Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

اعتکاف بندگی کے اعلیٰ مدارج طے کرنے کا وسیلہ ہے

Updated: March 21, 2025, 3:06 PM IST | Mohd Tuqeer Rehmani | Mumbai

اعتکاف ایک ایسی وارداتِ قلبی ہے جو انسان کو گناہوں کے اندھیروں سے نکال کر رب کی رضا کی روشنی میں لے آتی ہے۔ یہ وہ نورانی شب بیداری ہے جس میں انسان شب ِ قدر کی تلاش میں محو رہتا ہے اور رحمت ِ خداوندی جوش میں آ کر اسے مغفرت کا پروانہ عطا کر دیتی ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

اعتکاف محض ایک عبادت نہیں، بلکہ وہ روحانی معراج ہے جس میں بندہ سب سے کٹ کر اپنے رب کے در پر جا پڑتا ہے، اپنی تمام تر توجہ دنیا کے ہنگاموں سے موڑ کر اس ذاتِ لازوال کی طرف مرکوز کر دیتا ہے، جو ہر شے کی اصل اور ہر حقیقت کی بنیاد ہے۔ یہ خلوت گزینی محض ظاہری تنہائی نہیں، بلکہ ایک ایسی داخلی مسافت ہے جو قلب و روح کو آلائشوں سے پاک کر کے خدا کے قریب لے جاتی ہے۔ یہی وہ عبادت ہے جو انسان کے اندر ملائکہ کی صفات پیدا کرتی ہے، اسے جسمانی خواہشات سے ماورا کر کے ایک ایسی لطیف حقیقت میں ڈھال دیتی ہے، جہاں اس کی روح سجدوں میں پگھلتی اور آنکھیں آنسوؤں سے وضو کرتی ہیں۔ 
اعتکاف ایک ایسی وارداتِ قلبی ہے، جو انسان کو گناہوں کے اندھیروں سے نکال کر رب کی رضا کی روشنی میں لے آتی ہے۔ یہ وہ نورانی شب بیداری ہے جس میں انسان شب ِ قدر کی تلاش میں محو رہتا ہے، اور رحمت ِ خداوندی جوش میں آ کر اسے مغفرت کا پروانہ عطا کر دیتی ہے۔ جب بندہ خود کو دنیاوی مصروفیات سے نکال کر اعتکاف کے دائرے میں داخل کرتا ہے، تو اس کے وجود میں ایک نئی روحانیت بیدار ہوتی ہے، اس کے قلب میں عبادت کی وہ حلاوت گھلتی ہے جو ایک انسان کو اس کی محبوب غذا میں ملتی ہے۔ عبادت اصل میں روح کی غذا ہے، اور جب یہ غذا مکمل اخلاص و احسان کے ساتھ حاصل کی جاتی ہے، تو انسان مادی آلائشوں سے اوپر اٹھ کر حقیقت ِ بندگی کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو جاتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب دنیا کی چمک دمک بےوقعت محسوس ہونے لگتی ہے، اور حقیقت ِ حیات کے دروازے اس پر کھلنے لگتے ہیں۔ 
اعتکاف کی فضیلت صرف رمضان کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ سال کے کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے، لیکن رمضان المبارک کا ماحول اس کے لئے زیادہ سازگار ہوتا ہے۔ اس میں وہ برکات اور وہ روحانی کیفیات فراہم ہوتی ہیں، جو انسان کے لئے یکسوئی کے ساتھ عبادت میں مصروف ہونے کو آسان بنا دیتی ہیں۔ رسول اکرم ﷺ سے پورے رمضان میں اعتکاف کرنا ثابت ہے، لیکن آپ ﷺ نے ہمیشہ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کو زیادہ پسند فرمایا اور اسے اپنی امت کے صلحاء کے لئے مسنون قرار دیا۔ اعتکاف کی فضیلت وہ لوگ بھی حاصل کرسکتے ہیں جو اعتکاف کیلئے مستقل وقت نہیں نکال سکتے، جب بھی مسجد میں جانا ہو اعتکاف کی نیت کرلیں اس طرح مقصود عبادات کی تکمیل کیساتھ اعتکاف کا ثواب بھی مل جائیگا۔ حقیقت یہ ہے کہ اعتکاف عام عبادت گزاروں کے لیے نہیں، بلکہ ان خواصِ امت کے لئے ہے، جو بندگی کے اعلیٰ مدارج طے کرنا چاہتے ہیں۔ 
اعتکاف کی شرعی حدود اور تقاضے
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ:
’’معتکف نہ کسی مریض کی عیادت کرے، نہ جنازے میں شریک ہو، نہ عورت سے صحبت کرے، نہ بوس و کنار کرے، اور نہ ہی اپنی کسی بھی ضرورت کے لیے مسجد سے باہر نکلے، سوائے ان ناگزیر حاجات کے جن کا پورا کرنا لازم ہو (جیسے طہارت، وضو، غسل وغیرہ)۔ رمضان کے اعتکاف کے لیے روزہ شرط ہے، اور مردوں کا اعتکاف ایسی مسجد میں ہونا چاہیے جہاں باجماعت نماز کا اہتمام ہوتا ہو۔ ‘‘
(سنن ابو داؤد:۲۴۷۳، سنن ابن ماجہ:۱۷۷۵)
یہ شرائط اس لئے ہیں تاکہ معتکف مکمل یکسوئی کے ساتھ عبادت میں مشغول رہے، اس کا نفس مشقت سے گزرے، طبیعت کے تقاضے ٹوٹیں، اور وہ بندگی کے اس اعلیٰ مقام پر پہنچے جہاں اس کا وجود کلیتاً یادِ الٰہی میں فنا ہو جائے۔ 
عورتوں کا اعتکاف اور ان کا مقام
یہ بات بھی واضح رہنی چاہئے کہ اعتکاف محض مردوں کے لئے مخصوص نہیں، بلکہ خواتین کے لئے بھی مشروع ہے، اور ازواجِ مطہرات سے اس کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ 
’’نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ کا وصال ہو گیا۔ پھر آپؐ کے بعد ازواجِ مطہرات نے بھی اعتکاف کیا۔ ‘‘(صحیح البخاری، صحیح مسلم)
فقہاء کی رائے میں خواتین کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ گھر میں اپنی مخصوص نماز کی جگہ (مصلّی) میں اعتکاف کریں، تاکہ پردے اور عفت و عصمت کے تقاضے بھی ملحوظ رہیں اور روحانی فوائد بھی حاصل ہوں۔ 
’’حضرت عائشہ، حضرت حفصہ، اور حضرت زینب رضی اللہ عنہما نے نبی کریم ﷺ کے زمانے میں مسجد میں اعتکاف کے لئے اپنے خیمے نصب کیے تھے، لیکن بعد میں نبی ﷺ نے اس عمل کو پسند نہیں فرمایا، کیونکہ اس میں فتنے کا اندیشہ تھا۔ ‘‘(صحیح البخاری)
اعتکاف محض ایک وقتی عبادت نہیں، بلکہ یہ نفس کی تربیت اور روح کی تسکین کا ایک لازوال ذریعہ ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب انسان دنیا سے منقطع ہو کر اپنی اصل حقیقت سے آشنا ہوتا ہے، جب وہ اپنی عبادات میں وہ لذت محسوس کرتا ہے جو کسی شے میں نہیں، اور جب وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہوتا ہے جیسے بارش کے بعد زمین کی مٹی دھل کر نکھر جاتی ہے۔ یہی وہ عبادت ہے جو فرشتوں کی صفات سے متصف کر دیتی ہے اور جو انسان کو ناپاک خیالات اور نفسانی خواہشات سے آزاد کر کے معرفت ِ الٰہی کے سمندر میں غرق کر دیتی ہے۔ اعتکاف ایک دعوتِ فکر بھی ہے—ایک یاددہانی کہ دنیا کا اصل حسن اور زندگی کی حقیقی لذت، رب کی عبادت اور اس کے قرب میں مضمر ہے۔ اگر انسان واقعی اپنے خالق سے جڑنا چاہے، تو اسے چاہئے کہ اعتکاف کے سائے میں بیٹھ کر اپنے رب کی بارگاہ میں گریہ و زاری کرے، اس کی رضا کی طلب میں اپنی دنیاوی خواہشات کو فنا کر دے، اور ان لمحوں میں وہ سعادت حاصل کرے جو شاید پوری زندگی کے اعمال میں بھی نہ مل سکے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK