Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

رمضان ڈائری : ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا سنتے ہی چڑیاں اچانک خاموش ہوگئیں

Updated: March 17, 2025, 2:30 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

صبح کے ساڑھے تین بجے ایک بچی کی ہنسی کی آواز سن کر خوف محسوس ہونے لگا۔ رونگٹے کھڑے ہو گئے اور ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑ گئی۔ پلٹ کر دیکھا، کوئی نظر نہیں آیا۔ ملگجا اندھیرا تھا اور ہر طرف مکمل خاموشی۔ 

A view of the Baneli Dargah and Mosque, Tatwala. Photo: INN
بنیلی درگاہ اور مسجد، ٹٹوالا کا ایک منظر۔ تصویر: آئی این این

صبح کے ساڑھے تین بجے ایک بچی کی ہنسی کی آواز سن کر خوف محسوس ہونے لگا۔ رونگٹے کھڑے ہو گئے اور ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑ گئی۔ پلٹ کر دیکھا، کوئی نظر نہیں آیا۔ ملگجا اندھیرا تھا اور ہر طرف مکمل خاموشی۔ 
 ماہ مبارک کا ایک عشرہ مکمل ہوگیا ہے۔ عصر کے ابتدائی وقت سے لے کر تراویح کی ۲؍ جماعتیں مکمل ہونے تک بازاروں میں رونق رہتی ہے اور پھر رات کے ساڑھے گیارہ بجے سے بتیاں گل ہونے لگتی ہیں۔ لوگ اپنے گھروں میں قید ہونے لگتے ہیں۔ بعض علاقوں میں کھانے پینے کی اشیاء اور شاپنگ کا انتظام سحری تک عروج پر ہوتا ہے۔ ان علاقوں کو جانے آنے والی سڑکیں خالی خالی سی لگتی ہیں مگر ان کی حدود میں داخل ہوتے ہی انسان روشنیوں میں نہا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ سورج تو غروب ہو گیا لیکن مصنوعی بتیوں نے چپہ چپہ روشن کر رکھا ہے۔ اس قدر شور کہ نجی بات چیت بھی اونچی آواز میں کرنی پڑتی ہے۔ ہم بھی کچھ دیر پہلے اِسی بھیڑ کا حصہ تھے اور اب حیدر نے گھر سے تھوڑی دور یہ کہتے ہوئے ڈراپ کردیا کہ ’’آگے سڑک ٹوٹی ہے۔ ‘‘ ساتھ ہی حکم بھی صادر کیا کہ ’’افطار، بنیلی میں کریں گے۔ ‘‘ اور لوٹ گیا۔ تبھی بچی کے ہنسنے کی آواز نے چونکا دیا۔ تھوڑی دیر بعد قدم آواز کی طرف بڑھنے لگے۔ 
 اب بھیونڈی کے پرانے محلوں میں بیٹھے مکان اور بنگلے نما گھروں کی جگہ بڑی بڑی عمارتیں لے رہی ہیں۔ اسٹریٹ لائٹس میں یہاں وہاں نظریں دوڑاتے ایک کالونی کے گیٹ پر پہنچے تو ہنسی کا منبع نظر آگیا، ساتھ ہی سنائی دیا ’’بابا! مَیں سائیکل چلاؤں ؟‘‘ سات آٹھ سال کی ایک بچی تقریباً دوڑتے ہوئے ایک سائیکل کی طرف جا رہی تھی، اور اس کے پیچھے کم و بیش تیس سال کا ایک نو جوان تھا۔ سائیکل کے ہینڈل پر دودھ کا کین لٹکا ہوا تھا۔ دودھ فروش صبح کی تاریکی میں گھر گھر دودھ پہنچا رہا تھا۔ راقم کی نظریں بچی پر تھیں، جو اتنی صبح بھی کافی خوش نظر آ رہی تھی جبکہ آج کل کے بچے ساری نعمتیں ہونے پر بھی غمزدہ سے لگتے ہیں۔ اسی پل وہ دوڑتی ہوئی جنگلی کبوتروں کے ایک جھنڈ کی طرف بھاگی جو دیوار سے چپکا بیٹھا تھا۔ بچی کی رفتار نے انہیں بے چین کردیا اور وہ غٹرغوں کرتے ہوئے پھُر ہوگئے۔ بچی کھلکھلاتی ہوئی لوٹ آئی۔ اس کا بابا پلاسٹک کی ایک تھیلی میں دودھ بھررہا تھا۔ وہ پوچھنے لگی، ’’بابا! سحری کرنی ہے، گھر کب چلیں گے؟‘‘ بابا نے پدرانہ شفقت سے کہا، ’’بس آخری گھر ہے، چوتھے مالے پر جانا ہے، تم یہیں رُکو۔ ‘‘ ’’مَیں سائیکل چلاتی ہو۔ ‘‘ بچی اپنے سے تقریباً ۳؍ گنا بڑی سائیکل کی سیٹ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہنے لگی۔ باپ نے اُسے سیٹ پر بٹھاتے ہوئے کہا ’’گھنٹی نہیں بجانا، سب سو رہے ہیں۔ ‘‘
 ’’پر ابھی تو سحری کا ٹائم ہے نا؟‘‘ بچی کا اگلا سوال تھا۔ باپ جواب دیئے بغیر عمارت کی طرف بڑھ گیا۔ مگر بچی تو بچی تھی، کتنی دیر باپ کی نصیحت یاد رکھ پاتی، کچھ دیر سائیکل کا ہینڈل ادھر ادھر کرتی رہی اور پھر گھنٹیاں بجانے لگی۔ سناٹے میں گھنٹی کی آواز گونج رہی تھی۔ تبھی عمارت کے گراؤنڈ فلور سے ایک کرخت مردانہ آواز آئی، ’’اے لڑکی! گھنٹی مت بجا۔ ‘‘ بچی سہم گئی۔ 
 نیند خراب ہو جانے کے سبب انکل ناراض تھے اسلئے بچی کی معصومیت اور عمر کی پروا کئے بغیر سخت لہجے میں حکم دے کر کھڑکی کھٹ سے بند کردی۔ تبھی بچی کا باپ آ گیا۔ بیٹی کی رونی صورت دیکھ کر کہنے لگا، ’’گھنٹی نہیں بجانی چاہئے تھی۔ ‘‘ وہ بیٹی کو سائیکل کی سیٹ پر بٹھائے، ہینڈل پکڑ کر خود پیدل چلنے لگا۔ ہنستی کھلکھلاتی اور باتیں بنانے والی لڑکی اچانک افسردہ اور غمگین ہو گئی تھی۔ باپ نے یوں منایا: ’’شام میں افطاری لینے چلیں گے۔ ‘‘ اور وہ پھر خوش ہوگئی۔ 
 بنیلی، ٹٹوالا سے چند کلومیٹر دور ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ یہاں کی مسجد اور درگاہ بنیلی سبھی مذاہب کے ماننے والوں میں مشہور ہے۔ مختلف حاجات کیلئے عقیدتمند یہاں کا دورہ کرتے ہیں۔ ہم جب مختلف کام نپٹا کر پہنچے تو سورج ڈھل رہا تھا۔ نیم، پیپل اور برگد کے درختوں کے سائے میں بنے وضو خانے پر دو ہی افراد تھے جن میں حیدر اور مَیں بھی شامل ہوگئے۔ شدید گرمی میں ٹھنڈے پانی سے وضو کیا تو لگا کسی نے سوکھے پتے پر پانی ڈال دیا ہو۔ مسجد کے صحن میں چھوٹا سا دستر خوان بچھا تھا جس پر ۱۰؍ روزہ دار سر جھکائے بیٹھے اذان کا انتظارکر رہے تھے۔ نظریں دسترخوان پر اور کان اذان کی آواز پر تھے۔ خاموشی میں صرف ایک ہی آواز تھی۔ چڑیوں کے چہچہانے کی۔ پاس کے انتہائی تناور برگد کے درخت پر بے شمار چڑیاں خدا کی حمد و ثناء میں مصروف تھیں۔ عرصہ ہوگیا انہیں دیکھے جنہیں انسانی افعال نے معدومیت کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ تبھی ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا بلند ہوئی، مؤذن کی نہایت شیریں اور کانوں میں رس گھولتی آواز جیسے کسی موسیقار نے ایک ساتھ مختلف قسم کے ساز چھیڑ دیئے ہوں مگر سبھی کا مرکز ایک ہو، خدائے واحد کی کبریائی بیان کرنا۔ روزہ داروں کے ہاتھ خدا کی نعمتوں کی طرف بڑھنے لگے اور چڑیاں اچانک خاموش ہوگئیں، جیسے ان کے دلوں کو قرار آگیا ہو، جیسے انہوں نے خدا کی حمد و ثناء کی باگ ڈور اب اشرف المخلوقات کے ہاتھوں سونپ دی ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK