے ذہن میں یہی باتیں گردش کررہی تھیں کہ مؤذن صاحب نے اللہ اکبر کی صدا لگائی اور ہم سب کا ہاتھ کھجور کی طرف بڑھ گیا۔
رات میں رمضان کی رونق دیکھنے کی غرض سے نکلے۔ چشتی ہندوستانی مسجد (بائیکلہ) کے پاس تھوڑی بہت چہل پہل تھی۔ اس کے بعد سے فائر بریگیڈ تک سناٹا نظر آیا۔ کلیئر روڈ پر لائن سے بچوں کے کپڑوں کے شو روم تھے وہاں اچھی خاصی بھیڑ تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بچوں کی ضد نے والدین کو یہاں آنے پر مجبور کیا تھا۔ وہاں سے آگے بڑھتے ہوئے رائس اینڈ گرل تک بھیڑ نہ کے برابر نظر آئی۔ اسی فٹ پاتھ پر کئی باورچیوں کی دکانیں ہیں۔ وہاں بھی سناٹا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ افطار کے لئے تیار کئے گئے لوازمات (کباب، کٹلیٹس، رول، چکن اسٹکس وغیرہ) کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ پھر مجھے یاد آیا کہ لوگوں کے پاس خرچ کرنے کے لئے روپے نہیں ہیں اس لئے بیشتر کا کاروبار متاثر ہے۔ مَیں نے وہاں کے ہوٹلوں کی جانب بھی نگاہ دوڑائی وہاں بھی مجھے سناٹا نظر آیا جبکہ پچھلے سال ان ہوٹلوں میں کھانے کے لئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ یہاں سے ہمارا گھر لوٹنے کا تھا مگر راستے میں نیشنل ڈیری اینڈ سوئٹس میں بھیڑ کم دیکھ کر ہم نے مالپوہ خریدنے کا ارادہ کیا۔ یہاں کا مالپوہ ممبئی سے دبئی تک شہرت رکھتا ہے۔ ۵۰۰؍ سے ۴؍ ہزار روپے تک کے مختلف قسم کے مالپوئے اس دکان کی خصوصیت ہے لیکن اس کا مزہ چکھنے کے لئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی نجو انکل (مرحوم) سے درخواست کرنی پڑتی تھی تب جا کر مالپوہ جلدی مل جاتا تھا۔ مگر اس مرتبہ ان کے یہاں بھی بھیڑ نہیں ہے اس لئے ہم نے موقع غنیمت جانتے ہوئے مالپوہ پارسل لے لیا۔
ابھی گھر میں داخل ہی ہونے والی تھی کہ میری سماعت سے چند جملے ٹکرائے، ’’بازار گئے تھے بچہ کا شاپنگ کرنے، بہت مہنگا ہے۔ یہ (شاید وہ کپڑا دکھا رہا ہو) ۲؍ ہزار کا ہے۔ بچہ عید میں کپڑا نہیں پہنے گا تو اچھا نہیں لگے گا۔ ان کی ہی تو عید ہوتی ہے۔‘‘ یہ جملے دل پر شاق گزریں۔
مَیں نے پیچھے پلٹ کر دیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ شخص شاید آگے بڑھ چکا تھا۔ دیر تک اس کے جملے ذہن میں گردش کرتے رہے اور دل پر بوجھ سا محسوس ہونے لگا کہ موجودہ دَور میں ہر چیز کی غیر معمولی فراوانی کے باوجود وہ لوگ بڑی مشکل سے کچھ خرید پاتے ہیں جن کی قوتِ خرید کم ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK