جس مال پر زکوٰۃنہ دی گئی قیامت کے دن اُسے صاحب ِمال کی گردن میں طوق بنا دیا جائیگا۔
EPAPER
Updated: March 07, 2025, 3:49 PM IST | Maulana Abdul Malik | Mumbai
جس مال پر زکوٰۃنہ دی گئی قیامت کے دن اُسے صاحب ِمال کی گردن میں طوق بنا دیا جائیگا۔
ارکان اسلام میں نماز کے ساتھ ہی زکوٰۃ اور عشر کی ادائیگی ہے۔ قرآن پاک میں بھی صلوٰۃ و زکوٰۃ کا ذکر اکثر ساتھ ساتھ ملتا ہے۔ زکوٰۃ اسلام کے مالی نظام کی بنیاد اور معاشی مسائل کا حل نیز انفرادی تزکیے کا ذریعہ ہے۔ اسلامی معاشرہ میں زکوٰۃ اور عشر کی مکمل ادائیگی سے معاشرے کے بہت سے مسائل جو آج عذابِ جاں اور سوہانِ روح بنے ہوئے ہیں، حل ہوجاسکتے ہیں۔
دورِ زوال میں بھی مسلمانوں نے زکوٰۃ کی ادائیگی کو بطور ایک فرض کے برقرار رکھا ہے۔ جسے بھی ایمان کے تقاضے پورے کرنے کا احساس ہے وہ فکرمندی سے اپنی زکوٰۃ کا حساب کرتا اور ادا کرتا ہے۔ عموماً یہ رمضان میں ادا کی جاتی ہے۔ اس سے ضرورت مندوں کی ضرورت پوری ہوتی ہے، دعوتی منصوبے مکمل ہوتے ہیں، مدارس کا پورا نظام چلتا ہے۔
زکوٰۃ ادا کرنے والوں کو بہت احتیاط سے زکوٰۃ کا حساب لگا کر ادا کرنا چاہئے۔ کسی رقم پر زکوٰۃ فرض ہو اور نہ دی جائے تو وبال ہوگا۔ خود ضروری علم نہ رکھتے ہوں تو جاننے والوں سے پوچھ کر ادا کرنا چاہئے۔
زکوٰۃ کے اثاثے
ایک آدمی کے پاس نقد رقم اپنے گھر میں ہو، بینک کے کسی کھاتے میں ہو، کسی تجارتی کمپنی میں ہو، ڈاک خانے میں ہو، ڈیفنس سرٹیفکیٹ کی شکل میں ہو، این آئی ٹی یونٹ، تجارتی صنعتی خام مال یا تیار شدہ مال کی شکل میں ہو، یا غیرملکی کرنسی کی صورت میں ہو، یا مکان یا دکان کی آمدنی کی شکل میں ہو، ہر ایک کا اڑھائی (ڈھائی) فی صد زکوٰۃ میں دینا ہوگا۔
قرض جو کسی کو دیا ہو اور اس کے ملنے کی اُمید ہو تو اس کی بھی سال بہ سال اڑھائی فی صد زکوٰۃ دینا ہوگی۔ اگر قرض لیا ہوا ہو تو اسے منہا کر کے زکوٰۃ دی جائے گی۔ اسی طرح زمین کی پیداوار اگر بارانی ہو تو اس کا ۱۰؍ فی صد اور نہری اور ٹیوب ویل سے سیراب ہو تو ۵؍ فی صد دینا ہوگا۔
وہ زمین، مکان، پلاٹ جو کاروبار (سرمایہ کاری) کی نیت سے خریدے ہوں، ان کی مالیت کا مارکیٹ ریٹ کے مطابق تعین کر کے ان کی زکوٰۃ دینا ہوگی۔ کرایے پر اٹھائے ہوئے مکان یا رہائش کیلئے خریدے ہوئے مکان، پلاٹ یا پلاٹوں پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ کرایے کے مکان سے جو آمدنی ہوگی، اس پر زکوٰۃ عائد ہوگی۔
زکوٰۃ کے ساتھ اِنفاق بھی
بعض لوگ صرف زکوٰۃ دینے پر اکتفا کرتے ہیں حالانکہ اُمت مسلمہ کی تمام ضروریات زکوٰۃ سے پوری نہیں ہوسکتیں۔ اس لئے کہ زکوٰۃ کے مصارف قرآن پاک میں متعین کردیئے گئے ہیں۔ اسے صرف انہی آٹھ مصارف میں خرچ کیا جاسکتا ہے۔ باقی ضروریات پورا کرنے کے لئے نفل صدقات اور انفاق کا راستہ اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ان ضروریات کو پورا کرنا بھی غنی اور مال دار لوگوں پر فرض ہے۔ اگر سب مسلمان اپنی زکوٰۃ پوری کی پوری ادا کریں اور غربا و مساکین اور اُمت مسلمہ کی دوسری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے نفل صدقات حسبِ ضرورت دیں، تو مسلمان معاشی طور پر مضبوط ہوسکتے ہیں۔ قرآن پاک میں جہاں زکوٰۃ کا ذکر ہے اسی جگہ نفل صدقات کا بھی ذکر ہے:
’’اور دیتے ہیں اللہ کی محبت میں اپنا مال قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں اور گردنوں کو آزاد کرنے میں اور قائم کرتے ہیں نماز اور دیتے ہیں زکوٰۃ۔ ‘‘ (البقرہ :۱۷۷)
نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے جسے ادا کرنا ضروری ہے‘‘ (ترمذی)۔ پھر آپؐ نے اسی مذکورہ آیت کی تلاوت فرمائی۔ زکوٰۃ کی عدم ادائیگی اور مال کی ایسی محبت کہ انسان انفاق سے پہلوتہی کرے اس کے لیے بڑی سخت وعید آئی ہے:
’’جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خوش خبری دے دیجیے۔ جس دن اسے دوزخ کی آگ میں تپا کر ان پر رکھا جائے گا پھر ان کی پیشانیوں اور پہلوئوں اور ان کی پیٹھوں کو ان کے ساتھ داغا جائے گا، ان سے کہا جائے گا، کہ مزہ چکھو اس خزانے کا جسے تم جمع کرتے تھے۔ ‘‘ (التوبۃ:۳۴-۳۵)
قرآن کریم میں ایک اور جگہ فرمایا گیا: ’’وہ لوگ جو اس مال کو جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا ہے، دینے میں بخل سے کام لیتے ہیں، نہ سمجھیں کہ یہ ان کے حق میں بہتر ہے، بلکہ وہ مال، جس کو دینے میں بخل سے کام لیتے ہیں، ان کے حق میں بُرا ہے۔ قیامت کے دن اسے ان کی گردنوں کا طوق بنا دیا جائے گا۔ ‘‘ (آل عمران:۱۸۰)
آج کل بڑے پیمانے پر شعوری اور غیرشعوری طور پر ایسا ہو رہا ہے۔ بعض لوگ مسلمان ہونے کے باوجود، زکوٰۃ کا فرض ادا نہیں کرتے اور جوادا کرتے ہیں وہ اپنے مال کے ایک حصے کی زکوٰۃ دے دیتے ہیں اور دوسرے حصے کی زکوٰۃ کو عموماً لاعلمی کی وجہ سے نظرانداز کردیتے ہیں۔
اس لیے ان لوگوں پر جو اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے اور دوسروں کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر ہڑپ کرنے سے بچنا چاہتے ہیں، لازم ہے کہ پوری احتیاط سے کام لیں اور سال کے جس حصہ میں وہ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، وہ اس موقع پر اپنے ایسے سارے مال کی زکوٰۃ دیں جس پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی (خدانخواستہ) اور گرفت سے بچ سکیں۔
آدابِ زکوٰۃ
زکوٰۃ سے دینی اور دنیوی فوائد حاصل کرنے کے لیے چند باتوں کا لحاظ رکھنا چاہئے، ان کو ہم آدابِ زکوٰۃ کہہ سکتے ہیں۔ اس ضمن میں مولانا محمد یوسف اصلاحی شعورِ حیات میں لکھتے ہیں :
(۱) سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ زکوٰۃ خلوصِ نیت سے ادا کیجئے۔ محض خدا کی رضا اور آخرت کے اجروثواب کو پیش نظر رکھئے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا مقصود آپ کے سامنے نہ رہے۔ خدا ایسے ہی لوگوں کے مال و دولت میں خیروبرکت فرماتا ہے جو محض خدا کو خوش کرنے کیلئے پوری رغبت اور فراخ دلی سے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔
(۲) زکوٰۃ میں وہ مال دیجیے جو آپ کی نظر میں بہتر ہو۔ غور کیجئے آپ جب دوسروں سے کچھ لیتے ہیں تو کبھی خراب اور گھٹیا چیز نہیں لیتے اور پوری احتیاط اور باریک بینی سے اچھے سے اچھا لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آپ واقعی زکوٰۃ کی اہمیت کو محسوس کرکے زکوٰۃ دیتے ہیں اور دین و دنیا میں خدا کی رحمتوں کے طالب ہیں تو خدا کی راہ میں ایسا مال دیجئے جو آپ کی نظر میں سب سے بہتر ہو، اور جو خدا کے غریب بندوں کیلئے زیادہ سے زیادہ فائدہ بخش ہو۔
(۳) آپ جس کو زکوٰۃ دیں اس میں احساسِ کمتری نہ پیدا ہونے دیں، اسے نیچا نہ رکھیں، اس کی دل آزاری نہ کریں اور کوئی ایسا سلوک نہ کریں جس سے اس کی خودداری کو ٹھیس لگے۔
(۴) زکوٰۃ دے کر اترائیں نہیں، اپنی بڑائی نہ جتائیں بلکہ خدا کا تہِ دل سے شکر ادا کریں کہ اس نے آپ کو زکوٰۃ ادا کرنے کی توفیق دی اور آپ کو یہ موقع بخشا کہ آپ کے ہاتھوں سے خدا کی راہ میں کچھ خرچ ہو اور آپ کو اپنا فریضہ ادا کرنے کا موقع ملا۔
(۵) جس کو زکوٰۃ دیں اس پر کوئی احسان نہ جتائیں۔ آپ کے پاس اپنا ہے کیا جو احسان جتائیں ! آپ تو خود خدا کے محتاج ہیں، آپ کیا، سارے ہی انسان اس کے محتاج ہیں، غنی اور بے نیاز تو صرف خدا ہے( ’’اللہ ہی غنی ہے اور تم سب محتاج ہو۔ ‘‘ سورہ محمد :۳۸)۔ آپ کو خدا نے جو کچھ دیا تھا اسی لیے تو، کہ آپ اپنے کام میں لائیں اور خدا کے دوسرے بندوں کا حق ادا کریں۔ کیا حق دار کا حق دینا کوئی احسان ہے، کیا اسے جتایا جاسکتا ہے؟ رسولِؐ خدا نے فرمایا، خدا اس شخص کو ہم کلامی کے شرف اور نظرعنایت سے محروم رکھے گا جو کسی کو عطیہ دے کر احسان جتاتا ہو۔
زکوٰۃ ادا کرنے سے پہلے آسمانی کتاب کی اس آیت پر غور کیجئے اور بار بار غور کیجئے۔ فرمایا گیا: ’’کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرے گا کہ اس کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں اس کے لئے اس میں (کھجوروں اور انگوروں کے علاوہ بھی) ہر قسم کے پھل ہوں اور (ایسے وقت میں ) اسے بڑھاپا آپہنچے اور (ابھی) اس کی اولاد بھی ناتواں ہو اور (ایسے وقت میں ) اس باغ پر ایک بگولا آجائے جس میں (نِری) آگ ہو اور وہ باغ جل جائے (تو اس کی محرومی اور پریشانی کا عالم کیا ہو گا)، اسی طرح اﷲ تمہارے لئے نشانیاں واضح طور پر بیان فرماتا ہے تاکہ تم غور کرو۔ ‘‘ (سورہ البقرہ :۲۶۶)