آفس کے ڈراپ نےکرلا اسٹیشن کے قریب اتاراتوبازار کھلا ہوا تھا اور لوگ خریداری میں مصروف نظر آئے۔ مجھے کچھ حیرت ہوئی کیونکہ ابھی کچھ دن قبل رمضان المبارک ہی نہیں بلکہ اس سے قبل بھی ساڑھے ۱۰؍ بجتے ہی پولیس اہلکار گاڑی میں چکرلگانا شروع کردیتے اور اعلان کرتے کہ دکانداراپنی دکانیں بند کردیں۔
کرلا کے اسٹیشن روڈ پردکانیں اب دیر رات تک لگنے لگی ہیں۔ تصویر: آئی این این
۸؍رمضان المبارک، وقت : ۱۰؍ بجکر ۵۶؍ منٹ، مقام : کرلا
آفس کے ڈراپ نےکرلا اسٹیشن کے قریب اتاراتوبازار کھلا ہوا تھا اور لوگ خریداری میں مصروف نظر آئے۔ مجھے کچھ حیرت ہوئی کیونکہ ابھی کچھ دن قبل رمضان المبارک ہی نہیں بلکہ اس سے قبل بھی ساڑھے ۱۰؍ بجتے ہی پولیس اہلکار گاڑی میں چکرلگانا شروع کردیتے اور اعلان کرتے کہ دکانداراپنی دکانیں بند کردیں۔ پہلے پہل اعلان کرکے اور دکانوں پر پہنچ کر بند کرنےکو کہا جاتا رہا۔ بعدازیں سختی کرتے ہوئے بھاری جرمانہ عائد کیا جانے لگا جس سے دکانداروں میں بے چینی پھیل گئی تھی۔ سب سے زیادہ ہاکرس پریشان تھے جن کا کاروباربری طرح متاثر ہورہا تھا۔
آگے بڑھا اوراسٹیشن روڈکی مسجد کے کونے پرپہنچا ۔ وہاں ریڈی میڈ کپڑے والا نظر آیا، جس سےپوچھا : کیا وقت بڑھا دیا گیا ہے۔ اس نے کہا کہ ہاں ۔ پوچھا : کتنے بجے تک ؟ اس نے بتایا :۱۱، ساڑھے ۱۱؍ بجے تک۔ دوسرے نے کچھ ناراضگی سے کہا : لیکن اب بھی پولیس والے چکرلگاتے ہیں۔ پوچھا: کب سے ٹائم بڑھایا گیا ہے تو پہلے والے نے بتایا : ابھی ۲، ۳؍ دن ہوئے ہیں۔
مزید کچھ پوچھے بغیر آگے بڑھ گیا اور مسجد میں چلا گیا۔ اندر چند افراد نماز پڑھ رہے تھے۔ نماز سے فارغ ہوا تو مسجد کے خادم جو کمرے کو صاف کرنے میں مصروف تھے، ان سے پوچھا کہ کیا یہاں تراویح یا جمعہ کی دوسری جماعت نہیں ہوتی۔ انہوں نےنفی میں جواب دیا۔ ان سے کہا : کیا کسی نے مشورہ نہیں دیا کہ یہاں دوسری جماعت بھی ہونی چاہئے کیونکہ کافی لوگ یہاں کاروبار کرتے ہیں۔ اس پر انہوں نے پہلے منہ میں دبے پان کے پیک کو سنبھالا تاکہ بولتے وقت تھوک نہ اڑجائے پھر کہا : جمعہ میں ٹیرس والا حصہ بھی نہیں بھرپاتا ہے تو دوسری جماعت کیسے کی جائے۔ چونکہ ٹرین کا وقت ہونے والاتھا اس لئے خادم مسجد سے مزید کچھ بات کئے جلدی سے مسجد سے باہر آگیا۔
اسٹیشن روڈ پر آیا تو اکادکا دکانیں ہی کھلی تھیں ۔ کچھ پھیری والے تھے جو سامان پیک کررہے تھے۔ چہل پہل بھی کم ہوگئی تھی۔ ریلوے اسٹیشن پہنچا اور ٹرین میں سوار ہوکر اپنی منزل کیلئے روانہ ہوگیا۔
وقت : رات ایک بجکر ۱۵؍ منٹ، مقام : نیرل
ماتوشری نگر میں ریپڈ ریسیڈنسی پہنچا تو راستےمیں ۲؍ نوجوانوں کو ٹہلتے دیکھا۔ ندیم اور سلمان جو مجھے اچھی طرح جانتے تھے۔ مجھے دیکھ کر سلام کیا۔ سلام کاجواب دیا۔ دونوں نے مصافحہ کیا۔ خیرخیریت پوچھنے کے بعد سلمان جو پہلے گوونڈی میں رہتا تھا، کہنے لگا کہ ابوعاصم کو نکال دیا جائے گا اسمبلی سے۔ اس پر ندیم جو پہلے میراروڈ میں رہتا تھا، نے تعجب سے پوچھا : کیوں ۔ سلمان نے بتایا : اورنگ زیب پر بیان دینے کی وجہ سے۔ اس موضوع پر ان دونوں سے گفتگو کے دوران کچھ تاریخی واقعات کا تذکرہ بھی ہوا۔ وہ دونوں نوجوان تھے اور ملک کے موجودہ حالات کی وجہ سے انہیں اس بات کا احساس تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ ملک میں ناانصافی ہورہی ہے۔ تعصب برتا جارہا ہے۔ ان میں اس تعلق سے کافی بے چینی نظر آئی۔ یہ فکرمندی کی بات ہے اوران حالات میں نوجوانوں کی صحیح رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔
پندرہ سترہ منٹ تک گفتگو کا سلسلہ چلتا پھر ان دونوں کو میرے کام سے تھکے ہارے واپس آنے اور بھوکے ہونے کا احساس ہوا تو مجھے اللہ حافظ کہہ کر رخصت کیا اور آگے بڑھ گئے۔
۹؍رمضان المبارک، وقت : شام ۷؍ بجکر ۱۵؍ منٹ، مقام :باندرہ کلانگر
آفس میں افطار کرنے کے بعد چائے پینے کیلئے باہر نکلا تو کافی چہل پہل تھی لیکن اس علاقے میں وہ ماحول نہیں رہتا جو رمضان المبارک میں مسلم علاقوں میں نظرآتا ہے کیونکہ یہاں مسلمانوں کی آبادی تقریباً نہیں ہے۔
سڑک کے کنارے سے گزرتے ہوئے مجھے وہ لڑکا نظر نہیں آیا جو چکن کانڈی اور چکن ہی کےکچھ آئٹم ایک ٹھیلے پر بیچتا تھا۔ اس سے قریب ایک معمرپھول فروش سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ کلکٹر آفس کے گیٹ کے سامنے دھندہ لگاتا تھا اس لئےکلکٹرآفس کے واچ مین نے آکر اسے دھندہ لگانے سے منع کیا تھا۔ پھول فروش نے یہ بھی بتایا کہ بعد میں وہ دھندہ لگارہا تھا، پتہ نہیں آج کیوں نہیں آیا۔
ہمارے آفس کے دوسری جانب کے گیٹ کے قریب ہی ایک اسٹال ہے جہاں چکن کے آئٹم ہوتے ہیں اور کافی لوگ وہاں کھانے کیلئے آتے ہیں۔ اسی لئے جب میں نے اس لڑکے کو دھندہ لگاتے نہیں دیکھا تو تجسس ہوا کہ کہیں اس کے ساتھ کوئی مسئلہ تو پیش نہیں آیا۔