کلیان روڈ پر نگینہ مسجد میں نمازِ تراویح کی ادائیگی کے بعد رمضان کی رونق دیکھنے نکل گیا۔ ماہِ صیام میں مرکزی بازار تین بتی کی جسامت میں کافی اضافہ ہو جاتا ہے۔ بازار میونسپل کارپوریشن کی عمارت سے شروع ہوکر، کوٹر گیٹ مسجد، تین بتی، ہوتے ہوئے منڈئی تک پھیل جاتا ہے۔
مرکزی بازار تین بتی میں رات ایک بجے خواتین شاپنگ میں مصروف ہیں۔ تصویر: آئی این این۔
ماہِ صیام عبادت، تقویٰ، صبر، فیض و برکت اور نیکیوں کا مہینہ ہے۔ اس مقدس مہینے میں لوگ اپنے گناہوں کی بخشش، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور مغفرت کے لئے خصوصی عبادات میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ یہ ماہ مبارک ہر مسلمان کے دل میں روحانی خوشی اور عقیدت پیدا کرتا ہے اور قربت ِ الٰہی کا ذریعہ بنتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی رمضان بازاروں، گلیوں اور مساجد میں ایک منفرد چہل پہل اور رونق بھی لے کر آتا ہے۔ چاند نظر آتے ہی صنعتی شہر بھیونڈی ایک نئی روشنی میں نہا جاتا ہے۔ ہر گلی اور بازار میں چمکتی ہوئی روشنیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کوٹر گیٹ مسجد، ہندوستانی مسجد، چٹور گلی، ونجار پٹی ناکہ، سوداگر محلہ، دھامنکر ناکہ، درگاہ روڈ، دیوان شاہ درگاہ، کلیان روڈ، غیبی نگر، شانتی نگر، نظام پورہ … تقریباً ہر علاقے میں افطار سے پہلے بازاروں میں خاصا رش ہوتا ہے۔ لوگ سموسے، پکوڑے، رول، کباب، دہی بڑے، چاٹ، جلیبی، شاہی ٹکڑا، پیزا، برگر، فروٹ اور مختلف مشروبات خریدنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ کھانے پینے کی دکانوں سے اٹھتی اشتہا انگیز خوشبوئیں ہر راہگیر کو متوجہ کرتی ہیں۔
مساجد میں بھی ایک خاص رونق دیکھنے کو ملتی ہے۔ نمازِ تراویح کے لئے لوگ جوق در جوق مساجد کا رخ کرتے ہیں، جہاں قرآنِ پاک کی تلاوت کی گونج فضا میں نورانی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ شب بیداری اور سحری کے وقت شہر جاگ رہا ہوتا ہے۔
۱۵؍رمضان کوروشن باغ مسجد سے نمازِ عصر ادا کر کے باہر آیا تو افطار خریدنے والوں کا ایک ہجوم نظر آیا جو ضرورت کی چیزیں خریدنے میں مصروف تھے۔ مسجد سے متصل چند دکانوں کو چھوڑ کر روشن چکن سینٹر کے ارشاد خان سے گفتگو ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ اس مرتبہ کاروبار مندی سے متاثر ہے۔ استفسار پر بتایا کہ’لوگوں کے پاس پیسے ہی نہیں ہیں، وہ خرچ کیا کریں ؟ پاور لوم صنعت وینٹی لیٹر پر ہے، جس کے سبب سبھی کاروبار بری طرح متاثر ہیں۔ ‘
کلیان روڈ پر نگینہ مسجد میں نمازِ تراویح کی ادائیگی کے بعد رمضان کی رونق دیکھنے نکل گیا۔ ماہِ صیام میں مرکزی بازار تین بتی کی جسامت میں کافی اضافہ ہو جاتا ہے۔ بازار میونسپل کارپوریشن کی عمارت سے شروع ہوکر، کوٹر گیٹ مسجد، تین بتی، ہوتے ہوئے منڈئی تک پھیل جاتا ہے۔ سڑک کے دونوں جانب مرد و خواتین اور بچوں کے کپڑے، چپل، دوپٹے، حجاب، زیورات، خوشبوئیں، گھڑیاں، کھلونے، پردے، قالین اور دیگر اشیاء کی دکانیں سج جاتی ہیں۔
بازار میں گھومنے سے اندازہ ہوا کہ لوگ دکانوں کے اندر جانے کے بجائے کم قیمت میں عارضی اسٹالز پر خریداری کو ترجیح دے رہے ہیں۔ قیمت کو لے کرخواتین اوردکانداروں کے درمیان تقریباً ہر اسٹال پر بحث و مباحثہ جاری تھا۔ خواتین کی آپس میں کھسرپھسر بھی سنائی دی۔ بمبئی فرسان کے بازو میں واقع ایک شوروم کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک خاتون کی سرگوشی سنائی دی ”بہن یہ دیکھو!بچوں کے سوٹ کی قیمت ۳؍ہزارروپے کہہ رہے ہیں۔ ‘ دوسری نے سرد آہ کے ساتھ دھیمے لہجے میں کہا ’متوسط طبقے کا اب جینا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ضرورتوں کی فہرست ختم ہونے سے پہلے پیسے ختم ہوجاتے ہیں۔ ‘’سچ کہہ رہی ہو، اب سوچنا پڑتا ہے کہ کس چیز کی زیادہ ضرورت ہے۔ ‘
رمضان کی رونقوں کو دیکھتے ہوئے کھنڈوپاڑہ پہنچا تو ہمارے عزیز اقرار احمد سے ملاقات ہوگئی۔ کافی دن بعد ملاقات ہوئی تھی، دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ انہوں نے بتایا کہ”بچوں کے کپڑوں کی تلاش انہیں یہاں کھینچ لائی، مگرقیمت اور کوالٹی میں اتنا تضاد ہے کہ مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا۔ ایس ایس لاٹ سے بھی مایوس ہو کر نکل آیا ہوں۔ اب شایدکلیان جا کر خریداری کرنی پڑے گی۔ “ اسکریپ کے کاروبار سے وابستہ اقرار احمد کاروباری حالات سے افسردہ نظر آئے۔ بتایا کہ’ان دنوں اسکریپ سے وابستہ تاجروں کا براحال ہے۔ اول توخریدار نہیں ہے، دوسرے نقصان میں مال فروخت کرنے کے بعد بھی مہینوں ادائیگی نہیں ہوتی۔ رمضان کا مہینہ ہے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ رب خیر کرے!‘
دھامنکر ناکہ اجنتا کمپاؤنڈ پہنچا تو ایڈوکیٹ سلیم یوسف شیخ مل گئے۔ ہمیشہ کی طرح خلوص سے ملے۔ دورانِ گفتگو بتایا کہ اس مرتبہ وہ نماز تراویح پڑھنے ہر روز کسی نئی مسجدمیں جاتے ہیں۔ اب تک ۱۳؍مختلف مساجد میں تراویح ادا کر چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’ہر روز کسی نئے حافظ ِ قرآن کی دلکش آواز سنتا ہوں، جو روح کو سکون بخشتی ہے۔ نوجوان حفاظ کی قرات دل کو چھو لیتی ہے۔ ‘ ان کے مطابق ان کا یہ سلسلہ پورے رمضان جاری رہے گا۔