ہم نے اپنا رخ نئے ممبرا کی طرف موڑ لیا۔ یہ علاقہ ایم ایم ویلی کہلاتا ہے۔ اگر ممبرا کو آپ ممبئی تصور کرلیں تو ایم ایم ویلی اس کا باندرہ یا جوہو سمجھا جا سکتا ہے۔
EPAPER
Updated: March 16, 2025, 12:57 PM IST | Nadir | Mumbai
ہم نے اپنا رخ نئے ممبرا کی طرف موڑ لیا۔ یہ علاقہ ایم ایم ویلی کہلاتا ہے۔ اگر ممبرا کو آپ ممبئی تصور کرلیں تو ایم ایم ویلی اس کا باندرہ یا جوہو سمجھا جا سکتا ہے۔
تقریباً نصف رمضان گزر چکا ہے لیکن ممبرا میں رکشا والوں نے اسٹیشن سے امرت نگر کی سواریاں اٹھانی بند نہیں کی ہیں اس کا مطلب ہے کہ اب تک امرت نگر میں نہ خریداروں کی بھیڑ ہے نہ ہی ٹریفک جام ہوا ہے۔ آپ رکشا پکڑ کر جب ممبرا کے وسط میں واقع دارالفلاح مسجد پہنچتے ہیں تو اس کے ٹھیک سامنے آپ کو نعیم خان ( سابق میئر، تھانے) کا بنگلہ دکھائی دیتا ہے جس کے نیچے پانی پوری کی ایک بڑی سی دکان ہے۔ اس دکان پر یوں تو سال بھر بھیڑ ہوتی ہےلیکن رمضان میں یہاں رات ۲؍ بجے تک اور آخری دنوں میں اس کے بعد بھی گہما گہمی دکھائی دیتی ہے۔ رمضان کے پہلے عشرے میں یہ ۱۲؍ بجے سے پہلے ہی بند دکھائی دینے لگی۔ آج کھلی ہوئی نظر آئی، ابھی رات کے ایک نہیں بجے تھے مگر ملازمین دکان بند کرنے کی تیار کر رہے تھے۔ ہم نے ایک سے پوچھا ’’ کیا بات ہے، دکان جلدی کیوں بند کر دیتے ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’ افطار کے بعد لوگوں کے پیٹ بھرے ہوتے ہیں کوئی پانی پوری کھانے نہیں آتا۔ ‘‘
ہم نے یاد ددلایا ’’ہر رمضان میں تو ایسا نہیں ہوتا؟‘‘ اس نے کہا ’’ ہاں اس سال پبلک بہت کم ہے۔ ‘‘ ہم نے پوچھا ’’ پولیس کے پرمشن کا کوئی مسئلہ تو نہیں ہے؟ ‘‘ اس نے بتایا ’’ نہیں پولیس تو کبھی آئی ہی نہیں۔ ‘‘
ہمیں حال ہی میں شائع ہوئی ایک رپورٹ یاد آگئی جس میں کہا گیا تھا کہ ملک میں ۱۰۰؍ کروڑ لوگوں کے پاس خرچ کرنے کیلئے پیسے نہیں ہیں۔ ان ۱۰۰؍ کروڑ لوگوں میں ممبرا والے بھی تو ہوں گے۔ بازار میں بھیڑ ناقابل یقین حد تک کم ہے۔ سامنے مرضیہ شانو پٹھان اور ان کی ٹیم کے لگائے ہوئے واچ ٹاور پر لگے ہوئے مائیک خاموش ہیں، ہٹو بچو کی کوئی آواز نہیں ہے۔ ورنہ اتنے وقت وہاں سے ’’ بھائی ذرا یہاں سے بائیک ہٹالو، رکشا والے یہاں سے پسنجر نہ بٹھائیں ‘‘ جیسی آوازیں آتی رہتی ہیں۔ یونیفارم پہنے رضاکار بھی ایک کنارے کھڑے کسی ناہمواری کا انتظار کر رہے ہیں لیکن انہیں نہ سیٹی بجانے کا موقع مل رہا ہے نہ ہی کسی کو ٹوکنے کا۔ اقصیٰ ہوٹل اور ساگر ہوٹل پر اب نوجوانوں کی کچھ بھیڑ دکھائی دے رہی ہے۔ دو ایک روز پہلے وہ بھی نہیں تھی۔
ہم نے اپنا رخ نئے ممبرا کی طرف موڑ لیا۔ یہ علاقہ ایم ایم ویلی کہلاتا ہے۔ اگر ممبرا کو آپ ممبئی تصور کرلیں تو ایم ایم ویلی اس کا باندرہ یا جوہو سمجھا جا سکتا ہے۔ نئی نئی ترتیب وار عمارتیں، سجی سجائی دکانیں، اور سلیقے سے سڑک پر گزرتی ہوئی رکشا یا بائیک۔ ایسا لگتا ہے ہم کسی اور دنیا میں آ گئے ہیں۔ سامنے ہمیں ایک بڑا سا شو روم دکھائی دیا جس کا نام تھا ’’ ڈی سی مین‘‘۔ طالب علمی کے زمانے سے ہمارے ذہن میں یہ سوال تھا کہ اگر یوپی کے شاعر ’سجن ‘ کو ’سجنواا ‘ اور ’بلم ‘ کو ’بلموا‘ لکھ سکتے ہیں تو ممبئی کے قلمکار ’ آ رہا ہے‘ کو’ آریلا‘، اور کھا رہا ہے کو’ کھا ریلا‘ کیوں نہیں لکھ سکتے؟ ہمارے بڑوں نے ہمیں یہ کہہ کر خاموش کروا دیا کہ وہ یوپی والوں کی’ بولی‘ ہے اور یہ ممبئی والوں کا’ بگاڑ‘۔ قلمکاروں نے نہ سہی دکانداروں نے ممبئی کے محاوروں اور اصطلاحات کو اپنانا شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ کسی رمضان میں ایک دکان دکھائی دی تھی ’فائیو بھنٹائز‘ ( ۵؍ بھائی) اب یہ شوروم نظر آیا ’ ڈی سی مین ‘ممبئی میں ڈی سی کہتے ہیں ’’ ڈریسنگ ‘‘ کو اور یہاں ’ڈی سی مین ‘ کے معنی آپ لے سکتے ہیں ’خوش لباس شخص‘ کے۔ بہت بڑی دکان ہے۔ اسے دیکھ کر ایک رعب پیدا ہوتا ہے لیکن مرعوب ہونے کیلئے وہاں لوگ ہی نہیں ہیں۔ علاقہ خالی ہے۔ چلتے چلتے ہی ایک خوبصورت سی امباسیڈر کار نظر آئی جو پوری طرح سے پیلے رنگ سے رنگی ہوئی تھی۔ ایک صاحب کار کے پیچھے ڈکی میں گیس کا چولہا لگائے اس پر مرغیاں بھون رہے تھے۔ کار کے اوپر سائن بورڈ تھا ’’ٹیکسی باربی کیو‘ ضرورت ایجاد کی ماں ہے اور ٹیکسی ان کی دکان۔ نام کیا بتایا یاد نہیں مگر وہ روزانہ رات میں یہاں دکان لگاتے ہیں۔ پھر لوگوں کو چکن کے آئٹم کھلاتے ہیں ۔ اسکے بعد دکان سمیٹ کر اسی دکان یا ٹیکسی میں بیٹھ کر گھر چلے جاتے ہیں۔
آگے کی طرف میزبان ہوٹل نظر آ رہا ہے جو اب بند ہو چکا ہے لیکن گزشتہ سال شروع کیا گیا اس کے’ مفت سحری‘ کا اہتمام اب بھی جاری ہے۔ ابھی سحری میں کافی وقت ہے۔ کرسیاں لگائی جا رہی ہیں۔ ٹیبل ٹھیک کئے جا رہے ہیں۔ وہاں کچھ بچے کھیل رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر سحری کے اس انتظام کا خوب شہرہ ہے۔ اس کی مثال دے کر ممبرا والوں کی دلداری کی تعریف کی جا رہی ہے۔ اس اہتمام کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ کھلانے کیلئے آمدنی کی نہیں نیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ویسےممبرا والوں نے اصل دلداری تو ۱۹۹۲ء میں دکھائی تھی جب ہر طرف سے لُٹ پٹ کر آنے والوں کو گلے لگایا تھا ۔ امیرتو امیر غریبوں نے اپنے حصے کا اناج اور تیل ان مصیبت کے ماروں کو دیا تھا۔ غالبا ً اسی کانتیجہ ہے کہ بابا فخرالدینؒ کی یہ بستی دیکھتے ہی دیکھتے ایک بھرے پورے شہر میں تبدیل ہو گئی جس پر اب لوگ رشک کرتے ہیں۔