منگل کی رات تقریباً ساڑھے بارہ بج رہے تھے، جب مَیں ممبرا ریلوے اسٹیشن پر اترا تو میں نے دیکھا کہ میرے آگے چلنے والا ایک شخص اچانک رک کر مغربی (پہاڑ )کی جانب موبائل سے تصویر کھینچ رہا تھا۔
EPAPER
Updated: March 06, 2025, 2:41 PM IST | Iqbal Ansari | Mumbai
منگل کی رات تقریباً ساڑھے بارہ بج رہے تھے، جب مَیں ممبرا ریلوے اسٹیشن پر اترا تو میں نے دیکھا کہ میرے آگے چلنے والا ایک شخص اچانک رک کر مغربی (پہاڑ )کی جانب موبائل سے تصویر کھینچ رہا تھا۔
منگل کی رات تقریباً ساڑھے بارہ بج رہے تھے، جب مَیں ممبرا ریلوے اسٹیشن پر اترا تو میں نے دیکھا کہ میرے آگے چلنے والا ایک شخص اچانک رک کر مغربی (پہاڑ )کی جانب موبائل سے تصویر کھینچ رہا تھا۔ روک اسے بغور دیکھنے پر پتہ چلا کہ وہ ممبرا جامع مسجد کی نئی عمارت کی تصویر لے رہا تھا جس پر رنگین لائٹنگ لگائی گئی تھی جس سے مسجد پر بنایا گیا گنبدِ خضرا اور مینار دونوں مزید دلکش نظر آرہے تھے۔ مسجد کو رمضان کی مناسبت سے سجایا گیا ہے۔ اس شخص کو دیکھ کر اس کے قریب سے گزرنے والے ۲ ؍لڑکے جن کی عمر ۱۰ تا ۱۲؍ معلوم ہو رہی تھی، وہ بھی مسجد کی تعریف کرنے سے اپنےآپ کو نہیں روک سکے۔ میں انہیں دیکھتے ہوئے ایف او بی کی طرف بڑھا توکئی افراد باربار مسجد کی طرف دیکھتے ہوئے چل رہے تھے۔ مَیں نے سوچا کہ اس کیوں نہ اس منظر کو موبا ئل میں محفوظ کر لوں۔ مَیں بریج پر چڑھ کر اطمینان سے مسجد کی تصویر لینا چاہتا تھا چنانچہ بھیڑ کے گزر جانے کے بعد پلیٹ فارم نمبر۲؍پر اترنے والی سیڑھیوں پر گیا جہاں سے مسجد کا گنبد اور مینار دونوں واضح نظر آرہے تھے۔ مَیں نے یہاں سے مسجد کی تصویر لیناشروع کیا۔ کچھ بغیر فلیش اور کچھ فلیش کے ساتھ تصویریں لیں۔ اس کے بعد آٹو رکشا اسٹینڈ کی طرف پلیٹ فارم اترا تو وہاں ایک شخص نے مجھے روکا اور پوچھا کہ ’’کیا تم تصویر لے رہے تھے؟‘‘ میں نے ہاں کہا۔ اوراس سے پوچھا کیوں ؟ اس نے کہا میری تصویر کیوں لی؟ مجھے گمان ہوا کہ جس وقت میں بریج سے تصویر لے رہا تھا اس وقت وہ شخص پلیٹ فارم پر کھڑا تھا اور اسے ایسا محسوس ہوا کہ مَیں اس کی تصویر لے رہاہوں۔ میں نے اس سے کہا کہ بھائی میں اتنی دور سے تمہاری تصویر کیوں نکالوں گا، مَیں تو خوبصورت جامع مسجد کی تصویر نکال رہا تھا۔ اس پر وہ نادم ہوا اور کہا کہ میں تصویر نہیں کھنچواتا اسی لئے پوچھا، بہر حال مسجد واقعی خوبصورت ہے۔ یہ کہتے ہوئے وہ دوسری جانب نکل گیا۔
ممبرا اسٹیشن سے ہی مسجد کے اطراف دکانوں کے بلب سےدن سی روشنی ہو رہی تھی۔ ایم گیٹ سے روڈ پار کیا تو کیفے شاہ روڈ کے کنارے جہاں پہلے کبھی کیفے شاہ ہوٹل ہوا کرتا تھا آج ’’ایس بی ماوا جلیبی‘‘دکان سجی ہوئی تھی جس پر ماوا جلیبی کے ساتھ دیگر مٹھائی کےاشیا بھی تھی۔ اس کے قریب ہی ساگر سوئٹس اور کچھ دوری پر النور سوئٹس نے بھی مالپوا اور فیرنی اسٹال لگائے تھے جہاں خریداروں کی بھیڑ نظرآئی۔ آفرین چائنیز کے باہر مفت کا کھانا حاصل کرنے والوں کی قطار تھی۔ ان دکانوں سے گزرتا ہواممبرا سنی جامع مسجد کے پاس پہنچا تو وہاں مسجد کی تعمیر کیلئے عطیہ جمع کرنے والے اسٹال پر سلیم سید( جو مسجد انتظامیہ میں شامل ہیں ) اورچند افراد کے ساتھ بیٹھے ہوئے دکھائی دیئے۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے اپنے قریب بیٹھنے کیلئے کہا۔
ان کے پاس بیٹھتے ہی مسجد کے گیٹ پر میری نظر پڑی جو بند دکھائی دیا۔ مَیں نے سلیم بھائی نے دریافت کیا کہ مسجد تو پہلے رمضان میں رات بھر کھلی رہا کرتی تھی تاکہ تاخیر سے آنے والے نماز ادا کر سکیں تو اب کیوں نہیں ؟ سلیم بھائی نے جواب دیا کہ ’’ اب نماز ی کم لیکن دیگر افراد زیادہ آتے ہیں اور لڑائی جھگڑے کا سبب بنتےہیں اس لئے اب رات ایک بجے مسجد بند کر دی جاتی ہے۔ ‘‘ان سے گفتگو کے بعد جیسے جیسے مسجد سےگھر کی جانب چلتا گیا، بلب کی رونقیں کم ہوتی ہوتی گئی۔