Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

اعتکاف: فرد ہی نہیں، معاشرہ کی بھی تربیت کا بہترین موقع

Updated: March 24, 2025, 10:58 AM IST | Farida Sajjad | Mumabi

’’جو شخص اللہ کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردیتا ہے۔‘‘

Photo: INN
تصویر: آئی این این

اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے جس کا لغوی معنی ’’خود کو روک لینا، بند کر لینا، کسی کی طرف اس قدر توجہ کرنا کہ چہرہ بھی اُس سے نہ ہٹے‘‘ وغیرہ کے ہیں۔ (ابن منظور، لسان العرب)
اصطلاح شرع میں اس سے مراد ہے انسان کا علائقِ دنیا سے کٹ کر خاص مدت کے لئے عبادت کی نیت سے مسجد میں اس لئے ٹھہرنا تاکہ خلوت گزیں ہو کر اﷲ کے ساتھ اپنے تعلقِ بندگی کی تجدید کر سکے۔اعتکاف میں بیٹھنے کی فضیلت پر کئی احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں۔ اِن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’وہ (یعنی معتکف) گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اُسے عملاً نیک اعمال کرنیوالے کی مثل پوری پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔‘‘ (ابن ماجہ، السنن، کتاب الصیام، باب فی ثواب الاعتکاف)
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی ایک اور حدیث مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص اﷲ کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، اﷲ تبارک و تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردیتا ہے۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے۔‘‘ (طبرانی، المعجم الاوسط،بيهقی، شعب الايمان)
حضرت علی (زین العابدین) بن حسین اپنے والد امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا، اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے۔‘‘
(بيهقی، شعب الإيمان، باب الاعتکاف)
مسنون اعتکاف
رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں اعتکاف میں بیٹھنا مسنون ہے۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے:
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔‘‘ (ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب فی المعتکف يلزم مکاناً من المسجد، )
شریعت کی رو سے مسنون اعتکاف کا آغاز بیس رمضان المبارک کی شام اور اکیس کے آغاز یعنی غروب آفتاب کے وقت سے ہوتا ہے اور عید کا چاند دیکھتے ہی اعتکاف ختم ہوجاتا ہے۔ چاند چاہے انتیس تاریخ کا ہو یا تیس کا، دونوں صورتوں میں سنت ادا ہوجائے گی۔
عصرِ حاضر اور مقاصدِ اِعتکاف
اس میں شک نہیں کے اعتکاف کا مقصد نفس کی اصلاح، برائیوں سے اجتناب اور خلوت کا حصول ہے۔ مگر یہ بھی ایک قابلِ لحاظ امر ہے کہ کوئی بھی عمل جب تک کسی مستحکم بنیاد پر قائم نہ ہو، ثمرآور اور دیرپا نہیںہو سکتا۔ اور علم ہی کسی عمل کو مستحکم بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔ اسی مقصد کے حصول کے لئے دوران اعتکاف تعلیم وتعلم کو ایک اجتماعی عمل ہونے کے باوجود تمام ائمہ فقہ نے جائز قرار دیا ہے کیونکہ بغیر علم کے ریاضت و مجاہدہ کسی منزل تک نہیں پہنچا سکتا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ایک فقیہ، شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔‘‘(ابو داؤد، السنن، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم)
ہمیں اِسلام وراثت میں ملا ہے، ہم نے اس کے لئے کوئی کاوِش اور محنت نہیں کی، والدین مسلمان تھے تو ہم بھی مسلمان کہلائے۔ لیکن اصل صورتِ حال یہ ہے کہ ایسے بھی مسلمان ہیں جن کو کلمہ تک یاد نہیں، اور اگر کلمہ آتا ہے تو اس کے معنی کا علم نہیں، اور اگر بالفرض معنی معلوم ہے تو اس کے تقاضوں کا علم نہیں۔
قرآن کریم کی تلاوت کو افضل العبادات قرار دیا گیا ہے اور تلاوت قرآن اعتکاف کے بنیادی معمولات میں سے ہے، لیکن ہمارے عوام کی ایک قابلِ ذکر تعداد صحت لفظی کے ساتھ قرآن نہیں پڑھ سکتی۔ ان حالات میں انفرادی عبادات پر حد سے زیادہ زور دینا اور گنے چنے چند وظائف کرنے میں دس دن گزار دینا نہ تو اعتکاف کا منشاء ہے نہ ہی اس سے اعتکاف کا مقصد حاصل ہوتا ہے۔
ہماری اجتماعی صورتِ حال اور دور حاضر کے تقاضوں کے پیش نظر اعتکاف میں فرد کی تربیت اور اصلاحِ معاشرہ سے تعلق رکھنے والے اجتماعی اُمور مجرد وظائف اور تسبیحات سے زیادہ اہم اور ضروری ہو چکے ہیں۔ ویسے بھی جب معاشرہ کلیتاً برائی اور بے راہ روی کا شکار ہو تو اس صورت میں اَحکام بدل جاتے ہیں۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’اﷲ عزوجل نے جبریلؑ کی طرف وحی فرمائی کہ فلاں فلاں شہر کو اس کے باشندگان سمیت پلٹ دو (تباہ و برباد کر کے رکھ دو)۔ حضرت جبریل ؑ نے عرض کیا: اے میرے رب! ان میںتیرا وہ بندہ بھی ہے جس نے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی تیری نافرمانی نہیں کی۔ اِس پر رب تعالیٰ نے فرمایا:’’اس شہر کو ان پر پلٹ دے کیونکہ اس شخص کا چہرہ کبھی ایک گھڑی بھی میری خاطر (برائی کو دیکھ کر) متغیر نہیں ہوا۔‘‘
اس حدیث مبارکہ میں مجرد ذکر و عبادت میں مشغولیت کی وجہ سے مخلوقِ خدا کے اَحوال کی درستگی سے عدم دلچسپی پر وعید بیان کی گئی ہے۔ اور دعوت وتبلیغ کا یہ فریضہ اُسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب انسان انفرادی ذکر و اَذکار کو ہی کل نہ سمجھے بلکہ دعوت و تبلیغ اور اصلاحِ اَحوالِ اُمت کے نبوی فریضہ کو بھی عبادت جانتے ہوئے اپنے معمولات میں سے اسے خصوصی وقت دے۔ اس لئے تعلیم و تعلم، قرآن سیکھنے سکھانے اور اصلاح نفس جیسے دیگر امور جن کا تعلق دیگر افراد سے ہو، اعتکاف میں جائز اور مستحسن ہیں؛ اور یہی راجح قول ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK