کل تک مختلف قسم کے کھانوں اور پکوانوں کے لئے لوگ ممبئی اور محمد علی روڈ کا رخ کرتے تھے لیکن آج لذت کام و دہن کے شوقین افراد کرلا کا رخ کررہے ہیں۔
EPAPER
Updated: March 09, 2025, 12:48 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai
کل تک مختلف قسم کے کھانوں اور پکوانوں کے لئے لوگ ممبئی اور محمد علی روڈ کا رخ کرتے تھے لیکن آج لذت کام و دہن کے شوقین افراد کرلا کا رخ کررہے ہیں۔
ممبئی کی جغرافیائی حدود میں اضافے، ثقافتی، تہذیبی اور معاشی سرگرمیوں میں پھیلائو کے سبب جو نئے علاقے اس عروس البلاد کا مرکز بنے ہیں ان میں کرلا بھی شامل ہے۔ کل تک مختلف قسم کے کھانوں اور پکوانوں کے لئے لوگ ممبئی اور محمد علی روڈ کا رخ کرتے تھے لیکن آج لذت کام و دہن کے شوقین افراد کرلا کا رخ کررہے ہیں۔ یہاں کا ایل بی ایس روڈ اب کھانے پینے کے شوقین افراد کے لئے مختلف مراکز کا اڈہ بن گیا ہے۔ گزشتہ کچھ سال میں اس علاقے نےجتنی ترقی کی ہے وہ شاندار ہے لیکن اب بھی کرلا کی اہم شناخت پائپ روڈ ہی ہےجہاں افطار کے بعد سے محفلیں سجنا شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ بیٹھکیں مختلف چائے خانوں کے آس پاس ہوتی ہیں جہاں دنیا جہان کی گفتگو ہوتی ہے لیکن ان دنوں ان محفلوں میں پولیس کی سختی پر گفتگو زیادہ ہو رہی ہے کیوں کہ اس کی وجہ سے کاروبار پھیکا ہو گیا ہے۔ دکانیں جلد بند ہورہی ہیں اور گلی محلوں میں جو رونق ہوتی تھی وہ بہت کم ہو گئی ہے۔
ایسے ہی ایک گروپ میں ڈائری نگار بھی موجود تھا۔ رفیق بھائی جو نان اور پائو کی گاڑی لگاتے ہیں، نے کہا کہ’’اس مرتبہ پولیس والے بہت پریشان کررہے ہیں۔ نان اور پائو کی گاڑی ہم سحری تک لگاتے تھے لیکن اب ان کی وجہ سے گیارہ ساڑھے گیارہ بجے تک دکان ہر حال میں بند کرنی پڑ رہی ہے۔ ‘‘ عادل انصاری جو پیشے سے وکیل ہیں ، نے کہا کہ ’’ پولیس اپنا کام کررہی ہے، جو رُول ہے اس کے حساب سے ہی کام ہو رہا ہے۔ ‘‘ رفیق بھائی جن کا اس رُول سے کاروبار متاثر ہو رہا ہے، کہاں خاموش رہنے والے تھے، کہا کہ’’ بھائی رُول تو بہت سارے ہیں لیکن ان میں سے کون سا نافذہوتا ہے ؟ یہ صرف ہم دھندے والوں کو پریشان کرنے اور وصولی کرنے کا طریقہ ہے۔ سنا ہے اپنے یہاں کے ہی کسی نے شکایت کردی ہے۔ ‘‘ عادل ایڈوکیٹ گویا ہوئے کہ’’ چلو اچھا ہوا کسی نے تو ہمت کی، ورنہ یہاں ایسا ہی چلتا رہتا۔ یہ اچھا ہی ہے کہ دکانیں جلد بند ہوں گی، چائے خانے بند ہوں گے تو بلاوجہ کی ہوٹل بازی نہیں ہو گی اور لوگ جلدی گھر جاکر سوئیں گے۔ یہ رات رات بھر جاگنا کہاں کی تُک ہے ؟ جاگنا ہی ہے تو عبادت کرو، مساجد کو آباد کرو، چائے خانوں اور پنواڑیوں کو فیض پہنچاکر کیا ہونے والا ہے ؟‘‘
اس بحث کو دوسرے رخ پر جاتا دیکھ کرہم نے معاملہ سنبھالنے کی کوشش کی اور کہا کہ ’’ ایسا لگ رہا ہےکہ اس سال مساجد میں مصلیان کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ کیا آپ کو نہیں لگتا ؟ میں تو یہ بات کھل کر محسوس کر رہا ہو ں۔ ‘‘اکرم خان جو کافی وقت سے خاموشی سے چائے کی چسکیاں لےرہے تھے، بول پڑے کہ ’’بھائی، ملک کے حالات بھی تو دیکھو، کیا ہو رہا ہے اور کس طرح سے پوری ایک قوم کو دبانے کی کوشش ہو رہی ہے، ان حالات میں جب مسلم پرسنل لاءبورڈ بھی قنوت نازلہ کا اہتمام کرنے کی بات کہہ دے تو پھر عام مسلمانوں کی کیا حالت ہو گی۔ اسی لئے اب مسلمان زیادہ سے زیادہ عبادتوں کی طرف رجوع ہو رہا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ اس بات کی گواہی ہے کہ ’’ہر شر میں خیر پوشیدہ ہے۔ ‘‘
اس محفل سے آگے بڑھ کر پائپ روڈ مسجد کے قریب پہنچے تو وہاں کا سماں دیکھ کر محسوس ہی نہیں ہوا کہ یہ رات کے ۱۲؍ بج رہے ہیں۔ اس مسجد کو جسے مرکز مسجد بھی کہا جاتا ہے دوسری تراویح شروع ہے، اس میں بھی مصلیان کی اتنی ہی تعداد موجود ہے جو پہلی تراویح میں ہوتی ہے۔ کچھ دیر میں یہ تراویح مکمل ہو جائے گی۔ اسی انتظار میں مسجد کے باہر فقیروں کی بڑی تعداد موجود ہے جو اللہ والوں کی منتظر ہے۔ انہی میں ہمیں کچھ کشمیری افرادبھی نظر آئے جو وضع قطع سے تو ٹھیک ٹھاک نظر آرہے تھے لیکن ان کے پھیلے ہوئے ہاتھ ہمارے لئے باعث ندامت تھے۔ جو ریاست ہندوستان کےسر کا تاج ہے وہاں کے لوگ ایسے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں یہ دیکھ کر ہمیں شرمندگی محسوس ہوئی۔ ان کے قریب پہنچے تو انہوں نے التجا بھری نظروں سے ہماری طرف بھی دیکھا لیکن ہم نے جیب میں ہاتھ ڈالنے سے قبل ان کا حال چال پوچھا تو معلوم ہوا کہ کشمیر سے تو ہیں لیکن خانہ بدوش ہیں۔ چونکہ یہ وقت کشمیرمیں موسم کی آخری لیکن شدید برف باری کا ہوتا ہے اس لئے یہ نسبتاً گرم علاقوں کی طرف کوچ کرجاتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ ہاتھ پھیلانا نہیں چاہتے لیکن کوئی انہیں یہاں کام دینے کو تیار نہیں ہوتا ہے، اس لئے مجبوراًوہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے یہ کرتے ہیں۔ ہم نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور جو کچھ ہاتھ آیا وہ انہیں دے کر آگے بڑھ تو گئے لیکن یہ احساس کچوکے لگاتا رہا کہ جس قوم کو امامت کے منصب پر فائز کیا گیا تھا وہ اس طرح سے ہاتھ پھیلانے کومجبور ہو گئی ہے۔