اسی دوران کچھ لوگ یہ بھی کہتےرہے کہ چلو اچھا ہواکہ آج کہیں چاند نہیں ہوا، ورنہ جلد ی جلدی سب انتظام کرنا پڑتا۔ انتظام تو خیر سے ہوجاتا مگر اس میں وہ بات نہ ہوتی، لطف نہ آتا۔ اسی دوران ایک نوجوان نے بتایا کہ ہم نے رمضان سے پہلے ہی انتظام کرلیا ہے۔
EPAPER
Updated: March 02, 2025, 12:54 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai
اسی دوران کچھ لوگ یہ بھی کہتےرہے کہ چلو اچھا ہواکہ آج کہیں چاند نہیں ہوا، ورنہ جلد ی جلدی سب انتظام کرنا پڑتا۔ انتظام تو خیر سے ہوجاتا مگر اس میں وہ بات نہ ہوتی، لطف نہ آتا۔ اسی دوران ایک نوجوان نے بتایا کہ ہم نے رمضان سے پہلے ہی انتظام کرلیا ہے۔
جمعہ کی شب تھی، عشاء کی نماز ہوچکی تھی۔ کرلا میں رمضان کی تیاریاں جاری تھیں۔ پائپ روڈ پرروزانہ سے زیادہ بھیڑ تھی۔ چاند نظر نہ آنے کے بعد باوجود کھجور کی دکانوں کے اندر اور باہر بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے، اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔ لوگ کھجوریں لے کر دیکھ رہے تھے جیسے یہ جاننا چاہتے ہوں کہ کون سی کھجور کتنی ذائقہ دار ہے۔ کچھ ’ٹیسٹ‘ کرکے بھی خریداری کر رہے تھے۔ کچھ کو جلد ی دکان بند ہونے کا ڈر تھا، کیونکہ گزشتہ ہفتے عشرے سے کر لا اور دیگر علاقوں میں دکانیں جلد ی بند کروائی جارہی تھیں۔ پولیس کی جانب سے دکانیں بندکرنے کا اعلان بھی ہوتا تھا۔ پولیس کی جیپ بھی جب تب آجاتی تھی، اسی لئے جمعہ کی شب بھی لوگ ڈرے ہوئے تھے۔ انہیں پولیس کی گاڑی آنے کا خدشہ تھا۔ قطار میں کھڑے لوگ پولیس کی گاڑی آنے سے پہلے کھجور خرید لینے کی کوشش کررہے تھے۔ اسی دوران ایک نوجوان نے بتایا کہ رمضان میں رات بھر دکانیں کھلی رہیں گی، کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی، اسپیشل پر میشن دی گئی ہے۔ ایک نے ٹوکا کہ پر میشن رمضان کیلئے دی گئی ہے، آج کیلئے نہیں، دس کے بعد پولیس کی گاڑی آسکتی ہے۔ اس نے دکاندار کو مخاطب کیا کہ بھائی جلدی جلد ی سب کو کھجور دے دو، کوئی چھوٹنے نہ پائے، ایک ہی کام کیلئے بار بار آنا اچھا نہیں لگتا۔ اس کی سب نے تائیدکی اور دکاندار کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھنے لگے۔
اسی دوران کچھ لوگ یہ بھی کہتےرہے کہ چلو اچھا ہواکہ آج کہیں چاند نہیں ہوا، ورنہ جلد ی جلدی سب انتظام کرنا پڑتا۔ انتظام تو خیر سے ہوجاتا مگر اس میں وہ بات نہ ہوتی، لطف نہ آتا۔ اسی دوران ایک نوجوان نے بتایا کہ ہم نے رمضان سے پہلے ہی انتظام کرلیا ہے۔ اگر آج بھی چاند نکلتا تو میں اس کیلئے پوری طرح سے تیار تھا۔ میں نے شربت بنانے کیلئے ۲۰؍ لیموں لے لئے تھے۔ گوشت بھی خرید لیا تھا۔ تین طرح کے پھل لے لئے تھے، سب فریج میں پڑا ہے... کم سے کم۱۰؍ روزہ کا انتظا م کرلیا ہے۔ اس طرح رمضان کی بھیڑ سے بچ جائیں گے۔ روزہ رکھ کر بار بار دوڑ نا بھی نہیں پڑ ے گا۔
اس پر ایک نوجوان نے کہا آپ رمضان میں صر ف کھانے پینے کے انتظام کی بات کررہےہیں۔ ہمار ے گا ؤں میں تو لوگ عید کی بھی خریداری کر چکےہیں۔ ٹیلر کو کپڑا پہلے ہی دے چکےہیں۔ انہیں رمضان میں ایک قدم بھی چلنا نہیں ہو گا۔ رمضان کے بازارکی بھیڑ سے بچ جائیں گے۔ اچھی سے اچھی خریداری کی ہے۔ یہ سن کر ایک بزرگ گویا ہوئے کہ سب کیلئے پہلے خریداری ممکن نہیں ہے، جس کے پاس پیسے ہیں ، وہ خریداری کرلیتا ہے، جس کے پاس نہیں ہیں ، وہ کیا کرے گا بے چارہ، اسے تو انتظا ر کرنا ہی ہو گا۔ دو سری بات یہ ہے کہ شروع کی خریداری میں دکاندار پرانا مال نکالتا ہے۔ اصلی مال تو رمضان شروع ہونے کے بعد ہی نکلتا ہے۔ ریڈی میڈ والے تو رمضان کے دوسرے عشرے میں تازہ مال نکالتےہیں۔ کھڑے کپڑے والے بھی دس رمضان کے بعد ہی نیامال دکانوں میں سجاتےہیں۔
یہ بزرگ تجربہ اور مشاہدہ کی زبان بول رہے تھے، اس پرایک شخص نے کہا کہ مر دوں کے کپڑے میں کیا نیا پرا نا؟ اس میں صرف اچھا خراب ہوتا ہے۔ جو مل جاتا ہےبے چارے مر د پہن لیتےہیں۔ نوجوان تھوڑا بہت دیکھتے سنتے ہیں، ایک دکان سے دوسری دکان جاتےہیں۔ بوڑھے اور ادھیڑ کو جو مل جاتا ہے، اسے پہن لیتےہیں۔ ایک دو تھان دکھانے کےبعد ہی اپنی پسند اور ناپسند کا فیصلہ سنا دیتےہیں ۔ اصل مسئلہ تو عورتوں کا ہوتا ہے۔ ان کے ہاں نیا پرانا زیادہ ہوتا ہے۔ اسی لئے وہ نیا مال آنے کے بعد ہی خریداری کرتی ہیں۔
اس بات چیت کے دوران سب کو کھجوریں مل گئیں، پولیس کی گاڑی بھی نہیں آئی۔ ڈائری نگار نے بھی گھر کی راہ لی۔
سنیچر کو ڈائری نگار نے کرلا کی بھاجی مارکیٹ کا رخ کیا، دوپہر کا وقت تھا، شدید گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں پھل کے باکڑے اور دکانیں تو سجی ہوئی تھیں مگر ان پر خریدار نہیں تھے۔ ان میں سے کچھ دکانیں پرانی تھیں، کچھ رمضان کی وجہ سے نئی نئی کھلی تھیں۔ کچھ دکاندار گاہکوں کی راہ دیکھ رہے تھے۔ اسی دوران ایک خاتو ن کے جھولے سے الگ الگ سائز کے خربوز ے نکل کر سڑک پر گرنے لگے۔ ایک شخص نے انہیں اٹھایا اور جلدی جلدی جھولے میں بھر دیا۔ خیریت گزری اور کوئی خربوزہ زخمی نہیں ہوا۔ آج سے روزہ شروع ہورہا ہے اور آپ دیکھیں گے کہ شام چار بجے سے افطار تک اسی بازار میں قدم رکھنے کو جگہ نہیں ہوگی۔ یہی حال مسلم محلوں کے تقریباً ہر بازار کا ہوگا۔