پہلا روزہ تھا، تراویح پڑھاکر ممبئی سینٹرل سے اپنی رہائش گاہ کی طرف رواں دواں تھا۔ راستے میں رنگ برنگے برقی قمقوں کی سجاوٹ استقبال رمضان کا اعلان کررہی تھی۔
EPAPER
Updated: March 03, 2025, 3:59 PM IST | Saeed Ahmad Khan | Mumbai
پہلا روزہ تھا، تراویح پڑھاکر ممبئی سینٹرل سے اپنی رہائش گاہ کی طرف رواں دواں تھا۔ راستے میں رنگ برنگے برقی قمقوں کی سجاوٹ استقبال رمضان کا اعلان کررہی تھی۔
پہلا روزہ تھا، تراویح پڑھاکر ممبئی سینٹرل سے اپنی رہائش گاہ کی طرف رواں دواں تھا۔ راستے میں رنگ برنگے برقی قمقوں کی سجاوٹ استقبال رمضان کا اعلان کررہی تھی۔ لوکل ٹرین میں بھی جہاں دیگر مسافر موبائل فون پر الگ الگ مناظر، پیغام رسانی، تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر محظوظ ہورہے تھے وہیں کچھ بندگان ِ خدا قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف نظر آئے تو کچھ آہستہ آہستہ تسبیح پڑھ رہے تھے۔
ملاڈ اسٹیشن پر اترا تو قاری محمداسلم سے ملاقات ہوگئی۔ سلام دعا کے بعد کہنے لگے کہ مدرسے کے چندے کے اعلان کیلئے باندرہ(مشرق) کی ایک مسجد گئے تھے، وہاں بتایا گیا کہ پورے رمضان المبارک میں اعلان کاکوٹہ فل ہوگیا ہے، اب گنجائش نہیں ۔ حیرت ہوئی کیوں کہ اس سے قبل راقم کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ مسجدوں میں چندے کے اعلان کی گنجائش بھی فُل ہوجاتی ہے۔ قاری محمد اسلم نے مجھے حیرانی میں مبتلا ہوتے دیکھا تو مزید بتانے لگے کہ ممبئی سینٹرل کی ایک مسجد میں سنیچر کو فجر کی نمازمیں بلایا گیا ہے، وہاں فجر کی نمازادا کرنے کے بعد معلوم ہوگا کہ اعلان کی گنجائش ہے یا وہاں بھی ختم ہوگئی ہے۔ رمضان کا چاند نظرآنے سے قبل تک شہر ومضافات کی ۱۷؍مساجد میں اعلان کا موقع حاصل کرنے میں کامیابی ملی ہے۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ سفراء بکثرت آتے ہیں اسلئے بیشتر مساجد میں یہ نظم بنایا گیا ہے کہ کاغذات وغیرہ دیکھ کر وقت دے دیا جاتا ہے، پھر اس وقت سفراء پہنچتے ہیں اور اعلان ہوتا ہے۔
انہوں نےبتایاکہ جب ائمہ اعلان کرتے ہیں تو مصلیان پر اثر ہوتا ہے، انہیں اعتماد ہوجاتا ہے اور اس طرح کہیں ہزار دو ہزار توکہیں ڈھائی تین ہزار چندہ ہوجاتا ہے۔ کچھ مساجد میں ۵؍ ہزار روپے تک بھی اکٹھا ہوجاتے ہیں مگر جن مساجد میں ٹھیک ٹھاک چندہ ہوجاتا ہے ان میں سے بیشتر میں اعلان کی اب گنجائش نہیں رہ گئی۔ ان مساجد میں ظہر، عصر، مغرب اورعشاء میں اعلان کیا جاتا ہے اور بعض مساجد میں فجر میں بھی گنجائش ہوتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سفراء اور مدارس کے اساتذہ بکثرت ممبئی کا رخ اسی لئے کرتے ہیں کہ مدارس میں دینی علوم کی شمع روشن رہنے میں عروس البلاد کا اہم رول ہے، یہاں کے مخیرحضرات دل کھول کر دینی مدارس کی اعانت کرتے ہیں جس سے پورے سال مدارس کا نظام چلانے میں آسانی ہوتی ہے۔ ہماری منزل مالونی تھی۔ آگے بڑھے اور شیئر آٹو رَکشا کے ذریعے روانہ ہوئے۔ اویس قرنی قبرستان (چارکوپ ناکہ) کی مخالف سمت رَکشا اسپتال ہے، نگاہ دوڑائی تو یہاں بھی سجاوٹ تھی۔ ویسے قبرستان کے سامنے رَکشا اسپتال کا بورڈ دیکھ کراس لئے حیرت ہوئی کہ قبرستان کے سامنے رَکشا ! بہرحال گیٹ نمبر ۵؍ پراترنے کے بعد مسجد حضرت علی، مسجد مریم اور بازار میں رونق دوبالا تھی۔ مسجد علی کا ناکہ بھی رمضان المبارک میں خاصا آباد رہتا ہے۔ یہاں مختلف اقسام کے شربت فروش عبدالرحیم اپنی دکان پر گاہکوں کے منتظردکھائی دیئے۔ کاروبار کی حالت دریافت کرنے پر کہنے لگے ’’ رمضان المبارک میں مومن کے رزق بڑھادینے کے خداوند قدوس کے وعدے پر ہمیں یقین ہے، وہ ہماری ضرورتوں سے واقف ہے، کسی کو محروم نہیں فرمائے گا۔ جیسے جیسے رمضان المبارک کے ایام گزریں گے، گاہک بھی بڑھتے جائیں گے۔ ‘‘
اور آگے بڑھے تو گیٹ نمبر ۷؍انجمن جامع مسجدکے قریب زمزم ہوٹل پرکچھ شناسا نظرآئے۔ ان میں عبدالرحمن خان، اجمل خان، عبدالقیوم انصاری اور عبداللہ بھائی شامل تھے، ان سے سلام دعا کرنے کے بعداندازہ ہوا کہ و ہ علاقے کے اور ملکی سطح پر مسلمانوں کے مسائل پر گفت وشنید کررہے ہیں۔ ان میں سے کسی نے ٹریفک کا مسئلہ چھیڑ دیا کہ رمضان میں اور دقت ہوگی اور گھر پر افطار کرنے کیلئے لوگوں کو کافی پہلے دفتر سے نکلنا ہوگا ورنہ وقت پر پہنچنا مشکل ہوجائے گا۔ ایک صاحب مالونی سے ایورشائن کیلئے بند کئے گئے بریج کے تعلق سے اس طرح گویا ہوئے کہ احتجاج کیا گیا، میمورنڈم دیا گیا لیکن وہ بھی بے نتیجہ رہا تو ایک صاحب نے مسجدوں کے سروے اور کھدائی کا معاملہ یہ کہہ کر چھیڑ دیا کہ اس طرح کے مسائل کے ذریعے اصل مسائل سے توجہ ہٹانا آسان ہوتا ہے جس میں میڈیا بھی معاون رہتاہے۔ ان کی گفتگو میں حصہ لئے بغیر گھر کی جانب مڑا تو کھجوری چال پر نوجوانوں کے استقبال رمضان کا انداز دیکھ کر افسوس ہوا، کچھ نوجوان ٹینس کھیل رہے تھے تو کچھ ہاؤزی تو کچھ بچے سائیکلنگ میں مگن تھے، گویا اس طرح انہوں نے رمضان کو خوش آمدید کہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا تمام مہینوں کا سردار یہ مہینہ ہمیں موجودہ حالات میں مزید اہتمام سے رجوع الی اللہ کی دعوت نہیں دیتا ۔ بلاشبہ اگر ہم نے اس مہینے کو لہو لعب میں گزار دیا تو شاید ہم سے بڑا بدنصیب کوئی نہ ہو۔