میں رمضان المبارک میں مستقل عبادت کا قائل ہوں اس لئے کوشش کرتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ وقت اللہ تعالیٰ کی یاد میں گزاروں اس لئے دور دراز کے علاقوں میں ’سیراور پیٹ پوجا‘ کی غرض سے جانا پسند نہیں کرتا۔
EPAPER
Updated: March 18, 2025, 3:03 PM IST | Abdul Karim Qasim Ali | Mumbai
میں رمضان المبارک میں مستقل عبادت کا قائل ہوں اس لئے کوشش کرتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ وقت اللہ تعالیٰ کی یاد میں گزاروں اس لئے دور دراز کے علاقوں میں ’سیراور پیٹ پوجا‘ کی غرض سے جانا پسند نہیں کرتا۔
میں رمضان المبارک میں مستقل عبادت کا قائل ہوں اس لئے کوشش کرتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ وقت اللہ تعالیٰ کی یاد میں گزاروں اس لئے دور دراز کے علاقوں میں ’سیراور پیٹ پوجا‘ کی غرض سے جانا پسند نہیں کرتا۔ چونکہ ماہم علاقہ میرے گھر سے بہت قریب ہے اس لئے کبھی کبھار ہفتہ واری تعطیل کے دوران یہاں کا چکر لگ جاتاہے۔
گزشتہ جمعرات کو بھی اسی قصد کے تحت میرا ماہم جاناہوا تھا۔ تقریباً ۴؍ بجے گھر سے نکلنے کے بعد ساڑھے ۴؍بجے کے قریب ماہم پہنچا۔ سائن بریج ٹوٹ جانے کے بعد یہ سفر تھوڑا طویل ہوچکا ہے کیونکہ دھاراوی میں زبردست ٹریفک رہتا ہے جس سے ۱۰۔ ۱۵؍ منٹ کے سفرمیں اب نصف گھنٹہ صرف ہو جاتاہے۔ ماہم پہنچنے کیلئے ہمارے یہاں سے براستہ سڑک دھاراوی ہی سب سے بہترمتبادل ہے۔ یہاں پہنچنے کے بعد سب سے پہلے ماہم کے بازار روڈ پر ٹووہیلر پارک کرنے کے ساتھ ہی خوانچہ والوں کا دیدار ہوجاتاہے۔ یہ وہی گلی ہے جو میلے کے دوران کھاؤگلی کہلاتی ہے۔ حالانکہ ساڑھے ۴؍ بجے کے وقت افطاری کاسامان فروخت کرنے والے اپنی دکانیں سجا رہے تھے خوانچے والوں سے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ عصر کے بعد ہی یہاں دکانیں کھلیں گی۔
دفتر کے ایک ساتھی ابراہیم خلیفہ ماہم میں درگاہ کے اطراف میں ہی رہتے ہیں اور انہوں نے بتایاکہ ’’بھائی، یہاں کے وانجہ واڑی، لوہار چال اور درگاہ روڈ اور کھاؤگلی میں بھی تقریباً اسی طرز کے کھانے پینے کی چیزیں ملتی ہیں جسے کھانے کیلئے لوگ محمد علی روڈ کا رخ کرتے ہیں۔ ‘‘ ابراہیم خلیفہ کا گفتگو کا انداز بالکل ’بھائی‘ طرزہوتاہے اوروہ ہمیشہ ایسے ہی لہجے میں بات کرتے ہیں۔ ابراہیم نے بتایاکہ ’’۴؍بجے کے بعد خوانچہ والے افطاری کے سامان کی گاڑیاں لگانا شروع کردیتے ہیں۔ عصر کے بعدیہاں کے مکین سودا سلف لینے نکلتے ہیں جس کی وجہ سے وانجہ واڑی اور درگاہ روڈ کے ساتھ کھاؤ گلی میں بہت بھیڑ ہوجاتی ہے۔ مغرب کے بعدبھیڑ کم ہوجاتی ہے لیکن عشاء کے بعد یہاں واقع ہوٹل آباد ہوجاتے ہیں ، جن میں ماہم کا سب سے مشہور اور پرانا ہوٹل پیراماؤنٹ ہے۔ پہلے یہ ہوٹل دیررات تک کھلا رہتا تھا لیکن سرکاری حکم کی وجہ سے اب جلد ہی بند ہوجاتاہے۔ ‘‘ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’’پیراماؤنٹ کی لائن میں ایک طرف معراج ہوٹل ہے اورتھوڑا آگے چلیں توشہناز ہے۔ ان دونوں ہوٹلس میں بھی رات کوکافی بھیڑ ہوتی ہے۔ ‘‘
ابراہیم بھائی سے رخصت لینے کے بعد میں نے آگے کا رخ کیا۔ بازار روڈ کے سگنل کو پار کرنے کے بعد سامنے ہی حضرت مخدوم شاہ مہائمی کا آستانہ نظر آجاتاہے، کچھ عقیدتمند اسے دربارِ مخدوم بھی کہتے ہیں۔ ماہم علاقہ مخدوم مہائمی کی وجہ سے بہت زیادہ شہرت رکھتا ہے اور جمعرات کو یہاں زائرین کا جم غفیر ہوتاہے لیکن رمضان المبارک میں آنے والے جمعرات کے روز معاملہ اس کے برعکس ہوتاہے۔ یہیں ہمارے ایک عزیز اور شناسا الطاف وسئیکر بھی رہتےہیں جو بہت شفقت اور محبت سے ملاقات کرتے ہیں اور ان کے چہرے کی مسکراہٹ ہی حوصلہ بڑھا دیتی ہے۔
جب بھی درگاہ کی زیارت کیلئے ماہم آنا ہوتاہے تو الطاف وسئیکر سے ملاقات ضرورہوتی ہے۔ درگاہ کے صدر دروازہ پر ہی ان کی پھولوں کی دکان ہے اور وہ اکثر یہیں بیٹھے ملتے ہیں۔ ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ’’ماہ صیام میں درگاہ میں مغرب کے وقت زائرین سے زیادہ روزہ داروں کی تعداد ہوتی ہے۔ ‘‘ اس کے بعد میں نے ان سے سوال کیا کہ ’’ایسا کیوں ؟‘‘ اس پر انہوں نے وضاحت کی کہ ’’ دراصل رمضان کے ایام میں بیشتر افراد اپنے گھروں پر ہی افطار کرنا پسند کرتے ہیں ، اس لئے مخدوم مہائمی کے دربار میں وہ افراد آتے ہیں جو سفر پر ہوتے ہیں یا ضرورتمند ہوتے ہیں۔ ‘‘ درگاہ میں افطار کی تیاری کے تعلق سے الطاف وسیئکر نے بتایا کہ ’’کریم بھائی، آستانہ اور درگاہ جامع مسجد کے درمیان جو گوشہ واقع ہے وہاں افطاری کے فوائل ڈبے تیار کئے جاتے ہیں۔ درگاہ کے خادم اور دیگر مقامی افراد بیٹھ کر پھل کاٹتے ہیں اور انہیں ڈبوں میں سلیقے سے رکھتے ہیں۔ پھلوں کا انتظام مکینوں کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ وہ تھوڑی تھوڑی افطاری لاکر دیتے ہیں جس سے روزہ دار وں کیلئے انتظام ہوجاتاہے۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بوند بوند سے سمندر بن جاتاہے۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہاکہ ’’اس بار پولیس کی سختی کی وجہ سے دکان والوں کو دقت پیش آرہی ہے، بہرحال اللہ تعالیٰ سبھی کی مشکل آسان کردیتاہے۔ ‘‘الطاف بھائی سے گفتگو کے دوران عصر کا وقت ہوگیا اور درگاہ جامع مسجد میں نماز ادا کرنے کے بعد میں نے الطاف بھائی سے اجازت لی اور اپنے گھر افطار کیلئے روانہ ہوگیا۔