Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

نصرت صرف اور صرف رب تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتی ہے

Updated: March 19, 2025, 11:12 AM IST | Mumabi

دراصل اس معرکہ (غزوۂ بدر) کا مقصود حقائق ایمانیہ اور غیبی امور حقہ کو اس وقت کے اہل ایمان اور تاقیامت مؤمنین کے قلوب میں بٹھانے کی خاطر تھا۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

اپنے پاس مادی قوت کو اپنے رب کے ساتھ اخلاص کے ساتھ اسی کی دین حق اور اسی کے کلمہ کی سربلندی کی خاطر اس کے اتارے ہوئے علم صحیح کی روشنی میں اس کے رسول کی اتباع میں جب بھی وہ کسی باطل کے خلاف صف آراء ہوں گے تو ان کیلئے یہ ندائے حق تاقیامت رہے گی کہ ان کا رب فرشتوں میں یہ اعلان کرے :’’اے میرے فرشتو! تم اترو اور اہل ایمان کو ثابت قدم بناؤ،میں بھی تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘
قرآن کا یہ ضابطہ ہر دور کیلئے مسلمہ اصول ہے ۔یہ ربانی محکم فیصلہ ہے ،صرف مسلم امت کو اپنے مقصد اور ہدف کی طرف اس طریقہ سے اختیار کرنا ہوگا جس کی عملی مشق غزوۂ بدر میں کرائی گئی پھر کیا ہوا؟  واقعات ِ بدر کو محدثین ومفسرین اور اصحاب سیرت سے مفصل لکھا ہے ۔ہمیں صرف ان دروس وعبر پر روشنی کے صفحات پر روشنی ڈالنی ہے جو ہمیشہ زندہ وتابندہ قرآنی ضابطے اور نہ بدلنے والی ربانی سنتیں ہیں جن کے بارے میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’ تم اللہ کی سنت میں ہرگز تبدیلی نہ پاؤگے۔‘‘
انہی سنتوں کو اس اولین غزوہ میں راسخ کیا گیا ہے اور قرآن کے اسلوب بیان میں تأمل کیجئے  ۔ہرسنت ربانی اور واقعہ کے ہر پہلو کو قرآن (اذ) کہہ کر یاد کراتاہے کہ اس موقع کو یا درکھو ۔اس سنت ربانی کو یادرکھو ۔اس واقعہ کو یاد کرو،نصرتِ ربانی یا سنت الٰہی میں غور کریں۔ اولین معرکہ میں زمینی صورت حال یوں ہے کہ اہل حق کی صف  میں ۳۰۰؍ پر کچھ لوگ ،اہل باطل کی صف  میں ۹۰۰؍ سے اوپر مگر نصرت ربانی اور بیان ِ قرآن یوں ہے’’ اور (وہ منظر بھی انہیں یاد دلائیے) جب اس نے ان کافروں (کی فوج) کو باہم مقابلہ کے وقت (بھی محض) تمہاری آنکھوں میں تمہیں تھوڑا کر کے دکھایا اور تمہیں ان کی آنکھوں میں تھوڑا دکھلایا ۔‘‘ (الانفال:۴۴)
کتنی بڑی ایمانی، باطنی اور غیبی نصرت کا مظہر ہے کہ کثیر تعداد میں دشمن تھوڑا نظر آئے ۔ پھر کیونکر عزیمت اور ہمت بلند نہ ہو۔
نیز ارشاد فرمایا کہ’’ اور اگر آپ کو اللہ ان کفار کو زیادہ دکھاتا تو تم مسلمان ہمت ہارجاتے اور تم اس معاملہ میں باہم الجھ پڑتے،لیکن اللہ نے بچالیا۔یقینا وہ دلوں کے حال کو خوب جاننے والا ہے۔ ‘‘
ایسی باطنی،نفسیاتی ،اندر کی قوت اللہ کے سواکون ہے جو انسانوں میں پیداکرسکتاہے؟ وہ آج  بھی ایسا کرنے پر یقیناً قادر ہے۔مسلم امت کو اس درس کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے ۔ اس سے بھی بڑھ کر نصرت ربانی اور حقیقت ایمان کا ملاحظہ ہو ۔ارشاد ربانی ہے:
’’یہ اسلئے کہ اللہ اس ( جنگ کے نتیجے میں کفار کی شکست ِ فاش کے) امر کو پورا کر دے جو (عند اللہ) مقرر ہو چکا تھا، اور (بالآخر) اللہ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جاتے ہیں۔‘‘  (الانفال:۴۴)
گویا حق تعالیٰ شانہ اس معرکہ کو یقینی طورپر قائم کرنے کا فیصلہ اپنی حکمت سے فرماچکے تھے ۔ اگر کفار کی نگاہوں میں مسلمانوں کی کثرت وقوت پہلے سے ہی آجاتی تو شاید وہ معرکہ قائم ہوئے بغیر ہی راہِ فرار اختیار کرجاتے ۔پھر حق کی نصرتِ غیبی، ملائکہ کا نزول، اور باری تعالیٰ کی قدرت ظاہرہ کا نظارہ کون کرتا ؟پھر یہ اولین سنت قائم نہ ہوتی تا قیامت مسلم امت کس طرح درسِ عبرت حاصل کرتی ؟
اس معرکہ میں سنت الٰہی میں مزید تأمل کرنے کے کئی دیگر مواقع بھی قرآن نے ہمیں فراہم کئے ہیں ۔ قرآن کا اسلوب یاد کرو: 
’’(اے حبیبِ مکرم! اپنے اعزاز کا وہ منظر بھی یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے فرشتوں کو پیغام بھیجا کہ (اَصحابِ رسول کی مدد کے لئے) میں (بھی) تمہارے ساتھ ہوں، سو تم (بشارت و نصرت کے ذریعے) ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو، میں ابھی کافروں کے دلوں میں  رعب و ہیبت ڈالے دیتا ہوں۔‘‘ (الانفال:۱۲)  ایک طرف ثابت قلوب والے ہیں اور دوسری طرف مرعوب وخائف قلوب والے ۔قلوب میں قوت مادی نہیں قوت روحانی اترتی ہے۔ سنت ربانی سے قلوب ثابت یا خائف ہوتے ہیں ۔اس کا مشاہدہ اس معرکہ میں وضاحت سے ہوتاہے۔  نیز فرمایا: ’’ اے فرشتو!  تم کفار کی گردنوں پر وار کرو اور ان میں سے ہر ایک جوڑ پر ضرب لگاؤ۔‘‘ (الانفال:۱۲)       اب یہ فرشتے اور ان کی ضر ب اس غیبی قوت کا استعمال ہے جس میں اللہ کی اہل تقویٰ کے ساتھ سنت کا اظہار ہے  جو بد ر میں ہوا ۔ جس کے بارے میں قرآن نے فرمایا ’’ اور یقیناً اللہ ہی نے تمہاری نصرت کی بدر میں اور تم کمزور تھے ،سو تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔‘‘   یہ کھلا درس ہے کہ ہر دور میں اہل تقویٰ کیلئے فرشتوں کا نزول بھی ہوگا ۔ان کی کاری ضربیں بھی تمہارے دشمنوں کو لگیںگی۔یہی سنت ربانی ہے۔
نیز قرآن نے اپنے اسی اسلوب ثابت سے کہا ’’ اور یاد کرو  اے پیغمبر  ! جب آپ ایمان والوں سے فرمارہے تھے کہ کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تین ہزار اتارے ہوئے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے۔‘‘ (آل عمران:۱۲۴)
نیز یہ بھی تسلی دی کہ ’’ہاں اگر تم صبر کرتے رہو اور پرہیزگاری قائم رکھو اور وہ (کفّار) تم پر اسی وقت (پورے) جوش سے حملہ آور ہو جائیں تو تمہارا رب پانچ ہزار نشان والے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے گا۔‘‘ (آل عمران:۱۲۵)
قرآن نے یہی سمجھایا ۔یہ تمام بشارتیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کیلئے خاص فرمایا ہے تاکہ ان کے قلو ب مطمئن رہیں اور یہ ضابطہ ٔ ربانی ہمیشہ یاد رہے کہ کہ نصرت صرف اور صرف رب تعالیٰ عزیز وحکیم کی طرف سے ہی ہوتی ہے ۔ نصرت ِ ربانی کے صبر وتقویٰ پر نازل ہونے کے یہ سچے وعدے اللہ تعالیٰ باربار مسلم امت کو اس لئے یاد کراتاہے کہ تم جب بھی اللہ پر توکل کرتے ہوئے اخلاص کے ساتھ اپنے پاس موجود اسباب کو مجتمع کرکے نکلوگے اور صبر وتقویٰ کو اپنے دامن کے ساتھ چپکائے رکھو گے،تمہاری سیرت وکردار متقین ، صابرین اور مؤمنین والا ہوگا تو رب تعالیٰ کی طرف سے یہ بشارتیں تمہارا خاصّہ رہیں گی ۔ حق تعالیٰ کبھی وعدہ کے خلاف نہیں فرماتے  اور ان سے بڑھ کر اپنے قول وقرار کا پختہ کوئی نہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK