مضان المبارک میں میراروڈ میں بھی شہر ومضافات کے دیگر علاقوں کی طرح رونقیں ہواکرتی تھیں۔ یہاں کےمہذب شہری بھائی چارگی سے اس ماہ مبارک کی خوشیوں میں شریک ہوتےتھے۔
EPAPER
Updated: March 15, 2025, 2:27 PM IST | she | Mumbai
مضان المبارک میں میراروڈ میں بھی شہر ومضافات کے دیگر علاقوں کی طرح رونقیں ہواکرتی تھیں۔ یہاں کےمہذب شہری بھائی چارگی سے اس ماہ مبارک کی خوشیوں میں شریک ہوتےتھے۔
رمضان المبارک میں میراروڈ میں بھی شہر ومضافات کےد یگر علاقوں کی طرح رونقیں ہواکرتی تھیں۔ یہاں کےمہذب شہری بھائی چارگی سے اس ماہ مبارک کی خوشیوں میں شریک ہوتےتھے۔ لودھا روڈ سے نہال کارنر اور حیدری چوک سے این ایچ اسکول تک کی سڑکوں کو قمقموں اور دیگر آرائشی سازو سامان سے دلہن کی طرح سجایا جاتا تھا۔ ان سبھی علاقوں میں افطاری اور سحری میں روزہ داروں کاہجوم ہوتاتھا۔ ہر بازار میں ہر طرح کی اشیائے خوردو نوش کی دکانیں سجی ہوتی تھیں۔ عمررسیدہ، نوجوان اوربچے جوش وخروش سے نماز کے وقت مساجد کی جانب رواں دواں دکھائی دیتےتھے۔ ہر طرف خوشیوں کا دَور دَورہ ہوتا تھا لیکن ۲؍سال قبل ہونے والے فرقہ وارانہ فساد نے یہاں کی رمضان کی چہل پہل اور رونقوں کو جیسے گہن لگا دیا ہے۔ رمضان کی سرگرمیاں کم ہوگئیں، بھیڑبھاڑاور خوشیاں پھیکی پھیکی دکھائی دینے لگی ہیں۔
نیانگر سےمتصل نریندر پارک کے گیٹ کے باہر شورما، پیزا، برگر، چکن رول، سموسمہ، کھچڑا، سیخ کباب، رشین کباب اورپلاؤکی دکانوں پر خریداروں کی بھیڑ ہوتی تھی۔ یہاں صرف نیانگر کے نہیں دیگر علاقوں کے روزہ دار اور کھانے کے شوقین آتے تھے۔ اب یہ منظر دکھائی نہیں دیتا۔ نریندر پارک کی دوسری جانب ڈرائی فروٹ کی متعدد دکانیں لگتی تھیں۔ امسال اس جگہ پولیس کا اسٹیج بن گیا ہے جس سے یہاں کی چہل پہل بھی ختم ہوگئی ہے۔ رمضان شروع ہونے کے ایک دن پہلے بی ایم سی اور پولیس نے گائیڈ لائن جاری کی، جس کےتحت سڑک کے کنارے سفید لائن کے پٹے کھینچے گئے ہیں ۔ حیدری چوک سے نہال کارنر تک ٹھیلے، پھیری والے اور دکانداروں کیلئے ایک حد مقرر کردی گئی ہے۔ اس لائن کے اندر ہی وہ کاروبار کرسکتےہیں۔
اس کی وجہ سے عام آدمی کو سہولت تو ہوئی لیکن دکاندارو ں کاکاروبار بری طرح متاثرہواہے۔ ٹریفک کنٹرول کیلئے نہال کارنر اور این ایچ اسکول تک بیرک لگادیئےگئے ہیں۔ یہاں سےصرف ٹووہیلر ہی گزرسکتی ہیں۔ چار پہیہ گاڑیوں کی آمد و رفت موقوف ہے مگر راہ گیروں کو راحت نہیں کیونکہ ٹووہیلر والے راستوں پرلاپروائی سےگاڑیاں پارک کر دیتے ہیں۔
امسال ریڈی میڈ کپڑوں کی بہار آئی ہوئی ہے۔ نیانگر کے علاقے میں خواتین اور بچوں کے ریڈی میڈ کپڑوں کی کئی دکانیں زرق برق ملبوسات سے روشن ہیں۔ ہماری ہمسایہ سلمیٰ آپا نے کہا کہ میں پہلے کرافورڈ مارکیٹ، پائیدھونی اور محمد علی روڈ جاکر عید کے کپڑوں کی خریداری کرتی تھی لیکن اب یہاں پر ہی تمام ویرائٹی اور مناسب دام میں کپڑے اور سینڈل مل جاتی ہیں اس لئے اب ممبئی نہیں جانا پڑتا۔ یہاں نالا سوپارہ، وسئی، نائیگاؤں اور ویرار کے مسلمان بھی خریداری اور کھانے کے شوقین افراد آتے ہیں۔ باندرہ، اندھیری اور ملاڈ وغیرہ سے کاروبار کرنے کیلئے تاجر آتے ہیں۔ سلمیٰ آپا نےیہ بھی بتایا کہ ایک صاحب جو انگوٹھیاں بیچتے تھے، کافی کمزور اور ضعیف تھے، انہوں نے ایک ڈبے میں کئی انگوٹھیاں رکھی تھیں ۔ وہ ڈبے کو گاہکوں کو دکھا رہے تھے، مجھے بھی ایک انگوٹھی پسند آئی، میں نے خرید لی۔ بعدازیں میں نے ان سے پوچھ لیا کہ آپ کے ہاں کوئی اور کمانے والا نہیں جو آپ اس عمر میں اتنی مشقت اُٹھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں تین بیٹیاں ہیں، ایک بیٹی کی شادی ہوگئی ہے، دوسری کی عید بعدگاؤں میں ہونی ہے، اس لئے میں ملاڈ مالونی سے یہاں آکر دھندہ کرتا ہوں۔ ان کی بات سن کر میں نے انہیں کچھ روپے دینے چاہے لیکن انہوں نے انکار کردیا اور کہا کہ میں محنت مزدوری کرکے ہی پیسہ کمانا چاہتا ہوں اور اوپر والے کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہوں۔ اسے کہتے ہیں خودداری۔
میرا روڈ کے بیک روڈ پر کئی ہوٹلوں میں غریبوں کے کھانے کا انتظام ہے۔ صاحب حیثیت لوگ ہوٹل مالک کواپنی سہولت کے مطابق رقم دے کر غریبوں کو کھانا کھلا دینے کیلئے کہتےہیں۔ فقیروں کو بھی معلوم ہوگیا ہے کہ یہاں کھانا ملتاہے یہی وجہ ہے کہ یہاں بھیک مانگنے والوں کی بھیڑ موجود رہتی ہے۔ خدا ہی جانتا ہے ان میں کو ن مستحق ہے اور کون نشہ کرنے والا ہے جسے بازآبادکاری کی ضرورت ہے۔
رمضان میں مسجد الشمس کے مصلیان کو دیکھ کر رشک آتا ہے بالخصوص نمازِ عشاء اور تراویح کیلئے نمازیوں کا جوش و خروش۔ مسجد کے دروازوں اور باہر کی طرف بھی نمازیوں کا مجمع رہتا ہے۔ یہ دیکھ کر خیال آتا ہے کہ کاش نمازیوں کا یہ جوش و خروش رمضان المبارک کے بعد بھی دکھائی دے!